امریکی مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور دولہا تلاش کرنے کےلئے وہ میری منت سماجت کر رہا ہے۔
مافیا کا تعارف کراتا چلوں۔ انیسویں صدی میں جنوبی اٹلی میں، خاص طور پر سسلی کے جزیرے میں، مجرموں نے اپنے اپنے گروہ بنا لئے تھے۔ ان سب گروہوں نے باہم متحد ہو کر ایک انجمن سی بنا لی۔ اسی کو مافیا کہتے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور ہو گیا کہ کاروباری افراد، کارخانہ دار، کرنسی کا کام کرنے والے، باغات کے مالک، سب انکے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جو مافیا سے ”معاملہ“ طے نہیں کرتے تھے اُنکی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں تھی اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا تھا۔ دو بہادر مجسٹریٹوں جوانی فالکن اور پائولو برسلی نو نے مافیا پر ہاتھ ڈالا لیکن 1990 کی دہائی میں دونوں کو قتل کر دیا گیا۔
اٹلی سے امریکہ کی طرف ہجرت کی لہر چلی تو مافیا کی شاخ امریکی ساحلوں پر بھی پہنچ گئی۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ امریکی مافیا کی جو دراصل اطالوی ہی تھے ایک آزاد تنظیم بن گئی۔ یہ اور بات کہ سسلی کے جرائم پیشہ گروہوں کےساتھ یہ تعاون کرتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کے چھبیس شہر مافیا کا شکار ہو کر رہ گئے۔ شکاگو، بوسٹن، پٹس برگ، فلاڈلفیا، نیو جرسی، نیویارک، میامی، لاس ویگاس اور کئی دوسرے شہروں میں جرائم کی زیر زمین تنظیموں نے پولیس کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ صرف نیویارک ہی میں پانچ جرائم پیشہ خاندان کام کر رہے ہیں۔ یہ اور دوسرے خاندان مافیا کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ خاندان کا سربراہ مافیا کے اجلاس اٹنڈ کرتا ہے۔ سربراہ کو باس یا ڈان کہا جاتا ہے۔ خاندان کا جو رکن بھی واردات کرےگا اس میں سے باس کا ”حصہ“ باس کو پہنچایا جائےگا۔ باس کا انتخاب ووٹوں سے ہوتا ہے لیکن عام طور سب کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ اگلا باس کون ہو گا۔ باس کے بعد دوسری طاقتور شخصیت کو ”انڈر باس“ کہا جاتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ خاندان کے روزمرہ کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ باس کے بعد اس کا بھی ہر واردات یا کاروبار میں مقررہ حصہ ہوتا ہے۔
مافیا کے قوانین دلچسپ ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اہم ترین قانون ”اُمرتا“ ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی صورت میں بھی قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو کچھ نہیں بتانا۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ مکمل رکن ہونے کیلئے اطالوی نسل سے ہونا لازمی ہے۔ ہاں، رفیق یا پارٹنر کوئی بھی سکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے خاندان سے اپنے خاندان کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا جائےگا۔ ارکان ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرینگے۔ قتل کی صورت میں باس کی اجازت کے بغیر بدلہ نہیں لیا جائےگا۔ سب سے زیادہ دلچسپ اصول یہ ہے کہ خاندان کے اندر، کوئی ممبر، کسی دوسرے ممبر کی بیوی کو بُری نظر سے نہیں دیکھے گا۔ مونچھیں یا داڑھی رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہم جنسی کا ارتکاب کرنے والے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ مافیا کی سزائیں بھیانک ہوتی ہیں۔ قتل کرنے کے بعد کبھی کبھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ایک بار نیویارک کے مافیا نے اپنے ایک دشمن کو قتل کیا تو اُسکے منہ میں مردہ فاختہ ٹھونس دی۔ ایک ممبر کو، جو وارداتوں میں سے باس کو حصہ نہیں دے رہا تھا، قتل کر کے اسکے جسم میں تین سو ڈالر ٹھونسے گئے، اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص لالچی تھا
!
مافیا کے جرائم پر کئی ناول لکھے گئے جو بہت مشہور ہوئے۔ بے شمار فلمیں اس موضوع پر بنیں۔ سب سے زیادہ مشہور ناول ”گاڈ فادر“ ہوا۔ اس کا مصنف شہرہء آفاق ادیب ”ماریو پوزو“ ہے۔ اس ناول پر فلم بھی بنی۔ اس فلم کا نام بھی گاڈ فادر ہی تھا اور یہ بہت مشہور ہوئی۔ آج تک اسے شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں افسانہ کم اور حقیقت زیادہ ہے۔
ماریو پوزو اس کالم نگار کے پسندیدہ مصنفین میں سے ہے، اس کی تین اور کتابوں (دی سسلین، لاسٹ ڈان، اُمرتا) میں بھی مافیا کی کہانی ہے۔ ماریو پوزو 1999ءمیں انتقال کر گیا اُس کا آخری ناول (دی فیملی) نامکمل رہ گیا تھا۔ اسے اسکی دوست کارل گینو نے مکمل کیا اور یہ 2001ءمیں شائع ہوا۔
معافی چاہتا ہوں بات دور نکل گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اپنے پڑھنے والوں کو اصل بات بتانے سے پہلے کسی حد تک پس منظر سے آگاہ کر دوں۔ میری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کےلئے دولہا تلاش کرنے کا کام میرے سپرد کیا ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اتنا ہی آسان ہوتا تو مافیا کا سربراہ ہارورڈ سے فارغ التحصیل کسی بھی نوجوان کو پسند کر لیتا۔ مسئلہ تو بہادری کا ہے۔ نڈر اور بے خوف ہونے کا ہے۔ اب ذرا لڑکی والوں کی یعنی مافیا کی شرائط بھی سُن لیجئے۔
دولہا بہادر ہو۔ اس قدر بہادر کہ قانون کو پائوں کے نیچے روندتا پھرے۔
اُسکی ڈگری اصلی نہ ہو بلکہ جعلی ہو۔ اصلی ڈگریاں اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جو ڈرپوک ہوتے ہیں۔
اُسکے پاس بغیر لائسنس کے اسلحہ ہو اور بہت سا ہو۔
اسکے ساتھ ہمہ وقت اسکے محافظ رہتے ہوں جو مسلح ہوں۔ یہ اسلحہ بھی بغیر لائسنس کے ہو۔
اسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو، زرعی زمین، کارخانے، قیمتی گاڑیاں، بنک بیلنس، سونا، ہیرے جواہرات!
لیکن جب اثاثے ظاہر کرنے کا وقت آئے تو وہ اپنے آپ کو غریب یا مڈل کلاس ظاہر کرے۔ بالخصوص اثاثوں میں اُسکی گاڑیوں کا ذکر بالکل نہ ہو۔
وہ ٹیکس چوری کرے اور ڈنکے کی چوٹ چوری کرے۔
جب وہ سفر کر رہا ہو تو اُسکی پجارو پر ایک خاص قسم کی پلیٹ نصب ہو، جسے دیکھ کر پولیس، ائر پورٹ حکام، ٹریفک والے، سب اُسے سلام کریں۔
جب اس نے امتحان دینا ہو تو اُسکی جگہ اُس کا بھتیجا کمرہء امتحان میں بیٹھے۔
اگر کسی کالج کا پرنسپل اسکی سفارش نہ مانے تو وہ پرنسپل کی پھینٹی لگا سکے۔
زمین اور پلاٹوں کے فراڈ کے سلسلے میں اگر پولیس اُسے پکڑ لے تو ”عوام“ پولیس کی گاڑی پر حملہ کر کے اُسے چُھڑا لے جائیں!
وہ ائر پورٹ پر کسٹم کے اہلکاروں کو بھی آنکھیں دکھاتا ہو اور کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
افسر وں، اُستانیوں، ٹیچروں لیکچراروں ، پٹواریوں، تھانیداروں اور تحصیل داروں کے تبادلے، خاص طور پر اُسکے اپنے علاقے میں، اُسکی مرضی سے ہوں۔
آپ میری حالتِ زار کا اندازہ لگائیے، ایک طرف مافیا اور دوسری طرف ۔۔۔ کیا بتائوں کون ہیں
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
کیا آپ میری مدد کریں گے؟
http://columns.izharulhaq.net/2011_07_01_archive.html
“