“ ہیلو مسٹر اعوان۔ویلکم ٹو دوبئی “سشما نے بڑے خلوص سے شاکر اعوان صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
سفید ریش اور بزرگ صورت شاکر اعوان نے جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ سشما کے چہرے پر شرمندگی، پریشانی، خفگی کے کئی رنگ آکر گذر گئے۔
اور یہ “لی “ ہے۔ میں بڑے جوش سے دونوں بازو پھیلائے “لی “کی جانب بڑھتا ہوں کہ اسے اپنی باہوں میں بھر لوں۔ لی پریشانی کے عالم میں پیچھے ہٹتا ہے اور دونوں ہاتھ جسم سے چپکا کر جھکتا ہے۔
سشما میری کمپنی میں مارکیٹنگ کے شعبے میں ہے۔ اسے صبح شام کئی میٹنگز اٹینڈ کرنا ہوتی ہیں اور کئی لوگوں سے ملتی ہے۔ لوگوں سے خوش گفتاری سے پیش آنا اور ہاتھ ملانا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ شاکر اعوان صاحب سعودی عرب میں ہمارے ایک بہت بڑے ڈیلر کے نمائندے ہیں۔ نہایت ہی نیک اور عبادت گذار انسان ہیں۔ چہرے پر یہ بڑی ساری نورانی داڑھی اور ماتھے پر بڑا سا گٹا ہے جو ان کے زہد وتقاء کی گواہی دیتی ہے۔ ایک تو وہ پہلے ہی بہت شریف اور اللہ لوک آدمی ہیں۔ دوسرے سالہا سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں جہاں بے پردہ عورت دوا میں ڈالنے جتنی بھی نہیں نظر آتی تھی۔
سعودی عرب جہاں میں آج سے تین عشرے قبل ملازمت کرتا تھا اور میرا بوڑھا گورا باس اکثر کہتا تھا “ یقین کرو۔یہاں تو اونٹنی بھی خوبصورت لگتی ہے”
Believe me, even cow looks beautiful here
تو اس سعودی عرب میں مدتوں سے رہنے والے ، نیک ، پرہیزگار اعوان صاحب کے لئے ایک چلتی پھرتی، زندہ اور اسکرٹ پہنی ہوئی عورت سے ہاتھ ملانا یقیناً گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا تھا۔ بجا طور پر انہوں نے اپنا ایمان بچایا تھا۔
“ لی” چینی تھا اور ہانگ کانگ میں ہماری کمپنی میں میرا ہم منصب تھا۔ میری اس سے فون پر گاڑھی چھنتی تھی۔ ہم کئی سال سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دفتری باتوں کے علاوہ بھی گپ شپ کرتے تھے۔ وہ پہلی بار دوبئی آیا تھا اور میں اس سے اپنی دوستی اور بے تکلفی کے اظہار کے لیے اپنے دیسی اسٹائل سے “ جھپی” ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن چینیوں میں دوستی کے اظہار کے لیے جسمانی اتصال بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ چینی، جاپانی، کورین خلوص اور احترام کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے کورنش بجا لاتے رہتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ملنے ملانے اور سلام دعا کے یہ سارے طریقے ہر ایک کے اپنے اپنے ہیں۔ ہر علاقے اور ہر خطے میں طرح طرح سے لوگ دوسروں سے شناسائی اور احترام کا اظہار کرتے ہیں جو بعض اوقات دوسروں کے لیے اچنبھے کا باعث بنتا ہے۔
اپنے ہاں ہی لے لیں۔ مجھے یاد ہے اسکول اور کالج کے زمانے میں ہم صرف ہاتھ ملایا کرتے تھے۔ عید بقرعید پر تین بار گلے ملتے تھے۔ اب ادھر کچھ سالوں سے گلے ، بلکہ کندھے ملنے کا رواج ہوگیا ہے۔ تہوار والے دن ہم اجنبیوں سے صرف ہاتھ ملا کر عید مبارک کہتے تھے اور جان پہچان کے لوگوں سے گلے ملتے تھے۔ اب ہرکوئی پہلے گلے ملتا ہے، لیکن صرف ایک بار۔ بلکہ عید کا پورا دن اسی ادھیڑ بن میں گذر جاتا ہے کہ سامنے والا ایک بار گلے ملے گا یا تین بار۔ آپ تین بار کی نیت سے دوسری جھپی ڈالنے جائیں تو اگلا پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب آپ پہلی جھپی کے بعد الگ ہونے لگتے ہیں تو دوسرا آپ کے بائیں کاندھے پر ٹکر ماررہا ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی مسئلہ ہے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملا کر گلے ملتے ہیں تو کچھ گلے مل کر ہاتھ ملاتے ہیں اور کسی کسی کے سامنے ہاتھ بڑھاؤ تو وہ آگے بڑھ کر کسی اور کو جھپی ڈال رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات دوسرے کا ہاتھ کھینچ کر زبردستی دبانا پڑتا ہے۔
ادھر خواتین نے دوسرا طریقہ شروع کیا ہے جو کم ازکم میں نے اپنے بچپن میں نہیں دیکھا۔ اب وہ ملتے ہوئے یا رخصت ہوتے ہوئے منافقانہ انداز میں بظاہر ایک دوسرے کے گال پر بوسہ دیتی ہیں لیکن گال سے گال ملا کر الگ ہوجاتی ہیں۔ اکثر گرمیوں میں دیکھا کہ پسینے سے بھرے گال ملانے کے بعد ہتھیلی منہ پر پھیرتی ہیں۔
اب چونکہ گلے ملنا رسم بن گیا ہے تو گرمیوں میں پسینے بھرے بدبودار کپڑوں کے ساتھ بھی گلے ملنا لازمی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کسی کی تعزیت کے لیے ایک بزرگ سے ملنے گیا۔ گرمیوں کے دن تھے، وہ گھر سے باہر چارپائی ڈالے بیٹھے تھے اور جسم پر صرف ایک دھوتی اور بنیان تھے۔ اب چونکہ پرسہ جیسا سنجیدہ معاملہ تھا وہ اندر جاکر قمیض پہن کر تو آنہیں سکتے تھے ۔ میں سلام کرکے ان کے گلے لگا تو بغلوں میں بہتے پسینے کے بھببکے نے میرا استقبال کیا۔ کچھ دیر کے لئے تعزیت کے رسمی الفاظ ہی بھول گیا۔
اور عربوں کے ہاں تو یہ مسئلہ کچھ اور اور طرح سے ہے۔ میرا معاملہ ہماری کمپنی کے سعودی عرب میں کفیل سے رہتا تھا۔ وہ ایک بڑا اور بااثر آدمی تھا۔ میں پہلی بار دمام گیا تو اس کے دفتر بھی گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر نہ صرف معانقہ کیا بلکہ عربوں کی طرح تین بار دائیں بائیں گالوں پر بوسہ بھی دیا۔ میں اس کی بندہ پروری سے بہت متاثر ہوا۔ عربوں میں ویسے بھی چھوٹے بڑے کا تصور ہمارے جیسا نہیں ہے۔
اگلی بار کمپنی کی سالانہ ڈنر پارٹی میں وہ اپنی میز پر ہمارے ادارے کے اعلا عہدیداران کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں سلام کرنے کی غرض سے کم اور اپنے بڑے افسران پر یہ رعب جھاڑنے کے لیے کہ دیکھو اتنی بڑی کمپنی کے شراکت دار کے ساتھ میری کیسی بے تکلفی ہے، کفیل سے اسی انداز سے ملا۔ لیکن اس کے گالوں پر بوسوں کے تبادلے کے دوران میں نے بڑی مشکل سے اپنی ابکائی کو قابو کیا۔ اس کا چہرہ نہ صرف پسینہ آلود تھا بلکہ منہ سے شراب کے بھبکے آرہے تھے۔
اور ان عربوں کے ہاں ملنے ملانے کے آداب سیکھنا بھی ایک مکمل سائنس ہے۔ کسی برابر والے سے ملو تو تین بار یا ایک بار گال پر بوسہ دو۔ بزرگ ہے تو پیشانی پر بوسہ، بچہ ہے تو ہاتھ پر بوسہ ، عورت ہے تو ہونٹوں پر بوسہ ( یہ صرف ہم دور سے دیکھا کیے) اور اگر کوئی قابل احترام ہستی ہے تو اس کی پیشانی سے ناک رگڑ دینا ، تعزیت کرنی ہے تو ناک سے ناک ملانا۔۔عربوں سے ملنے سے پہلے یہ سارے قواعد یاد کرنے پڑتے ہیں ۔ اسی طرح قہوہ کی پیالی ختم کرنے کے اصول ہیں جو مجھے آج تک یاد نہ ہوسکے۔ پیالی کو ہلکا سا ہلاتے ہوئے واپس کرنے کا مطلب شاید “ لا اور پلا ساقی” ہوتا ہے۔ اگر الٹا کر واپس کریں تو اس کا مطلب ہے کہ “ بس اب اور نہیں “۔
تو جناب بات یہ ہے کہ اپنا اپنا رواج ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ مختلف طریقوں سے ملتے اور التفات کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ صرف سماجی طور طریقے ہیں اور اس کا دین و مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اور اگر کسی وقتی مجبوری کے باعث انہیں ترک کرنا پڑے تو تعلقات میں کسی طرح کی دراڑ نہیں پڑنی چاہئیے جیسا کہ آج کل وبا کے دنوں میں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کی جارہی ہے تو اس سے حفظ مراتب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ہمارے ہاں ہی پہلے کبھی نہ سلام دعا ہوتی تھی نہ مصافحہ نہ معانقہ۔ بس دور سے آداب، تسلیمات اور کورنش وغیرہ بجالاتے تھے۔ ہنود میں دور سے ہی ہاتھ جوڑ کر پر نام کرنے کا رواج ہے یا پھر بزرگوں کو پیر چھو کر یا دور سے “ پائے لاگوں “ کہہ کر ان کا آشیرواد لینے کا رواج ہے۔ ہم بھی وبا کے دنوں میں ہاتھ ملانے، گلے ملنے اور بوسہ لینے کے بجائے “ ہاتھ لاگوں”، “ گلے لاگوں” اور “ “ منہ لاگوں” کہہ سکتے ہیں ۔ بس یہ دیکھ لیں کہ آس پاس کون ہے اور کس سے ، کیا لگانا ہے۔
یہ تو خیر کچھ ہنسی مذاق کی باتیں ہوگئیں۔ ہمارے دین نے، جو ہے ہی خیرخواہی کا دوسرا نام ، کس قدر باوقار، برکت آمیز اور پرخلوص طریقہ سکھایا ہے اور وہ ہے “ السلام علیکم” کہنا۔
دنیا بھر کے رسمی سلامتی کے الفاظ، آداب، صبح بخیر، گڈمارننگ وغیرہ ہمارے السلام علیکم کی طرح جامع، سادہ، با معنی اور پراثر نہیں ہوسکتے کہ شناسائی، سلامتی، خیر عافیت اور برکت ورحمت کی دعا سب کچھ اس سلام میں شامل ہے۔ “ السلام” جو رب کریم کے بابرکت ناموں میں سے ایک ہے۔ جو خالق کائنات نے آدم کو حکم دیا کے فرشتوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کرو، جس کے جواب میں ملائک نے “السلام علیک و رحمتہ اللہ “ کا اضافہ کیا۔
ایک ایسی دعا جو کسی کو دینے کے لیے کسی تعارف اور تعلق کی ضرورت نہیں۔ان عربوں میں اچھا رواج ہے کہ ہر کسی کو چاہے واقف ہو یا اجنبی ، سلام میں پہل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سلام کا اس طرح رواج نہیں۔ میں کراچی میں رکشہ ٹیکسی والوں کو پہلے سلام کرتا ہوں تو اکثر میرا منہ دیکھتے ہیں کہ وہاں عام طور پر اپنے سے “ کمتر” کو سلام کرنے کا رواج نہیں، نہ ہی مرد حضرات خواتین کو سلام کرتے ہیں ( گھر کے باہر) اور خواتین کا مردوں کو سلام کرنے کا بھی کوئی رواج نہیں۔
عرب نہ صرف سلام میں پہل کرتے ہیں بلکہ اگر دن میں کئی بار بھی ملیں تو گفتگو کا آغاز عموماً سلام سے کرتے ہیں۔ سلام تو رب کی رحمت ہے۔ یہ تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ سب سے بڑا بخیل میرے نبی نے اسے قرار دیا جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
سلام کے اپنےآداب ہیں۔ سلام باآواز اور صاف لہجے میں کرنا چاہیے نہ کہ “ ساں لیکم” ساماں لیکم” قسم کے بے معنی فقروں سے سلام کیا جائے۔ گوکہ سلام میں پہل کرنا افضل ہے لیکن تنہا شخص جماعت کو سلام کرے، باہر سے آنے والا اندر والوں کو سلام کرے، سواری والا پیدل کو سلام کرے، چھوٹا بڑوں کو، شاگرد استاد کو سلام کرے۔ محفل میں آنے والا سب کو سلام کرے اور جانے والا بھی سلام کرے تاکہ سب جان جائیں کہ یہ محفل سے جارہا ہے۔
یقین جانئیے، وبا کے دنوں میں ہاتھ ملانے، گلنے ملنے، بوسے لینے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو سلامتی اور عافیت کی دعا دی جائے۔ رب کائنات ہم سب ہر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے۔ آمین یا رب العالمین
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...