دور گزشتہ کی طوائفیں
پہلے زمانے میں ریڈیوں یا ٹی وی نہیں تھا ۔ فلمیں بھی بہت بعد میں آئیں ۔ جب عورتوں کا گانے کا موڈ ہوتا تو محلے کی عورتیں جمع ہوکر گالیتی تھی ۔ یہی کچھ مرد بھی کیا کرتے تھے یا کسی تقریب میں طوائفیں آتی تو گانا سننے کو ملتا ۔ جو مرد حضرات صاحب حثیت ہوتے گانے سنے کے لیے طوائف کے کوٹھے پر جاتے ۔ یہ کوئی معیوب بات نہیں تھی ۔ اگر شرفا گانا سنے کے لیے جایا کرتے تھے ۔ اس دور کی طوائفیں دو طرح کی تھیں ۔ ایک تو جسم فروش جن کے گاہک اکثر نچلے طبقے کے ہوتے اور دوسری ناچنے گانے والی ۔ یہ ناچنے گانے والی طوائفیں ناچتی اور گاتی بھی تھیں ۔ اس کے علاوہ عام طور پر کسی نواب یا امرا پر تنخواہ پر ہوتی تھیں ۔ جو کہ پابند ہوتی تھیں اور عام جس فروشی نہیں کرتی تھیں ۔ یہ اگرچہ طوائف تھیں مگر تمیز دار صرف گانا اور موسیقی میں ماہر نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور شاعرہ بھی تھیں ۔ لوگ وہاں ادب و آداب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے ۔ یہ طوائفیں اگر شاعرہ نہیں ہوتی تو بھی ان کو اساتذہ کا کلام ازبر ہوتا تھا ۔ یہی وجہ برصغیر کے معاشرے میں انہوں اہمیت حاصل کرلی تھی اور برصغیر کے ہر طبقات کے لوگ طوائف کے کوٹھے پر نہ صرف کا گانا سننے جاتے تھے بلکہ ان مجلسوں سے لطف اندوز ہوتے اور ان کی مجلسوں میں جانا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی تصوریر ہادی حسن رسوا نے اپنے ناول امراؤ جان ادا میں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کی ہے ۔
ایسی ہی ایک طوائف سے میری چند ملاقاتیں ہوئیں ۔ وہ ساٹھ سے اوپر کی تھی اور ہمارے آفس میں چند بار آئی تھی ۔ دودھ کی طرح اس کا گورا رنگ تھا اس کا چہرے کے باریک نقوش بتاتے تھے کہ جوانی میں خوبصورت ہوگی ، اگرچہ اب اس کے چہرے پر چھڑیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ وہ ہلکے رنگ کے غرارے میں ملبوس ہوتی تھی ۔ وہ جب بھی وہ آتی تھی میں اس کی صحبت سے محفوظ ہوتا تھا ۔ کیوں کہ وہ نہایت اعلیٰ ذوق کی مالک تھی اور اس کے ہونٹوں پر خوبصورت اشعار مجلتے رہتے تھے اور میرے ذوق کے پیش نظر برجستہ اساتذہ کے خوبصورت اشعار سناتی تھی ۔ اگرچہ مجھے نہیں معلوم وہ گاتی بھی تھی کہ نہیں مگر میرا خیال ہے وہ گاتی بھی ہوگی ۔ وہ جب بھی آتی تھی تو مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی تھی ۔ مگر وہ بازار حسن میں رہتی تھی اس لیے میری ہمت نہیں پڑی کہ اسے کے گھر جاؤں ۔ اس وقت میری جوانی تھی اور نئی شادی ہوئی تھی جوانٹ فیملی تھی اس لیے میں اسے گھر پر بلا نہیں سکتا تھا ۔ البتہ جب بھی آتی تھی میں بیگم سے اس کا ذکر ضرور کرتا تھا اور بعد میں جب ہم الگ ہوئے اور جب بھی اس کی یاد آتی تو میں بیگم سے یہی کہا کرتا تھا کہ کاش وہ اب ملتی تو اس کو گھر ضرور بلاتا اور تم بھی اس سے مل کر لطف اندوز ہوتیں ۔
ٍ(ترتیب و تہذیب ۔ عبدالمعین انصاری)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔