بچپن ہیر رانجھا ، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال کے قصے سنتے گزرا ہے ۔ اور ان سب قصوں میں جو ایک مشترکہ بات ان کا ایک نہ ہو پانا تھی ، جس کا ہمیں سارے بچپن میں افسوس رہا ۔ اسی لئے سوچا کہ دور جدید کی ہیر کا رانجھے سے ملن کروایا جائے اور رانجھوں سے تو اپنا گوندلوں کا بھائی وال بھی ہے ۔
اسی مشن پر روانگی کا ارادہ ہوا تو مکمل پلاننگ اور چونکہ ہیر چونکہ جھنگ کی جانب تھل اور چناب کے بیلے میں رہی ہے ۔
جیسا کہ اس شعر میں شاعر کہتا ہے
اسی جھنگ دے واسی لوگ سجن
ساڈا دل دریا ، ساڈی اکھ صحراء
تو کھیڑوں کو ڈاج کرانے کےلئے میں جھنگ کی بجائے خوشاب جوہرآباد سے تھل میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں کھیڑوں کو دیہان میں لگا کر جدید ہیر رانجھے کو کہیں دور نکل جانے کا موقع دیتا ۔
سب کچھ پلین کے مطابق شروع ہوا ، میں ہفتہ والے دن اپنے جاپانی النسل سو سی سی گھوڑے پر اپنے گاؤں دھوری جو کہ ایک تاریخی قصبے جو کہ آج ایک قبرستان اور ٹیلے کی صورت میں موجودہ آباد کردہ گاؤں سے چند کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے کا سلسلہ ہے ۔ (ارڑ قوم کی آلہی کے نام سے مشہور یہ تاریخی قصبہ پھلروان اور دھوری کے ایک سیم کے ساتھ ساتھ چلتی لنک روڈ کے قریب واقع ہے، جو بار بار لٹنے اور سیلابوں کی نظر ہونے کے بعد موجودہ جگہ پر کنویں والی جامع مسجد والے مقام پر آباد کیا گیا ، اس کی نو آباد کاری گوندل قوم نے کی اور آج بھی یہاں اکثریتی گوندل آباد ہیں ) ۔
خیر سفر کی شروعات گھر سے ہوئی ، کالے کپڑے پہنے ، مونچھوں کی فرضی تاؤ دیتے میں پھلروان پہنچا جو کہ تاریخی لحاظ سے ایک صنعتی شہر رہا ہے ، یہاں پرانے وقتوں میں انگریز سرکار نے سات کارخانے لگائے ، جن میں تین گندھک کا تیزاب بنانے کے کارخانے بھی شامل تھے ۔ منظم تریقے سے بنایا گیا ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ، جہاں ایک تاریخی ریلوے اسٹیشن ، جامع مسجد ، پرانی تاریخی مارکیٹ ، متروک شدہ گودام ، تاریخی باغ اور مختلف اولیاء اور بزرگوں کے دربار موجود ہیں ۔
وہاں بچپن کے دوستوں سے ملتے ملاتے ، مشن کےلیے ضروری اشیاء ، زربکتر ، تیر تلواریں تیز کرواتے بارہ بجے برستہ سالم ( جہاں دور جدید کے مشہور کیمرہ مین اسلم سالمی مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ) موٹروے کے غیر تاریخی پل کو عبور کرتے رخ بجانب لہور کرکے میاں صاحبان کو سلام و دعا پیش کرتے اور اپنے پیاروں کو بہت سے پیار بھرے سپاس نامے بھیجتے بھلول کی جانب چلتا گیا ۔
بھلوال میں داخل ہوتے ہی قیام پاکستان کی جدوجہد کو عروج حاصل کرتے دیکھتے ہی رنگ بدلتے 22 خاندانوں میں سے ایک خاندان کی عظیم الشان ریاست کا پہلا نظارہ ہوا ، جو ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے اردگرد کے ماحول کو صفائی سے بچائے رکھتا ہے۔
خیر نون شوگر مل اور فوجی فرٹیلائزرز ملک پروڈکشن سینٹر کے پاس سے گزرتے پرانے بھلوال میں انٹر ہوتے ہی تیز ہواؤں نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
مطلب ظالم سماج ہی نہیں ، قدرت بھی اس ہیر رانجھے کا ملن نہیں چاہتی ، خیر خدا خدا کرتے ۔
دوسری عالمی جنگ کےلیے ہوتی زبردستی بھرتیوں سے بچنے کے لیے چھپتے جوانوں کو دیکھتے اور فرنگی سلطنت کو مضبوط کرنے کےلئے کوشاں اور فرنگی سلطنت کو دیمک لگتے دیکھ کر ہواؤں کے ساتھ رخ بدلتے سابقہ غداروں کی نومولود سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے کےلیے تیار ہوتے دیکھتا میں لک موڑ پہنچا ، جہاں سے میرے دائیں جانب سٹیٹ آف کالرہ اپنی تمام تر عظمتوں اور بلندیوں کے ساتھ غروب ہوچکی تھی ۔
بس چند بچے کچھے نشان تھے ، خضر ٹوانہ اور اس یونینسٹ جماعت پر کفر کے فتوے تھے ، متحدہ پنجاب کا آخری خواب شرمندہ سا جہلم کے پانیوں میں اتر کر ڈوب چکا تھا ، اور اس شرمندگی کے بوجھ سے جہلم بھی اب شرمندہ شرمندہ سا سکڑا سمٹا چلتا تھا ۔
وہاں سے نکل کر شاہپور کی جانب رواں دواں ہوا ، کھیڑوں کو چند دھمکی آمیز ٹویٹ کرکے اپنی جانب راغب کیا ۔ شاہپور پہنچتے ہی ، ضلع شاہپور کی تاریخی عمارتوں میں سے جھانکتے چمگاڈر نظر آئے اور پہلے ہی چوک میں خضر حیات ٹوانہ کی یاد میں دو گھڑ سوار نظر آئے ، جس کا مجھے آج تک علم نہیں ہو پایا کہ وہ فرنگی فوج کے پاسبان زبردستی بھرتی کرنے والے ظالم فوجی تھے ، خضر حیات ٹوانہ جب کافر قرار دیا گیا تھا تب کے فوجی تھے یا وہ ٹوانہ جو متحدہ پنجاب کا خواب دیکھتا تھا ، چاہے وہ خواب صرف اور صرف اس کے ذاتی مفاد تک ہی محدود رہا ہوگا، اس پنجاب دھرتی کے سپاہی تھے ۔ خیر ان پر پڑی دھول نے ان کے ساتھ ساتھ میرے سوال ہر بھی مٹی ڈال تھی اور میں سوچ کے گھوڑے کو آگے دوڑاتے جہلم کے پل پر پہنچا تھا جہاں میرے دائیں جانب انگریز کا تیار کردا ریلوے کا پل جو پرانے وقتوں کے اچانک ٹرین سے رفتار پکڑ کر گزر جانے کی داستاں سناتا تھا ، اس کے ساتھ گھنے درختوں کا جنگل بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھا ۔
دریا کے پاس کھڑے ہوکر مجھے دور شیر لاہور میں موجود میرے زمانہ جدید کے دوست موازم (معظم)آفتاب گوندل کی بہت یاد آئی ، کیونکہ دریا میں ایک رانی کشتی موجود تھی اپنی پوری شان و شوکت اور سجاوٹ کے ساتھ موجود تھی ۔
اور معزم تو پھر کشتی* رانی کا انتہائی شوقین ہے ۔ پر میرا مشن کچھ اور تھا اس لیے میں ان تمام باتوں کو ذہن سے جھٹکتے دریا کے اس پار جانے کےلیے پرانے دور سے باہر آیا اور بڑے آرام سے جدید ترز کے اس تنگ سے پل سے دریا پار کرگیا ۔
دریا سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے مجھے ایک موڑ کے دونوں جانب ہوا میں تحلیل ہوتے چند چہرے دکھائی دئے ۔ جو بار بار سوچنے پر یاد آیا کہ خوشاب کی خونی جھیل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو گئے لوگوں کے چہرے تھے۔
اور شاید ان لوگوں کی بددعا تھی جو اب خونی جھیل بھی تقریباً تاریخ بن چکی تھی ۔
وہاں میرے سامنے شیر شاہ سوری کا آباد کردہ میٹھے پانی والا خوشاب شہر تھا ، جس کا کابلی دورازہ ، پرانا شہر پرانے زمانے کی جنگوں اور داستانوں کو اپنے اندر لئے زمانے کی جدت کا شکار نظر آتے تھے ۔
شہر میں بائیں جانب پرانے شہر کو جاتے راستے اور دائیں جانب کٹھا اور روالپنڈی کو جاتا پرانا روٹ ، مجھے ان دونوں میں سے کسی راستے جو اختیار نہیں کرنا تھا ۔
میں نے اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ، ہیر کو بیاہنے کا خواب دیکھتے کھیڑے کو ایک اشتعال انگیز پوسٹ میں مینشن کرتے ہوئے میانوالی والی طرف آنے کو للکارا ۔
اس پوسٹ پر ایک گھنٹے میں سینکڑوں غصے والے ریکشن دیکھ کر میرا پتا پانی ہوگیا۔
پر جیسا کہ شاعر کہتا ہے
جس دور میں جینا مشکل ہو
اس دور جینا لازم ہے *
میں اپنے مشن پر ڈٹا چلتا گیا اور خوشاب سے جڑواں شہر اور منظم ترین قصباتی آبادی جوہرآباد پہنچا ۔ جوہرآباد جو کہ ایک زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت بننے جارہا تھا ، لیکن ہزارہ ڈویژن کے پٹھان نے اس خواب کو شرمندہ کرتے ہوئے راولپنڈی سے جڑی زلزوں کی ایکٹو رینج کو یہ شرف بخشا ۔ پر جوہرآباد ملکہ پاکستان نا بن سکنے کے باجود اپنے سنجیدہ اور افسردہ حسن کے ساتھ آج بھی اپنی پرامن اور پرخلوص فضاء برقرار رکھے ہوئے ہے ۔
میرا جوہرآباد سے رشتہ محبت ، خلوص اور خوبصورت یادوں کا ہے ۔ جوہرآباد سے یہ تعلق آج کل مزید گہرا ہے ، مجھے کچھ زیادہ ہی اچھا لگتا ہے یہ شہر ، پر مجھے اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ، آگے بڑھتے رہنا تھا ۔ اسی اثناء میں ، میں نے کھیڑوں کے وٹس ایپ پر دہشت پھیلانے والے پیغامات بھیج کر انہیں مزید بھڑکایا اور مٹھہ ٹوانہ کے قریب پہنچ کر اپنے پروگرام میں اچانک سے ردوبدل کرکے سب کو ڈاج کراتے ہوئے میں بوتالہ گاؤں کی جانب مڑ گیا اور میرے دائیں جانب مسلسل چلتے سالٹ رینج کے پہاڑ اور ان کے اوپر نمک چاٹتا سکندر اعظم اوہ مطلب اس کے گھوڑے بھیرہ شہر کو فتح کرنے کا پلین کرتے نظر آتے تھے ، میرے پیچھے رہ گئے ۔
اور میں بوتالہ گاؤں میں داخل ہوا ، جہاں کی خوبصورت مسجد کے پاس سے گزرتا میں چھوٹی سی خوبصورت دور جدید کی اس سڑک پر گھوڑا دوڑاتے اپنے تاریخی سفر کر روا دواں رہا ۔
مٹھہ ٹوانہ شہر میں داخل ہوتے ہی پولیس چوکی کی عظیم الشان تاریخی عمارت میں جاکر ہیر کی زبردستی شادی کی رپورٹ کرواتے ہوئے مجھے لگا کہ چوکی انچارج مجھے غضب ناک نگاہوں سے گھور رہا تھا ، اس کی فوٹو فیسبک پر سرچ کرنے سے پتا چلا کہ وہ کھیڑا تھا اور نو نمبر کے جوتے کا نظروں ہی نظروں میں انتظار کر چکا تھا ۔
میں اچانک پیٹ میں مروڑ اٹھنے کا بہانہ بناتے وہاں سے چلتا بنا اور گھوڑے کو ہوا کی رفتار سے دوڑاتا آیت الکرسی کا ورد کرتے تھل کی سرزمین کا براستہ اوکھلی موہلہ رخ کیا ۔ پہلا پڑاؤ بجار گاؤں کا تھا ، جہاں کے افسانوی چھپڑ پر شاید آج بھی پرندوں کے غول شور مچاتے ہوں گے ۔
میں گاؤں کے چھپڑ کا نظارہ کرنے کی خواہش دل میں لئے وہاں سے گزرا اور روڈ سے ملحقہ آباد کار پختون آبادیوں اور خانہ بدوش قبائل کی آبادیوں میں ہیر کےلیے عارضی رہائش گاہ تاکتا گزرا اور سفیدوں کے بلند ہوتے جھنڈ اور ریت کے بلند ہوتے ٹیلوں کے ساتھ جدید ہرے بھرے تھل نے میرا استقبال کیا۔
داخلی تھل کے پہلے گاؤں شیخو میں ، میں اپنے مہمانوں کے ہاں رکا۔
یہاں میرے ابا جی کے دوست چاچا جی ملک غلام مصطفیٰ کلیرہ صاحب میرے میزبان تھے ۔ ان سے ملا اور اپنے بھائی ملک فضل انوار کلیرہ جو کہ اپنی شادی کی تیاریوں کے سلسلہ میں مٹھہ ٹوانہ گئے ہوئے تھے ، سے فوری نہ مل سکا ۔
یاد رہے یہاں میرا مشن ملن جدید ہیر رانجھا کے ساتھ ساتھ فضل انوار بھائی کی شادی میں شرکت کا بھی تھا ۔ یہاں پرانے دوست احباب سے گپ شپ اور ملاقات ہوئی ۔ نماز عصر پڑھنے کے بعد ہیر کو انباکس میں ساری سٹریٹجی سمجھائی اور رانجھے کو بھی ایمیل کرکے تیار رہنے کو کہا اور خود کھیڑوں سے پہلا ٹاکرا کرنے تھل کے صحراء کی جانب اپنے ایک میزبان کے ساتھ روانہ ہوا ۔
گاؤں سے نکلتے ہی صحراء سے پہلے گاؤں کا تاریخی قبرستان نظر آیا ، جہاں میں حسب عادت فاتحہ خوانی کےلیے داخل ہوا اور اونچے ٹیلے کے ایک کونے میں موجود مزار پر نظر پڑی تو وہاں گیا اور اپنے میزبان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مزار عیسب شاہ شہید کا ہے جو وہاں کسی نامعلوم جنگ میں مارے گئے تھے اور ان کے دو بھائی قریب قریب کے گاؤں میں مدفن ہیں ۔
لیکن ان شہداء کی اصل تعداد اور جنگ کا کسی کو علم نہیں تھا ۔ جس سے بھی پوچھا "ساڈے ڈاڈےپڑداڈے ویلے ڈیاں تا اوس تو پہلو ڈیاں ایہ قبراں ہیں" ہمارے دادے پردادے سے بھی پہلے کی یہ شہدا کی قبریں ہیں ۔ بس اس سے آگے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا ۔ اور ایک قریبی ٹیلے پر روایات کے مطابق ہڈیاں اور ٹوٹے ہوئے برتن ملتے ہیں جو کہ ایک قیاس کے مطابق کسی تاریخی لڑائی کا مقام رہا ہے۔
جہاں ایک روائت کے مطابق مدفن قرآن پاک بھی برآمد ہوچکے ہیں ۔
پر میرا مشن کھیڑوں کو دیہانے لگانے کا تھا ، وہاں سے میں تھل کے صحراء میں ڈگمگاتا ، گرتا سنبھالتا چلتا گیا ۔ تھل کے صحراء کے شروع میں فرنگی کے بعد فرنگی کی یاد میں لگایا گیا سفیدے کا ایک جنگل ہے ، فرنگی کتے آج بھی مقامی سور کا شکار کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
اسی جنگل کے دوسرے کنارے ایک پانی کےلیے لائی گئی الٹی بہتی گنگا سوکھی پڑی ملی ۔ اور اس کے کنارے پانی حاصل کرنے جدید ذرائع مطلب نلکے سے پانی بھرتی دوشیزائیں اور ان کی اونٹ گاڑی نظر آئی ۔
اونٹ گاڑی تصویر بنانے کی حسرت دل میں لئے میں آگے صحراؤں میں داخل ہوا ۔ جہاں کماد ، گندم ، چنے اور مونگرے کی فصل نے تو سما ہی باندھا ہوا تھا ۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اپنے داخلی تھل میں رہ کر ہیر کو ریسکیو کرنے کے فیصلے پر انتہائی خوشی ہوئی ۔ ورنہ مارو تھل میں تو میں نازک مزاج کھیڑوں سے تو بچ جاتا پر ریت کے تپھڑوں اور سورج کی حدت سے ہی مارا جاتا۔
وہاں تھوڑی تصویر کشی کرتے ایک کھیڑا اچانک سے میرے اوپر حملہ آور ہوا ۔ اس کے دور سے للکارنے پر میں نے اردگرد غور کیا تو ہمارے قریب ہی اس کا برقی گھوڑا موجود تھا ، اور اسے شک ہوا کہ ہم تصویروں کی آڑ میں اس کی سواری اڑا لے جائیں گے ۔ پر میرے ساتھ موجود میزان نے اسے میرے مشن سے اندھیرے میں رکھتے ہوئے شادی کا مہمان بتاتے ہوئے مطمئن کرکے بھیج دیا ۔
آگے جا کر اکا دکا نظر آتی بیر سے بیر کھانے کا ارادہ کیا تو بیروں نے بھی ہیر سے دل میں چھپے بیر کو سامنے لاتے ہوئے بیر دینے سے انکار کردیا۔ لیکن میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا ، انتہائی شدید منت ترلا مانتے ہوئے اور ایک بیر کوٹیگ کرکے انتہائی دکھی شاعری پوسٹ کرنے پر چار عدد بیر حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ان بیروں کی تاریخی فوٹو لینے کے بعد ان کو بنام ہیر قربان کردیا گیا ۔
ہیر میرے سمجھانے کے باجود کھیڑے سے اپنا ٹک ٹیک اکاؤنٹ فالو کروا چکی تھی ۔
میرا صحراء کے وسط میں کھیڑوں کے ساتھ گھمسان کا ٹویٹ فایٹ ہوا ، اور جیت ہار کا فیصلہ کل پر رکھتے ہوئے میں نے میزبان کے ساتھ واپسی کی راہ لی ، اور تھل کو دور سے دیکھنے پر ٹیلوں کی اوٹوں سے اچانک چند کلے برآمد ہوتے تھے جو چند لمحوں بعد پورے آدمی کا روپ دھار لیتے تھے ، ہر آنے والا بڑی مونچھوں اور کلف لگی پگڑی والا ملک اپنے اندر پرانی روایات کو ذندہ رکھے خوش مزاجی اور سادگی کا خوبصورت امتزاج تھا ۔
واپسی ایک نئے راستے سے ہوئی ، جہاں میں اپنے فن ڈرائیونگ کا مظاہرہ کرے گرتا پھسلتا اپنے میزبانوں کے گھر پہنچا۔ جہاں میرا چھوٹا ویر ملک فضل انوار پہنچ چکا تھا ۔ ملنے ملانے کا دور چلا ۔ اور شادی کی تقریبات کا آغاز ہوا ، ڈھول کی تھاپ پر بانسری یا جو بھی چیز کی تھی اس کی خوبصورت دھنوں پر گاتے جوان ، اور گھر میں خوبصورت مقامی لوک گیت اور ٹپے کہتی عورتیں ۔
بڑے عرصہ دور جدید میں گزرانے کے بعد دور جدید کا امتزاج کیے قدیم روائتی شادی اٹینڈ کرنا بہت ہی خوبصورت رہا ۔
کھانا کھاتے ہوئے جب ڈھول بجا تو میرے ساتھ والے دوست نے اچانک دوسرے لڑکوں سے کہا کہ دروازہ بند کردو ۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ "ایہ ڈاڈھی(مراثی) نو ڈھول تا نچن لگ جاسن "
میں چونکہ لمبے سفر اور معرکے کے بعد بہت تھک چکا تھا ، اس لیے مجھے گاؤں کے بیچو بیچ ایک بیٹھک میں ٹھہرایا گیا جہاں شغل شروع ہونے پر بلائے جانے کا وعدہ کئے جانے پر میں سوگیا (بھائی جدوں شغل شروع تھی گیا ، تیں کوں سڈ لیساں گے) ۔
پر اس رات گیارہ بجے شغل شروع ہوا ، میرے میزبان مجھے بھول گئے اور بستنی سب ملکوں کے سامنے ناچی اور خوب ناچی ۔ اور مجھے بسنتی کے ہوں اکیلے اکیلے ناچنے کا شیدید قلق رہے گا ۔ پر جب چڑیا چگ گئی کھیت کے مصداق اب کیا کیا جاسکتا تھا ۔
ہیر ، سسی ، مہیوال کی طرف سے انباسکی اظہار افسوس کے پیغامات ملنے پر دل کو زرا تسلی ہوئی اور پاپا کی پرنسز کے گڈ مارننگ کے میسج پر آنکھ کھلنے پر معلوم ہوا کہ میرے علاؤہ اس بیٹھک میں کوئی اور موجود نہیں تھا ۔ پانچ دس منٹ اپنے اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد میں گرتا پڑتا اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچا ، جہاں ناشتہ وغیرہ کرکے غسل کیا اور دولہا بھی ناشتہ کرنے اپنے سسرال روانہ ہوا ۔ دس بجے دلہے کی نہلائی کی رسم ہوئی ، سب شرکاء نے اجتماعی دعا کی ، ڈھول کی تھاپ پر رقص اور مقامی ٹپے کہے گئے۔
پھر دولہے کے ساتھ باہر میدان میں لگے ٹینٹ میں پہنچا جہاں شادی کی باقی تقریبات کا آغاز ہوا ، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا ۔
اسی دوران ٹک ٹاک پر ایک دل خراش پیغام ملا کہ ہیر نے رانجھے کو چھوڑ کر کھیڑے کے ساتھ ایک لاکھ ٹک ٹاک فالورز کے وعدے پر شادی کا معاہدہ کرلیا تھا ۔
میرا مشن تو یہاں مکمل نہیں ہوا تھا کیوں کہ رانجھا بھی اپنا بھائیوال تھا اس کو افسوس کرنے اور تسلی دینے کو وٹس ایپ کرنے پر معلوم ہوا کہ رانجھا بھی اتنا رنجیدہ نہیں تھا بلکہ اس کا بھی لہور شہر کی کسی پاپا پرسنز سے چکر چل چکا تھا اور رانجھے نے ہیر کا بےفائی کے بدلے پاپا کی پرسنز کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
ادھر چناب کنارے گجرات شہر کی شان اور سلامی لیک کے بےبال بادشاہ جناب حماد نجیب کی اٹھاروے منائے گئے جنم دن کی عظیم الشان تقریبات کا جشن تیسرے روز میں داخل ہوچکا تھا اور انہوں نے کچے گھڑے پر درپا پار کرکے مچھلی کھانے کےلیے جانے والی ماہیوال کی مانگ کی تھی ، جس پر دریا کے گجرات سائڈ والے کنارے پر یونیورسٹی آف لاہور کے زمانہ جدید کے چناب کیمپس پر فش پارٹی کا انتظام کرتے ہوئے ماہیوال کو ماہیوال حماد گجر بنانے کا منصوبہ عالمہ بالا میں شروع ہوچکا ہے اور ماہیوال نے بھی اپنی بےپناہ کوششوں کے بعد کیچ میں پھرتی سسی کی فیسبک آئی ڈی پر اپنی انتہائی چھچھوری اور دکھی شاعری پوسٹ کر کر کے منا لیا تھا اور اسی غم میں عمان گئے شہزادہ پنوں کو ایک عمانی شہزادی پسند آگئی تھی ۔ اورپنوں نے سلطنت عمان کو گوادر کی ریاست گفٹ کرکے عمانی شہزادی سے شادی رچا لی تھی ۔
پر عین ملکوں کی شادی عروج پر یہ سب صورتحال آنے پر میرا دل کچھ بےچین سا ہوا اور میں نے تھل سے اپنے گھوڑے رخ واپس اپنے گاؤں کو موڑا ۔ پر شاید بہت سی بدقسمتیاں میری راہوں میں باہیں پھیلائے کھڑی تھیں۔ مٹھہ ٹوانہ پہنچتے ہی میرے برقی گھوڑے کا سم پنکچر ہوگیا ، وہاں کھیڑوں کے خلاف کی گئی ٹویٹس ڈیلیٹ کرتے گھوڑے کو پنکچر لگواتے ، تازہ دم ہوتے بڑی شاہراہ کی جانب بڑھا ۔
بڑی شاہراہ پر پہنچ کر زرہ بکتر لگائی اور مکمل کیموفلیج ہوکر تھلوں سے اپنا پیچھا کرتے ہیر کے سسرالیوں کو بہت پیچھے چھوڑتے ، جوہرآباد میں اپنا دل چھوڑتے میں آگے چلتا گیا ۔ خوشاب پہنچ کر میرا برقی گھوڑا پھر پنکچر ہوا ، گرمی ، خوف اور کوفت سے بڑا حال میرا ۔ پر خدا خدا کرکے وہاں سے روانہ ہوا ، خوشاب پل پر پہنچ کر ایک بار تازہ دم ہوا ۔ فسیبک پر کٹھا کی پہاڑی کا چیک ان کیا اور کھیڑوں کو اس راستے لگا کر میں آرام سکون سے اپنے گھر کو روانہ ہوا ۔
شاہپور میں فرنگی کی یادگار جیل میں انگریز سرکار کے بنائے قانون کا شکار لوگوں کو سلام کرتے ، ضلع شاہپور کی یاد دلاتے باغات سے گزرتا میں شاہپور لک موڑ لنک روڈ پر چلتا رہا ، جہاں بڑی سڑک سے ہٹتے کچے راستے اور ان کی اطراف میں لگے لیکر تاریخی واقعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے الگ ہی ماحول بناتے تھے ۔
لک موڑ پہنچ کر ایک بار پھر کالرہ سٹیٹ اور دوسری جانب جھال چکیاں کو جاتے باغوں میں گھرے راستے کو چھوڑ کر سیدھا بھلوال کی جانب چلتا رہا۔
راستے میں سکیسر بار کا تاریخی قصبہ جس سے تھوڑا پہلے آتے کجھور کے جھنڈ اور پانی کا تاریخی تالاب جہاں پرانے وقتوں میں گاؤں کا پانی کھارا ہونے کی وجہ بارشوں کا پانی اکٹھا کیا جاتا تھا اور انسان اور جانور اسی ایک تالاب سے پانی پیتے تھے ۔ وہاں سے ہی خضر آباد لائیو سٹاک فارم کو نکلتا ایک راستہ میاں برادران کی یاد دلاتا ہے۔
وہاں سے آگے نہر سے تھوڑا پہلے ایک متروک انڈسٹریل اسٹیٹ ، ایک جدید ترز کا پرانا قصبہ ، کسی ناکام منصوبے کی یاد دلاتا تھا ۔ نہر کراس کرکے بھلوال شہر کو بس سلام کرتے میں دوبارہ پھلروان پہنچا جہاں مجھے موٹروے کو دیکھتے اپنے دوست جناب افتخار گوندل حال مقیم لاہور یاد آئے جو جب بھی موٹروے سے گزرتے ہیں تو پھلروان کو دیکھ کر انتہائی جذباتی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور "ایہ پھلروان اے" کی لمبی گردان لگا دیتے ہیں۔
پھلروان سے شام کو گھر واپس پہنچا اور یوں سفر ملن جدید ہیر رانجھا اپنی تکمیل کو پہنچا ۔
“