جس رات ایبٹ آباد میں امریکیوں نے اسامہ بن لادن ’’ایکشن‘‘ لیا، اس سے اگلے روز ایک ٹیلی ویژن چینل نے عوامی سروے کیا اور اس واقعہ کے متعلق عام پاکستانیوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ اکثریت نے اسے امریکی سازش قرار دیا۔ کچھ نے اسامہ بن لادن کی تعریفیں کیں۔ چند افراد نے یہ بھی کہا کہ سب کچھ پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ وہیں ایک غیر ملکی بھی تھا۔ اس سے رائے مانگی گئی تو اس نے کہا : ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ امریکی سازش ہے، امریکیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش بھی نہیں دکھائی اس لیے میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اسے واقعی قتل کیا گیا ہے یا نہیں!
یہ ہے ایک جھلک اس فرق کی جو ہمارے انداز ِفکر اور باقی دنیا کے انداز ِفکر میں رونما ہو چکا ہے اور جو بدقسمتی سے دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے آپ مائند سیٹ کہہ لیجیے یا سوچ، یا کوئی اور نام دے دیجیے لیکن یہ ہمارا قومی ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ ہم ثبوت مانگتے ہیں نہ شہادت، جو رائے ہمیں اچھی لگتی ہے ہم وہ مان لیتے ہیں۔ تحقیق یا تفتیش کو ضروری نہیں سمجھتے۔ پھر وہ رائے دوسروں پر ٹھونسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا غدّارِ وطن بھی ہو سکتا ہے اور کافر بھی۔ پھر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے اور ہم اختلاف کرنے والے کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ بالآخر اس کی گردن مار دی جاتی ہے۔
ہمارے اس انداز ِفکر کا تذکرہ ہمارے دشمن ہی نہیں، دوست بھی کرنے لگے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے حال ہی میں ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس میں ہمارے اس اندازِفکر کو ہمارے مسائل کا اصل سبب قرار دیا گیا ہے۔
سعودی عرب سے شائع ہونے والا روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ بیک وقت جدہ، ریاض اور دمام سے نکلتا ہے۔ یہ کاروباری دنیا، سفارتی حلقوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات میں بے حد مقبول ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بہت بڑے ادارے ’’سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ (SRMG)‘‘ کے تیس کے لگ بھگ اخبارات و جرائد میں عرب نیوز کو ممتاز مقام حاصل ہے اور یہ متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر، عُمّان، شمالی افریقہ اور امریکہ میں پڑھا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ متذکرہ بالا SRMG کو سعودی عرب کی حکومت کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب دو ملکوں کو از حد اہمیت دیتا ہے۔ مشرق میں پاکستان کو اور شمال مغرب میں مصر کو۔ اسی فلسفے پر سعودی عرب کی حفاظت اور سیکورٹی کا انحصار ہے۔ یہ دو ممالک سعودی عرب کے دو بازو ہیں۔ مصر میں حالیہ تبدیلی کے بعد جو ٹھہرائو آ گیا ہے اس سے سعودی عرب کو اطمینان حاصل ہوا ہے لیکن اصل مسئلہ سعودی عرب کے مشرقی بازو یعنی پاکستان کے ہر لحظہ بگڑتے ہوئے حالات ہیں۔
ان بگڑتے ہوئے حالات کی تشخیص کرتے ہوئے عرب نیوز کہتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ مالی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ جتنا پیسہ پاکستان کو دیا جائے گا ،سارے کا سارا ضائع ہو جائے گا۔ اخبار امریکہ کی مثال دیتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے امریکہ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی امداد دے رہا ہے لیکن کوئی معجزہ برپا نہیں ہوا اور تشدّد، غربت، کرپشن اور مسلسل ناکامی کا منحوس دائرہ مسلسل گھوم رہا ہے۔ مصر میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے لیکن ایسی کسی کرن کا پاکستان میں دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ اگر کچھ روشنی ہے بھی تو اس آگ کی ہے جو خودکش بمبار لگاتے پھرتے ہیں اور جس کے شعلے چاروں طرف پھیل رہے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اصل مسئلہ پاکستانیوں کے ذہن کی کیفیت یعنی مائنڈ سیٹ ہے۔ پھر وہ ان دوستوں سے معافی مانگتا ہے جو اس بات کو ناپسند کریں گے اور جو ’’سازش‘‘ کے نظریے پر سختی سے یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً پاکستانیوں میں آیوڈین کی شدید کمی ہے لیکن وہ آیوڈین کا استعمال اس لیے نہیں کرتے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف مغربی ملکوں اور بھارت کی مشترکہ سازش ہے۔ دوسری طرف پاکستانی وزارت صحت اور اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحت کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آیوڈین کی کمی کی وجہ سے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد متعدد بیماریوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اسقاطِ حمل، ذہنی عدم ِصحت اور تھائی رائڈ غدودوں کی بیماری، ان میں نمایاں ہے۔ ذہنی اور جسمانی استعداد ِکار میں کمی اور کاہلی بھی آیوڈین کی کمی کا شاخسانہ ہیں اور اقتصادی حالات میں روز افزوں خرابی کا یہ بھی ایک سبب ہے۔
پھر اخبار پولیو کا ذکر کرتا ہے کہ مذہبی طبقات پولیو کی انسدادی مہم کو ناکام کرنے کے لیے قتل و غارت پر اُتر آئے ہیں۔ سعودی عرب، مصر اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں میں یہ انسدادی مہم کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے، لیکن پاکستان میں پولیو کا انسداد تو کیا ہوتا، دن بدن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیو کے کارکنوں کے قتل کے بعد مہم کو روک دیا گیا ہے۔
سعودی اخبار لکھتا ہے کہ بہت سے لوگ اس صورت حال کے ڈانڈے جنرل ضیاء الحق سے ملاتے ہیں جس نے بنیاد پرستی اور جہادی افکار کی حوصلہ افزائی کی۔ دنیا بھر سے جہادی آ کر افغان سرحدوں پر آباد ہو گئے اور جہاد میں شامل ہوئے۔ اخبار کے بقول پھر یہ ’’تجربہ کشمیر میں دہرایا گیا۔‘‘ سعودی حکومت کے قریب سمجھے جانے والے اس اخبار کا مضمون نگار یہ بھی لکھتا ہے کہ اس نے نوے کی دہائی کے آخر میں ’’کشمیریوں کا ایک تربیتی کیمپ خود دیکھا۔‘‘
اخبار کا خیال ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ انتہا پسندی ہے جو حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ’’دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک کی نسبت یہ (انتہا پسندی) عقلی اور عملی لحاظ سے، اس قوم میں سب سے زیادہ پھیل چکی ہے۔‘‘ عراق کو چھوڑ کر خودکش آپریشن سب سے زیادہ یہیں ہو رہے ہیں۔ یہ خودکش سرگرمیاں مسجدوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر کی جا رہی ہیں اور یہ صرف فوجیوں کے خلاف نہیں ہیں! اخبار کے بقول… ’’طالبان کے مفتی کے نزدیک اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک نوجوان بازار یا کسی عوامی مقام پر، یہاں تک کہ مسجد میں بھی، اپنے آپ کو اڑا کر خودکشی کر لے تاکہ اپنے ٹارگٹ کو مار سکے۔‘‘اس غیر معمولی مضمون کا آخری پیراگراف اس قابل ہے کہ اس کا لب لباب نہیں، بلکہ پورا پورا ترجمہ پیش کیا جائے:…
’’پاکستانی علما (اس ضمن میں) کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو آواز بلند کرتے ہیں اور طالبان پر تنقید کرتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں۔ علما کا ایک اور بڑا گروہ موقع پرست ہے اور مذہب کو سیاست میں استعمال کرتا ہے۔ یہ علما طالبان کے جرائم کے بارے میں خاموش رہتے ہیں تاکہ حکومت کے ساتھ اپنے جھگڑے میں انہیں استعمال کریں۔ ایک تیسرا گروہ بھی ہے۔ اس نے عافیت کو چنا ہے اور سکوت اختیار کیے ہوئے ہے…‘‘
یہ ضروری نہیں کہ ہم سعودی روزنامے کے اس مضمون سے حرف بہ حرف اتفاق کریں۔ ہمیں اختلاف کرنے کا حق ہے۔ لیکن اس مضمون کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ کسی مغربی، بھارتی یا اسرائیلی جریدے میں نہیں بلکہ جدہ اور ریاض سے شائع ہوا ہے اور اس اخبار میں شائع ہوا ہے جو سعودی حکومت کے قریب ہے۔ پھر یہ اخبار پورے مشرق وسطیٰ، مصر اور امریکہ میں پڑھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ سعودیوں کی نئی نسل کثیر تعداد میں یورپ اور امریکہ سے تعلیم حاصل کر چکی ہے اور اب عرب نیوز جیسے انگریزی اخبارات کی اہمیت بہت زیادہ ہو چکی ہے!