سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے۔ یوں کہ دائیں طرف کچھ فاصلے پر سمندر تھا۔ یہ سمندر بحرالکاہل ہے۔اگرچہ اہلِ آسٹریلیا بحرالکاہل کے اُس حصے کو جو آسٹریلیا کے مشرقی ساحلوں سے ٹکراتا ہے،بحرِ تسمان کہتے ہیں۔
بحرالکاہل بھی کیا کیا نظارے اور بہاریں دکھاتا ہے۔ مغربی کینیڈا جائیں تو بحر الکاہل کے دم سے رونقیں ہیں۔لاس اینجلز جائیں تو بحرالکاہل کی کرم فرمائیاں ہیں۔ آسٹریلیا، جاپان، فجی، ہوائی، فلپائن اور نیوزی لینڈ جیسے ہوشربا جزیرے بحرالکاہل کی آغوش ہی میں سرمستیاں کر رہے ہیں۔
تو سڈنی سے ہم شمال کی طرف چلے اور ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد تقریباً اسّی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے
Gosford گاس فرڈ
پہنچے
جب ہوائی جہاز نہیں تھے تو ہمارے لیے سب کچھ برصغیر ہی تھا اور برصغیر بھی پورا نہیں بلکہ صرف شمالی حصہ اسی لیے کشمیر کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بر روئی زمین است ….
اگر فردوس بر روئی زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
مغلوں کو تو کشمیر بہت ہی پسند تھا۔ جہانگیر کشمیر ہی سے واپسی کے دوران لاہور میں چل بسا اور وہیں دفن ہوا ۔ لیکن کرہ ارض پر بے شمار ایسے علاقے ہیں، ساحلی بھی اور کوہستانی بھی،صحراﺅں کے درمیان نخلستانوں میں بھی اور سمندروں کے درمیان جزیروں میں بھی جنہیں جنت سے موسوم کیاجاتا ہے اور گاس فرڈ بھی انہی میں سے ایک ہے!
اس کا محلِ وقوع بھی عجیب ہی ہے۔ تین قسم کے پانی اسے فیض یاب کر رہے ہیں۔ اس کے جنوب میں سمندر کا وہ ٹکڑا ہے جو بحرالکاہل کا حصہ ہے اور جگہ جگہ خشکی پر قبضہ کرتا ،خلیجیں، آبنائے اور ڈیلٹا بناتا، دور تک آگیا ہے۔اسے برزبن واٹرز کہتے ہیں،مغرب سے دریائے ہاکس بری لہراتا ہوا آتا ہے اور یہاں گم ہوجاتا ہے ذرا اور نیچے جنوب کی طرف ”خلیج شکستہ“
(BROKEN-BAY)
ہے جو بحرالکاہل سے بچھڑی اور یہاں آباد ہوئی۔
اس خوبصورت محلِ وقوع میں آباد گاس فرڈ صُوَری حسن اور اقتصادی استحکام کی ایک علامت ہے۔ پارکوں اور باغوں سے اٹا ہوا۔ کہیں جاپانی طرزِ تعمیر کے باغات ہیں اور کہیں میلوں پھیلے ہوئے سبزہ زار ، کہیں پنیر بنانے کی فیکٹریاں ہیں اور کہیں شہد کے فارم، ہر گھر کا اپنا باغ ہے۔ درختوں پودوں پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا،کھڑکیاں سمندر کی طرف کھل رہی ہیں….
بنی ہوئی ہیں کنارِ دریا پہ خواب گاہیں
ُکھلے ہوئے ہیں وصال کے در سفر کی جانب
جو گھر سمندر کے کنارے بنے ہیں اُن کے صحن سے ایک چوبی پُل سمندر کے اندرچلا گیا ہے۔ پُل کے اختتام پرلکڑی کا بڑا سا تخت ہے جس پر بیٹھنے کیلئے کرسیاں اور بنچ رکھے ہیں۔ یہاں شام کی کافی پی جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے تخت سمندر پر تیر رہا ہے۔ کہیں ساحل پر ہجوم ہے کہ بطخوں، بگلوں، سارسوں اور پیلی کن کو خوراک کھلائی جارہی ہے۔ میلے کا سماں ہے۔مچھلی پھینکی جاتی ہے اور پیلی کن دوڑ کر آتے ہیں اور اسے ہوا ہی میں پکڑ کر کھاجاتے ہیں۔ کہیں چھوٹے چھوٹے حوض ہیں صرف بچوں کے نہانے کیلئے ۔ اتنا کم پانی ہے کہ کوئی بچہ ڈوب نہیں سکتا۔ ڈیڑھ ڈیڑھ سال کے بچے پانی میں کھڑے ہوکر،بیٹھ کر،دوڑ کر، کھیل رہے ہیں۔ کہیں ساحلوں پر گہما گہمی ہے۔ کچھ مہم جو تختے لیکر لہروں کے اوپر تیر رہے ہیں کچھ کمر کمر تک پانی میں ڈوبے کھڑے ہیں اور کچھ ریت پر دراز ٹھنڈی ہوا اور گرم دھوپ سے اپنا اپناحصہ لے رہے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ لوگ کیوں آسودہ ہیں؟ اور ہمارے بخت کیوں کالے ہیں؟ ہم بھی محنت کرتے ہیں۔ہمارے بھی دماغ تیز اور جسم مشقت کرنے کے اہل ہیں، ہمارے تصرف میں بھی وہی چوبیس گھنٹے ہیں جو انکے پاس ہیں پھر آخر کیوں، اسی کرہ ارض پر،اسی نیلے آسمان کے نیچے ہمارے حالات عبرت ناک اور انکے روز و شب قابل رشک ہیں؟!
آپ جتنے انسائیکلو پیڈیا اب تک چھپے ہیں ،چھان ماریں، گذری ہوئی تاریخ کا مطالعہ کریں، سیانوں سے پوچھ لیں۔آپ کو ایک ہی اصول بتایاجائےگا اور وہ یہ کہ جس قوم کے رہنما چوکنے ہوں، جاگ رہے ہوں، زیر نگرانی ہوں اور محاسبے سے خوف زدہ ہوں،اُس قوم کے عوام آسودہ حال ہوتے ہیں ۔ بے فکر ے ہوتے ہیں، گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں اور مزے کی زندگی گزارتے ہیں اور جس قوم کے رہنما آسودہ حال ہوں، خوابِ استراحت میں ہوں، مزے کی زندگی گزار رہے ہوں،اُس قوم کے عوام رات کو سو سکتے ہیں نہ دن کو آرام کرسکتے ہیں اور زندگی ان کیلئے پشیمانی اور موت ان کیلئے مہنگی ہوتی ہے۔
آپ اُن تمام ملکوں کا مطالعہ کریں جو مالی استحکام، امن و امان،انصاف اور خود اعتمادی سے بھرپور ہیں اور کرپشن سے پاک ہیں۔آپ فن لینڈ، کینیڈا، امریکہ،آسٹریلیا، سوئٹز ر لینڈ اور جاپان کی حکومتوں کوبے شک خوردبین سے دیکھ لیں۔ ان کے رہنماایک ٹیڈی پیسہ بھی ناجائز کما سکتے ہیں نہ چھپا سکتے ہیں اور نہ ہی ہضم کرسکتے ہیں۔ان ملکوں میں صدر کٹہرے میں کھڑا کردیاجاتا ہے اور وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بے ٹکٹ سفر کرے تو دھرلی جاتی ہے۔ان لیڈروں کے پاس نوکروں کی فوج ہے نہ گاڑیوں کے ہجوم ، یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انکے ڈیفنس والے گھر میں مہنگے سوٹوں سے بھرے ہوئے چالیس کارٹن آئینگے ۔ یہ کسی میٹر ک پاس کو او جی ڈی سی کا حاکم تو دور کی بات ہے اپنی مرضی سے پرائمری سکول کا کلرک تک نہیں لگا سکتے۔ان کیلئے خواب میں بھی یہ ناممکن ہے کہ سرکاری خرچ پر کسی دوسرے ملک کے دورے پر جائیں تو سرکاری تقریب میں ایک طرف انکی بیٹی اور دوسری طرف ان کا بیٹا بیٹھا کھڑا ہو۔ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اقتدار میں آئیں تو ان کے لوہے کے کارخانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ایف ۔بی۔ آر سے ایک ایک دن کیلئے حکم نامے جاری ہوں۔ ان ملکوں میں ممکن ہی نہیں کہ چیف منسٹر کا بیٹا پولٹری کے بزنس پر اپنی اور صرف اپنی اجارہ داری قائم کر لے۔ان ملکوں کے بے کس اور مجبور لیڈر لندن اور پیرس تو دور کی بات ہے،نائیجریا اور سری لنکا تک میں کارخانے محلات اور اپارٹمنٹ نہیں لے سکتے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ان ملکوں کے لیڈر دوسرے ملکوں میں جاکر وہاں کی شہریت لے لیں اور پھر وہیں رہیں اور سیاست بھی کریں؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ان ملکوں سے کوئی جرنیل بہت سے جرائم کرکے ملک سے بھاگ جائے اور دنیا میں گھوم پھر کر تقریریں کرتا پھرے اور ایک بینک اکاﺅنٹ میں اسکے ایک کروڑ ستر لاکھ درہم جمع ہوں اور ایک بینک اکاﺅنٹ میں اسکے پانچ لاکھ پینتیس ہزار ڈالر ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے چھہتر لاکھ درہم جمع ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے اسّی لاکھ درہم ہوں اور ایک اور اکاﺅنٹ میں اسکے اسّی لاکھ ڈالر ہوں اورایک اور اکاﺅنٹ میں تیرہ لاکھ ڈالر ہوں اور انکے علاوہ بھی اسکے اکاﺅنٹ ہوں اور ان میں ڈالر اور پاﺅنڈ اور درہم ہوں اور میڈیا میں تفصیلات موجود ہوں، پھر بھی اُسے پکڑا نہ جائے اور اس ساری دولت کی تفصیل نہ پوچھی جائے؟
ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے ۔ ہم ہرخطبے اور ہر مضمون میں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ حضر ت عمرؓ سے بڑھیا نے یہ پوچھا تھا اور حضرت علیؓ عدالت میں حاضر ہوگئے تھے لیکن ہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ہماراحال بھی کوئی ایسی مثال دے سکتا ہے ؟
تو پھر اگر مزے کی میٹھی نیند ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنماﺅں کے حصے میں ہے تو ہم عوام اُسی حالت میں رہیںگے جس میں ہم اس وقت ہیں ۔اس لیے کہ اصول کسی ایک قوم کیلئے نہیں بدلتے! لیڈر یا عوام، دونوں میں سے صرف ایک عیش کرسکتا ہے! دونوں نہیں۔