دورِ زوال میں خانوادۂ ولی اللّٰہی کا کردار
سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کے بعد ہندوستان کے داخلی نظام میں عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں کمزوری کی نشان دہی سب سے پہلے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہٗ نے کی۔
چناںچہ ’’فکّ کُلِّ نِظام‘‘ کے اصول پر تبدیلی نظام کا نظریہ آپؒ نے متعارف کرایا۔ اور اس کے لیے جس ہمت، جرأت، بلند نظری اور اخلاص وقربانی کی ضرورت تھی، اس کو پیدا کرنے کے لیے اسوئہ نبویؐ کی اساس پر آپؒ نے ایک ایسی جامع تحریک کی بنیاد رکھی، جس نے آگے چل کر سامراجی سازشوں اور مکروفریب پر مبنی سرمایہ پرستی کے نظام کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپؒ کے نفس قدسیہ کی حرارتِ دینی نے ایک ایسی جماعت ِحقہ کی تیاری کی جس نے مشکل حالات میں بھی حریت اور آزادی کا عَلَم بلند کیے رکھا۔ اور اپنے بنیادی فکر اور نظریۂ دین حق پر ثابت قدمی سے آگے بڑھتی رہی۔
چناںچہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہٗ کے بعد آپؒ کے صاحبزادے حضرت الامام شاہ عبدالعزیز قدس سرہٗ نے اپنے والد ِگرامی کے علوم و افکار کی روشنی میں انگریز سامراج کے ظالمانہ تسلط کی واقعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے ’’فتویٰ دارالحرب‘‘ جاری فرمایا اور ہندوستان کی سیاسی حیثیت متعین کرتے ہوئے اس خطے کی اقوام کو آزادی وحریت سے ہم کنار کرنے کے لیے جدوجہد کی راہ پر گامزن کیا۔اگر یوں کہا جائے کہ ہندوستان میں آزادی کے حصول کی ضرورت کو سب سے پہلے اگر کسی نے واضح کیا ہے، تو وہ حضرت الامام شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہٗ کی عظیم شخصیت ہے۔
انگریزوں کے تسلط کے بعد ہندوستان کی غلامانہ سیاسی حیثیت متعین ہوجانے کے بعد آزادی کے حصول کا جذبہ محض مسلمانوں میں ہی نہیں، بلکہ تمام اَقوام کی بنیادی ضرورت قرار پایا۔ چناںچہ اس حوالے سے بھی اسی خانوادئہ عالی مقام کے جانثاروں نے قربانیاں دیں، اور آزادی کے حصول اور دین حق کے غلبے کے لیے قافلہ سالار کی حیثیت سے رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا۔ تحریک ِمجاہدین یا تحریک ِسیّد احمد شہیدؒ اسی جذبہ صادقہ کے ظہور کا دوسرا نام ہے۔ حضرت الامیر الشہید سیّداحمد بریلوی قدس سرہٗ حضرت شاہ محمداسماعیل شہید قدس سرہٗ کی عظیم قربانی نے پورے ہندوستان میں آزادی کی روح پھونک دی۔
اسی طرح حضرت الامام شاہ محمد اسحاق دہلوی قدس سرہٗ نے اوّلاً دہلی کے مرکز میں بیٹھ کر ان تمام سرگرمیوں کو منظم کیا اور مالی امداد وتعاون اور مفیدمشاورت سے اس تحریک کو کنٹرول کیا۔ اور پھر نئی طاقت پیدا کرنے کے لیے آپؒ نے انتہائی مشکل او ر صبر آزما حالات میں کام کرکے اس جذبے کو آگے منتقل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ بلاشبہ اس پورے ’’خانوادئہ ولی اللّٰہی‘‘ نے اپنے تئیں جدوجہد کی ایسی مثال قائم کی، جس کی ماضی قریب میں نظیر نہیں ملتی۔
(سوانح حیات شاہ عبدالرحیم رائے پوری، تصنیف مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری۔ ص66، 67، طبع رحیمیہ مطبوعات لاہور)
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔