سماج میں مشکل اوقات میں اکثر سخت فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مگر اس دوران انتظامیہ کو تمام افراد کا برار سوچنا چاہیئے تاکہ فیصلے سے بہتر نتائج حاصل ہوں۔
ایک اچھے انتظامی فیصلے کے لیے جو دو بنیادی چیزیں ضروری ہیں ان میں پہلی چیز دیانتداری ہے اور دوسری چیز اس بات کی آگاہی کہ آپ کیا کر سکتے ہیں اور کیا "نہیں" کر سکتے. آپ کیا "نہیں" کرسکتے اس کا علم ہونا زیادہ ضروری ہے۔ ورنہ اس کے نتیجے میں ایک ناپائیدار فیصلہ سرزد ہوجاتا ہے۔ جو کہ اپنے متوقع نتائج حاصل نہیں کرپاتا. کچھ اسی طرح کا فیصلہ "ہائر ایجوکیشن کمیشن" نے کرونا وائرس کے تحت پیدا ہونے والی افسوسناک صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے "آن لائن کلاسز" شروع کرنے کا کیا تھا. بظاہر تو یہ ایک بہت ہی جدید اور حالات کے مطابق احسن حل معلوم ہوتا تھا۔ مگر نہ صرف یہ فیصلہ مہیا ذرائع، معاشی اور اقتصادی صورتحال کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر کیا گیا بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر کہوں تو اس میں طالبعلموں کے پاس موجود وسائل کا نہ سوچا گیا۔ . میں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے درجنوں طلبہ و طالبات کی شکایات سنی ہیں. اور وقت نے یہ درست ثابت کر دیا کہ سہی کہہ رہے تھے. کچھ ہی دنوں بعد طلبہ و طالبات کے واٹساپ گروپ بن گئے اور اساتذہ نے ڈاکومنٹس کی صورت میں کتابیں اور نوٹس بھیجنے شروع کر دیے اور صرف بھیجنے پر ہی اکتفا کیا گیا. جب اور ڈیپارٹمنٹس کی آن لائن کلاسز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کہ ہر سمت ہی یہ عالم تھا. اس نظام کے ناکام ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں بچوں کا اس قدر مہنگے انٹرنیٹ پیکجز برداشت نہ کر سکنا، دور دراز کے علاقوں مثلاً گلگت، فاٹا، وغیرہ اور اکثر گاؤں میں انٹرنیٹ کی رسائی نہ ہونا، ہر شخص کے پاس لیپ ٹاپ کی سہولت میسسر نہ ہونے سے لیکر اساتذہ کی اس نظام میں مہارت نہ ہونا شامل ہے . اسی طرح سائنس کے طالب علم کی آدھی سے زیادہ تعلیم لیبز میں دی جاتی ہے. آن لائن پریکٹیکلز کی تعلیم دے کر قابل سائنسدان بنانا دیوانے کا خواب لگتا ہے. انہی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ نامور یونیورسٹیز جیسے کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے آن لائن کلاسز وقتی طور پر بند کر دی ہیں. مگر اکثر یونیورسٹیز بشمول اسلامیہ یونیورسٹی نے یہ لاحاصل سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے. جس کی ایک وجہ لالچ بھی ہو سکتی ہے، تعلیم کے فروغ کی لالچ نہیں، بلکہ پیسوں کی لالچ. بچوں سے بھاری بھرکم فیس لینے کے بعد ان کو ان کے ہوسٹل سے زبردستی نکال دیا گیا یا اور سہولیات کی مد میں جو فیس کے اندر پیسے لیے جاتے ہیں جو کہ تقریبا پچاس فیصد ہوتے ہیں ان کو ہڑپ کیا جا رہا ہے. میری ناقص عقل سے یہ بات بالاتر ہے کہ گرمیوں کی تعطیلات جو کہ یونیورسٹی میں ریکارڈ چار ماہ کی ہیں اس میں یہ سلسلہ جاری کیوں نہیں کیا جاسکتا. اگرتب تک خدانخواستہ حالات قابو میں نا آسکے تو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو سہولیات کی مد میں دیے گئے پیسے واپس کرنے چاہیے.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...