دوران تعلیم مادری زبان کی اہمیت تعلیم میں جو کہ کسی بھی ملک کی ریڈھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ معیاری تعلیم ہی کی بنا پر کئی ممالک دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ جدید ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک نے جدید ٹیکنالوجی اور جدید سہولیات کو "شعبہ تعلیم" ،اسکولز اور کالجز میں فراہم کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں معیاری تعلیم کے بنیاد بہتر ہے اور لوگ معیاری تعلیم کی وجہ سے باشعور ہوگئے ہیں۔ اس لیے تیزی سے سے اپنی "معاشی حالت" پختہ کر رہے ہیں۔ جب کہ ہم اپنی حالت دیکھیں۔ ہمارے کئی ادارے کافی حد تک سست روی کا شکار ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی "تعلیمی پالیسی" کی بات کریں تو یہاں اب تک کسی بھی "تعلیمی پالیسی" کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بدقسمتی سے اپنی مادری زبان کو وہ فوقیت نہیں دی گئی جو حقیقی طور پر دینی چاہیئے تھی یعنی طلباء کو انکی مادری زبان میں میں پڑھنا،لکھنا،بولنا، اور سیکھانا چاہیئے۔ پختونخواہ کے بیشتر طلبہ و طالبات پشتو، ہنکو، یا دوسری زبانیں بولتے ہیں ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی وغیرہ بولتے ہیں، چھوٹی عمر میں بچوں کو اپنی مادری زبان بھی سہی سے بولنا نہیں آتی۔ جبکہ اسکولوں میں ہم ان کو اردو اور انگریزی ایک دم سے سیکھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے گھروں میں سکول جانے والے بچوں سے سے انگریزی یا اردو زبان میں اس مقصد سے بات نہیں کی جاتی کہ وہ اردو یا انگریزی زبان سیکھ جائیں۔ اچانک اسکول میں جب ٹیچر طالب علم سے اردو یا انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو زبان نہ آنے کی وجہ سے طالب علم کا خوداعتمادی کا درجہ کم ہوجاتا ہے اور سیکھنے کا حوصلہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر خوف پیدا ہوتا ہے۔
"ترقی یافتہ ممالک" کی جانب مثال لیتے ہیں تو ان میں میں چین کی اہم مثال ملتی ہے۔ چائنا کی ترقی کا راز اکثر اس کا بہتر نظام تعلیم بتایا جاتا ہے۔ کیونکہ چین کے ہر علاقے میں تعلیم وہاں کی مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ وہاں کی نئی نسل بہتر انداز میں آموزش یعنی learning کر رہی ہے. یہ بہتر نظام تعلیم چین کی معاشی ترقی کی وجہ بنا ہے کہ آج پورے یورپ، امریکہ اور روس سمیت تمام ممالک میں ان کی تیارکردہ اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم نے مشاہدہ کرتے ہیں کہ چین ہر سال اپنی مادری زبان یعنی چینی بین الاقوامی طلباء کو سیکھانے کے لیے سکالر شپ پروگرام متعارف کرواتا ہے۔
گزشتہ دنوں ترکی کے صدر طیب اردوگان پاکستان تشریف لائے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں انہوں نے تقریر انگریزی یا دوسری زبان میں نہیں کی بلکہ اپنی مادری یا قومی زبان ترکش میں کی۔ الیکٹرانک ترجمہ کے ذریعے ہم ان کا پیغام سن پائے اور دنیا بھی ان کے پیغام سے واقف ہو پائی۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے نامور ممالک بھی اپنی مادری زبان کو اہمیت دیتے ہیں۔
لیکن پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت میں یہ فقدان دیکھنے کو ملا کہ تعلیم پہلے یوم سے مادری زبان میں دینے کی بجائے بچوں کو پہلے دن سے انگریزی سیکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو کہ ایک ناکام کوشش ثابت ہوتی ہے۔
اب ایک امید کی کرن جاگی ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان پورے ملک میں ایک جیسا تعلیمی نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے نہ سے امیر غریب کے درمیان تعلیم کا فرق اور شعور کا فرق ختم ہوگا بلکہ معیاری تعلیم فراہم ہونے لگے گی۔ ہر صوبے کی زبان ان کی اہمیت تو بتاتی ہے لیکن علاقائی مادری زبان میں تعلیم دے کر پڑھا یا سمجھا کر بہتر انداز میں میں طالبعلموں کو معیاری تعلیم دی جا سکتی ہے۔