مکئی کے بھٹوں کی بوری خریدتے ہوئے لڑکا جوان ہو گیا‘ ویسے تو سوئی کلا جاگتے جاگتے ہی جاگتی لیکن لعنتی بڈھا بڑا خبیث نکلا‘ نہیں سوچا کہ پہلے پہل بور لگے‘ نو خیز پودے کو نوچنا ٹھیک نہیں یوں پھل وقت سے پہلے پک گیا۔ عمر تھی ہی کتنی معصومیت چہرے پر کنداں تھی سفیدے کی مانند لمبا‘ اونچا اور کہرے بدن کا تھا‘ ہر چیز لمبوتری‘ناک‘ کان‘ چہرہ‘ ہاتھ پاؤں‘ ہر چیز فطری طور پر لمبی۔ لڑکے کا نام رمضان تھا جانا جانا پکارتے تھے چو ک میں بھٹوں کا ٹھیلا لگاتا۔
صبح جب ماں بیتی حیاتی کا بوجھ اٹھائے‘ گھٹنے چٹکاتے نماز کے لئے اٹھتی تو دو تین آوازیں لڑکے کی چارپائی پر کود کر اس سے گتھم گتھا ہونے لگتیں۔
’’اٹھ جانیا۔۔۔پتر اٹھ ویلہ گزر دا پیا اے منڈی دا۔۔ بونتر نہ پتر۔۔
منڈیا اٹھ وی پے۔۔۔ دور دا پینڈا اے۔‘‘
نور کے تڑکے اٹھ کر منڈی جانا اس کے لیے جان کا روگ تھا سارے دن کی تھکاو ٹ سے انگ انگ دکھ رہا ہوتا لیکن مجال ہے کہ گرمی اورمچھر سونے دیتے۔۔
جب نیند آنے لگتی تو صبح منہ نوچنے آگے بڑھتی‘ گرمی‘ مچھر اور ماں سب فطرت کے ساتھ مل کر اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے اور وہ ان سب کو یکساں کوستا‘ منڈی کے لئے چل پڑتا۔ منڈی بھی عجیب جگہ تھی جہاں ہر جنس بکتی تھی۔ سب کو اپنے ظرف کے مطابق رزق دینے والی‘ گدھا گاڑیوں میں جتے گد ھوں‘ ہتھ گاڑیوں میں جتے انسانوں‘ چھابری اٹھا ئے بوجھ کی تلاش میں پھرتے پانڈیوں‘ رزق کی تلاش میں کمر پیچھے جھلونگی ڈالے گندگی کے ڈھیر پھرولتی عورتوں‘ لڑکیوں کا وسیلہ رزق۔بیو پاری کی ہوس‘ دلال کی مکاری‘ آڑھتی کی چالاکی‘ گاہک کی مجبوری‘ سب اپنے ابدی سینے میں چھپائے کراہتی رہتی۔ یہاں ٹھگ‘ جیب کترے‘ اٹھائی گیر‘ شعبدہ باز‘ مداری‘ چور‘ فقیر سب دھندے کیلئے آتے اور اپنا اپنا کام دکھا کر چل دیتے۔
پیچھے گداموں میں پیٹیاں الٹ آڑھتی‘ خراب پھل نیچے اور اچھا اوپر ڈال‘ خریدار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے اور زیادہ منافع کی ہوس کا ساما ن کرتے رہتے۔ محنت کش کسبی عورتیں تہہ در تہہ لگی بوریوں اور پیٹیوں کی آڑ میں گوداموں کے تاریک گوشوں میں دن بھر کی مشقت سے ملنے والی مزدوری سے زیادہ پانچ سات منٹ میں کما لیتیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ پہلے پہل یہ معاملہ نئی چھوکریوں سے زور زبردستی کی واردات سے شروع ہوتا بوڑھی کھوسٹ‘ ہنڈی ہوئی تجربہ کار عوتیں شکار پھانس کر لاتیں اور پھر خود خاموشی سے ادھر ادھر ہو جاتیں اور یوں معا ملات دو چار بار کی ہاتھا پائی کے بعد باقاعدہ دھندے کا روپ دھار جاتے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں سودا ہوتا اور گوداموں کے تاریک گوشوں میں گندے بدبو دار جسموں اور سڑاند اٹھاتے نفرت انگیز کچرے کے ڈھیر میں کوئی تمیز نہ رہتی۔
وہ بھی ایک معمول کی صبح تھی جب سوئی کلا جاگی‘ لڑکے کو شائد اس دریافت میں کچھ دیر لگتی۔ صبح تڑکے خریداری کیلئے آنے والے بغلوں میں تھا مے خالی تھیلے ایک طرف دھرے‘ نان کوفتے‘ مرغ چنے‘ کھرونڈے اور اوجھڑی کے بڑے بڑے تھالوں کو گھیرے جن سے اٹھتی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اپنے اپنے من پسند ناشتے میں مگن تھے۔ اس نے بھی جلدی جلدی ناشتہ کیا اور سودا خریدنے کیلئے بڑھا۔ مختلف سبزیوں‘ پھلوں کے کھلے ٹرکوں کے سامنے خریداروں کا ہجوم بے لگام دنگا مشتی میں مصروف تھا دلال‘ پھریے کان پھاڑ آواز میں تین سو ایک‘ تین سو دو،تین سو تین کی آوازیں لگا کر الٹا سیدھا مال چھابڑیوں میں بھر گاہک کے سپرد کر رہے تھے۔
اسی رش میں اسے پہلا تجربہ ہوا۔ پہلی بار بڈھے کا ہاتھ اس کے آسن میں رینگا تو چوٹ کھائے سنپولیے کی مانند اس کے بدن میں کتنی لہریں اٹھیں‘ جب یہی حادثہ پھر وقوع پذیر ہوا تو خون کے سیلاب نے دماغ سے زیر ناف حصے کی جانب شورش کردی۔ دماغ میں عجیب سی سنسناہٹ پھیل گئی۔۔۔ ہرچیز جسامت میں بڑھتی محسوس ہوئی۔۔ لذت کا شدید احساس ڈسنے لگا۔ بڈھا پورا لعنتی، تجربہ کار اور چاتر تھا۔۔ سوئی کلا جگا کر خود غائب ہو گیا۔ اس نے جلدی سے الٹے سیدھے داموں۔۔ مال خریدا اور ہجوم سے باہرآکر ٹھنڈی لسی کے تین چار گلاس غٹا غٹ۔۔ آگ پر پھینکے۔اردگرد کی ہر شے اب۔۔ بدلی بدلی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اسے لگا جیسے پیاز کی چھانٹی کرتی عورتیں،مخصوص اشارے کرتیں‘ معنی خیز نگاہوں سے اسے گھوررہیں تھیں۔شرم و ندامت سے اس کا رنگ متغیر ہو گیا اس نے جلدی سے پانڈی کو بلوایا سامان اس کے سر پر رکھ کر منڈی سے باہر کی راہ لی۔ روز منڈی سے واپسی پر گلی کی نکڑ پر ٹھیلا لگاتا‘ قریب ہی موجود لڑکیوں کے سکول میں اس وقت ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ کی لے اٹھتی جب وہ مال لے کر پہنچتا۔بوری سے بھٹے ایک ڈھیر کی صورت زمین پر الٹ دےئے جاتے پھر چھانٹی کا مرحلہ آتا تین علیحدہ علیحدہ ڈھیریاں بنتیں دودھیا اور غیر دودھیا بھٹے علیحدہ کیے جاتے۔ دودھیا میں،زیادہ نوخیزا ور جوان چھانٹے جاتے۔۔
نوخیز بھٹے ابھی کچی عمر میں ہوتے۔ چھوٹے بڑے کم مقدار میں دانے بے تر تیب ہلکے سیاہی مائل بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے‘ جن کی معمولی قیمت ملتی، دانوں میں کہیں کہیں رتی ماشہ دودھ چھلکتا بھی دکھائی دیتا۔ ان کی طرف گاہککم ہی توجہ دیتے۔
جوان، صحت مند بھٹے اپنے جوبن پر ہوتے دانے ترتیب سے‘ خوشنما اور رسیلے‘ جن میں دودھ ڈھلک ڈھلک پڑتا‘ باہر جھانکتے سیا ہ بال اندر گہرائی میں سنہرے چمکدار ہو جاتے‘ دانے اپنی نرمی چھوڑ کر فطری سختی کی جانب راغب ہو چکے ہوتے جنہیں ذرا سی گرمائش کی ضرورت پڑتی اور بھٹہ تیار۔۔۔۔ تیار بھٹے کو ہر گاہک للچائی نگاہوں سے گھورتا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کھانے کی کوشش کرتا آخری ڈھیری ان بھٹوں کی لگتی‘ جو گردش زمانہ کا شکار‘ معیاد سے زیادہ عرصہ پودے پر رہ جانے کی وجہ سے سورج کی حرارت سے اپنی جلد جلا چکے ہوتے بے رنگ بال، بدشکل‘ پچکے دانے‘ ڈھلکے وجود کے ساتھ ستر ڈگری فارن ہائیٹ سے کم پاپ کارن بننے کو بھی تیا ر نہ ہوتے ایک طرف کوئلے دہک رہے ہوتے اور وہ چھانٹی مکمل کرکے سکول کے وقفہ تک بھوننے کاکام بھی مکمل کرلیتا لیکن اس روز جس دن وہ دریافت ہوا تھا چھانٹی کا کام اس کے لئے مشکل ترین مرحلہ بن گیا۔
’’چیزیں خیال ہی خیال میں اپنی ماہیت بدل لیتیں ہیں‘‘ لڑکے نے سوچا
بھٹے۔۔ اپنی شکلیں بدل بدل اس کے سامنے رونما ہو نے لگے۔ایسا کون سا بٹن تھا جو خبیث بڈھے نے پل بھر میں آن کردیا تھا گردوپیش یک لخت بدل چکا تھا۔
چیزیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہونے لگیں تھیں اور بھٹوں کی چھانٹی جان کا روگ بن کر رہ گئی تھی دس منٹ کاکام جیسے دھوئیں کی مانند پھیلنے لگا تھا ہر بھٹے پر کسی نہ کسی مٹیا ر کی دیکھی بھالی شبہہ جنم لینے لگی تھی‘ بھر سار دن لڑکیوں کی ڈھریاں لگاتے اور چھانٹی کرتے بیت گیا۔نو خیز‘ جوان‘ الہر اور ستر ڈگری فارن ہائیٹ پر پاپ کارن بننے والی ڈھریاں۔
اندر کا درجہ حرارت ہر چیز کو پگھلانے پر تلا تھا‘ جیسے دوزخ کا کوئی در کھل گیا ہو۔ بڈھا لعنتی اپنی حیاتی بھر کی اکٹھی کی آ گ ایک ہی ہلے میں اسے ورثے میں سونپ خود منڈی کے ہجوم میں کہیں گم ہوگیا تھا آگ بھی ایسی کہ پانی پی پی پیٹ اپھرا گیا لیکن حدت کم ہونے کانام و نشان نہیں آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ آگ پانی سے بجھنے والی نہیں یار دوست کوئی تھا نہیں‘ اگر ہوتا بھی تو ایسی بات کرنا۔۔۔ خیالات عجیب تار عنکبوت میں اسے جکڑ چکے تھے۔ بیتی زندگی کے بہت سے واقعات اب اپنے معانی سمیت اس پر آشکار ہونے لگتے تھے۔
کل ہی کی تو بات تھی جب پڑوسن‘ پڑوسن سے ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’کلمو ہہ کھڑپہ سپ۔۔۔ بدن کو ڈس ڈس جائے۔ایسا زہر ٹپکائے کہ نشے کی لت قبر تک پیچھا نہ چھوڑے۔ روزانہ‘ چٹکی بھر آٹا بھلے پیٹ میں جائے نہ جائے۔۔ قطرہ د و قطرہ زہر ضرور ٹپکنا چاہیے بدن میں‘‘
یہاں ٹھیلا لگتا۔۔۔ دوپہر سکول وقفے پر خوب رش ہوتا۔ رنگ برنگی تتلیا ںآڑ میں چھپے کمینے کی اٹھک بیٹھک سے لاعلم ہر طرف اڑتی پھرتیں اس اٹھک بیٹھک میں بھی لذت تھی روزانہ مختلف رنگ روپ کے گاہکوں سے واسطہ پڑتا انہیں میں وہ بھی تھی آسمان سے اتری کو ئی نیک روح بوڑھے ریٹائرڈ منیجر کی دوسری مرحومہ بیوی سے تھی جو اپنی تین بیویوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچا کر اب کوٹھی کے گیٹ پر ہر وقت بیٹھا دوسروں کی بیویوں پر کڑھتا رہتا اور آئے گئے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا۔ اس کی آنکھوں میں کسی سوسالہ سانپ کی سی چمک تھی۔
لڑکی کو خدا نے خوب رنگ روپ بخشا تھا صورت اور سیرت دونوں مثالی‘ ماسوائے بلوری آنکھوں ا ور سفید ململی ہاتھو ں کے مجال ہے جو جسم کا کوئی انگ پردے سے باہر دکھائی دے۔باتیں ٹھہر ٹھہر کر‘ ویر ویر پکار کر کرتی۔لہجے اور آنکھوں سے سامنے والے کو دبانے کی کوشش کرتی۔اس سے تو لڑکی کا روزانہ میچ پڑتا بھٹے اس کی پسندیدہ غذا تھے انھیں گٹھوں سے ماپتی نیو یارک میں پڑے ناپ تول کے سٹینڈر پیمانوں کی مانند کچھ قدرتی پیمانے اس کے اندر بھی تھے اسی حساب سے معیاری سائز پسند کرتی ایک انچ چھوٹا نہ بڑا۔ بعض اوقات بولنے کی بجائے اپنی سفید کلائی پردے سے باہر نکالتی اور پھر دوسرے ہاتھ سے اس کلائی کو چھوتے ہوئے اشارے سے کہتی۔۔ اتنے سائز کا۔۔ گاہکوں کی نگاہوں کے سامنے ننگے پڑے رہنے والے بھٹے اسے ہمیشہ سے پسند نہ تھے کہتی نظرائے گئے ہیں۔۔ انہیں کون کھائے۔۔ پھر ٹھیلے کی بجائے بھٹوں کی بوری زمین پر پلٹی جاتی او ر تیزی سے بھٹوں پر پڑے فطری پردے ایک ایک کرکے اترنے لگتے۔ یوں کئی بے چارے، مسکین،اس کے بقول ناہجار بھٹوں کی کمزور پر پڑا پرد ا اس پیمائش کے کارن فاش ہو جاتا اور وہ اس غیر انسانی اور نارواہ سلوک پراپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔
اس سے بھاؤ تاؤ میں بھی بڑا مزا تھا سودے کی نمود و نمائش کی صورت جب بحث طول پکڑ جاتی اور نتیجہ نہ نکلتا تو وہ نقاب اتار‘ بازو چڑھا‘ اس پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتی، اس کے بدن پر چٹکیاں کاٹتی، اپنے دودھیا نازک ہاتھوں کی پوروں سے اس کی بغلوں میں گدگدی کرنے کی کوشش کرتی جیسے وہ ننھا سا بچہ ہو۔ بعض اوقات تو وہ جسمانی تشد دپر اتر آتی اس کے کندھے پکڑ کر ایسے جھٹکے دیتی جیسے دھوبی پٹکا لگانا چاہتی ہو اور جب بس نہ چلتا تو آخر میں بھٹے ہی کی شامت آتی وہ اس کو ہاتھ میں پکڑ کریوں ادھیڑتی جیسے سارہ قصور ہی اس نالائق کا ہو اس عملی تشد د کے بعدٹیلے پر پڑا بھٹہ کسی کام کا نہ رہتا اور اپنی فطری خوبصورتی گنوا بیٹھتا۔ اس وقت اچانک اس کے اپنے جسم میں لعنتی بوڑھے کی روح حلول کر آتی‘ جو اندر کہیں بھٹی جلانے لگتا۔ خون میں چنگاریاں سی پھوٹنے لگتیں۔پکھنڈی‘ نالائق۔۔۔ اندر ہی اندر بیٹھا سلگتا رہتا لیکن اس میں جرات کا فقدان تھا وہ جان بوجھ کر اسے ستر ڈگری فارن ہائیٹ پر پاپ کارن بننے والے بھٹے دکھاتا جنہیں دیکھ کر وہ سیخ پا ہو اٹھتی نجانے زراعت کی کون کون سی کتاب پڑھ رکھی تھی لڑکی نے۔۔
بار بار کی بحث اور بھٹوں کے بارے میں جرح اور دوسرے اوصاف خفیف سن کر اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ زراعت نامی کوئی علم کتنا بلیغ تھا جسے اس جیسے بھٹہ فروش کیلئے سمجھ پانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور یہ بھی کہ کیوں دنیا کی کثیر آبادی اس سے جری ہوئی تھی۔ وہ بھٹے کے کردار، خصائص اور نقش و نگار یوں بیان کرتی جیسے وہ بے جان بھٹہ نہ ہو بلکہ کوئی جاندار شے ہو۔۔۔
’’نا لائق! دودھیا بھٹہ دیکھا نہیں کبھی۔۔۔ اس طرح کے تاریک‘ بے رونق بال ہوتے ہیں اندر باہر الجھے الجھے دھاگے‘ سلجھاؤ تو سلجھتے نہیں‘ جھلسے ہوئے بے رنگ موئے۔۔۔سڑیل بھٹے۔۔ان کی صرف لمبائی پر ہی نہ جاؤ۔۔۔ ارے اندر کے بالوں پر دھیان دو اندر کے۔۔۔۔ دانے تو دو ہی بھلے۔۔۔پر ہو ں دودھیا۔۔ سنہرے بالو ں میں لپٹے ہوئے۔۔ نئے نئے پونگرے‘ باریک ریشمی بال ہاتھ پھیرو تو لپٹ لپٹ جائیں۔۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے لڑکی کا چہرہ سرخ انار ہو جاتا آنکھیں بے قراری سے اندر تک اتر جاتیں‘ انجانے احساس سے وہ کانپ اٹھتا اور جھانکتی آنکھوں کے سحر سے نکلنے کیلئے اسے چوبیس گھنٹوں کی مصروفیت مل جاتی۔ سچے موتیوں جیسے چمکداردانت اور پل پل دبوچتی معنی خیز نشیلی آنکھیں‘ اسے چبانے کو دوڑتیں اور وہ سرپٹ بھاگتا رہتا۔۔
وہ گھر سے بوڑھے مینجر کے چار چار چکر لگواتی تب بھی بھٹہ پسند نہ آتا آخر اپنی خریداری خود آکر کرتی تو بلا ٹلتی۔۔۔ وہ بھی اس کا برا نہ منا تا، کبھی کبھار یہ خدمت خود اسے بھی انجام دیناپڑتی۔۔ مینجر دالان میں چارپائی پر بیٹھا بڑھاپے سے ہانپ رہا ہوتا لیکن ایسے میں بھی اس کے منہ سے نکلنے والی آواز سیٹی نم ہوتی اور آ نکھیں اندر تک جھانکتی محسوس ہوتیں۔
’’گڑیا کیلئے بھٹہ لائے ہو۔۔۔ دے آؤ۔۔ دے آؤ شا باش بچے۔۔ بہت اچھے‘‘
لیکن مینجر کو دیکھ کر اسے ہمیشہ یہی سوجھتا جیسے وہ خزانے کی رکھوالی بیٹھا کوئی عمر رسیدہ سانپ ہو جس نے ابھی ابھی جون بدلی ہو وہ بھٹہ لڑکی کو پکڑا بوڑھے کی جانب دیکھے بغیر باہر کی اور بھاگنے کی کرتا اور ٹھیلے پر آکر دم لیتا۔
اس شام سے بہت قریب کی ایک شام کا ذکر ہے جب وہ دریافت ہواتھا۔۔۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے وہ بوڑھے مینجر کے لئے کوئی دوا میڈیکل سٹور سے لے کر واپس لوٹی تھی کچھ جلدی میں تھی پل بھر ٹھہر کر اس نے لڑکے کی آنکھوں میں جھانکا، بھٹوں پر سرسری نگاہ دوڑائی اور کہنے لگی۔۔’’وقت نہیں ہے میرے پاس دودھیا لے کر آنا۔ میں جاتی ہوں۔۔‘‘ اور پیسے پکڑاکر چل دی۔
اس کیلئے ہمیشہ فیصلہ کرنا مشکل رہا تھا لیکن پھر بھی سب سے اچھا بھٹہ نکال کر اس نے تیار کیا اور اس کے گھر کی اور چل پڑا اس نے آ ہستہ سے گیٹ دبایا دروازہ کھلا تھا، خزانے کا سانپ غائب تھا
گرتی شام کی مدھم روشنی بادلوں کے رنگ میں رنگ چکی تھی وہ گڑیا کے کمرے کی جانب بڑھا۔
دروازے کی درز سے چھن چھن کر روشنی باہر برآمدے میں تہہ در تہہ بچھ رہی تھی۔۔ اس نے آہستگی سے دروازے کو دھکا دیا اور بھٹہ آگے بڑھایا پھر سامنے دیکھ کر اس کی نگاہیں جیسے جامد ہو گئیں۔ پرت در پرت کھلا دلکش دودھیا بھٹہ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں چمک رہا تھا نشیب میں ریشمی سنہرے بالوں سے اٹھنے والی مہک فضا میں رقصاں تھی اور باہر درختوں میں ہوا سرسرا رہی تھی۔