میں حیران ہوں کہ تم لوگ کتنے بدقسمت ہو۔ تمہارے پاس خزانہ ہے اور تم لوگ خزانے سے بے خبر بھک منگوں کی زندگی گزار رہے ہو۔ تمہارے صحنوں کے نیچے سونے چاندی کے انبار دفن ہیں۔ تمہاری دیواروں کی بنیادوں میں وہ صندوق پڑے ہیں‘ جو ہیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن تم لوگ ایک ایک پائی کیلئے ترس رہے ہو
ٹیٹو بولے جا رہا تھا اور میں کبھی حیرت سے اُس کا منہ دیکھتا تھا اور کبھی شرمندگی سے اپنے پاؤں پر نظریں جماتا تھا۔ یہ ٹیٹو یوگوسلاویہ کا آنجہانی حکمران مارشل ٹیٹو نہیں تھا۔ یہ جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا کا ٹیٹو تھا جو میرا ہم جماعت تھا۔ تیس سال پہلے اٹلی میں ہم دونوں اقتصادیات کے طالبعلم تھے۔ میرے ساتھ اسکی اس زمانے کی تصویر آج بھی میرے بچے دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں کیوں کہ وہ لمبی داڑھی اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک کلائون لگتا ہے پھر یوں ہوا کہ زمانے کی گردش ہمیں ادھر ادھر لئے پھری۔ میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا لیکن لاطینی امریکہ جانا میری قسمت سے باہر ہی رہا۔
تین سال پہلے گیا بھی تو میکسیکو گیا۔ ایک ہفتہ اتنا مصروف رہا کہ بولیویا جانے کا سوچ ہی نہ سکا۔ یہ تو دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ آسٹریلیا میں آوارہ گردی ہوئے میں نے اسے ایک پب سے نکلتے دبوچ لیا سوائے اسکے کہ اسکی لمبی داڑھی سفید تھی اور کوئی تغیر اس میں نہیں آیا تھا۔ وہ بھی میری ہی طرح ملک ملک گھوم رہا تھا۔
اس زمانے میں بھی اسے عالم اسلام دیکھنے کا شوق تھا، یہ شوق اس نے اب پورا کیا۔ وہ مراکش، مصر، اردن، پاکستان اور ملائیشیا سے ہوتا ہوا آسٹریلیا آیا تھا اور یہاں سے چلی اور واپس بولیویا جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔
سب سے زیادہ مایوسی اسے پاکستان آ کر ہوئی۔ اس کے ذہن میں جو تصویر اس ملک کی بیٹھی ہوئی تھی، اصلیت اسکے برعکس نکلی، اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ترقی یافتہ ہو گی، لوگ پڑھے لکھے ہونگے، قانون کا احترام ہو گا اور یونیورسٹیاں اور کالج تحقیق میں ڈوبے ہوئے سائنس دانوں سے چھلک رہے ہونگے لیکن اس کا دس دن کا قیام اس کیلئے مایوسی کا باعث بنا۔
میں اسے ایک لبنانی ریستوران میں کھانا کھلانے لے گیا۔ وہ اپنے سفر کے تجربات سنانے لگ گیا، ایک مسحور کن گفتگو کرنا اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، مادری زبان ہسپانوی ہونے کے باوجود وہ انگریزی پر مکمل دسترس رکھتا تھا، کھانا کھانے کے بعد ہم نے کافی منگوائی اور یہ وہ وقت تھا جب اس نے مجھے حیرت اور شرمندگی سے دوچار کیا۔
’’مصر اور اردن میں قیام کے دوران میں نے تمہارے رسولؐ کی زندگی کا مطالعہ کیا پھر پاکستان کی موجودہ حالت دیکھی تو مجھے تعجب ہوا۔ دنیا کی پست ترین قوم بھی اگر پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرے تو آسمان پر پہنچ جائے لیکن افسوس! تم مسلمان اپنے رسول کے احکام کو خاطر ہی میں نہیں لا رہے! تم لوگوں نے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ تمہارے ہاں شہد بھی اسلامی ہے، طب بھی اسلامی ہے، تمہارے کالج بھی اسلامیہ ہیں، تمہارے ریستورانوں اور بیکریوں کیساتھ بھی مدینہ کا لفظ لگا ہوا ہے۔ تمہارے مدارس کے نام دیکھے جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم قرن اول میں آ نکلے ہیں۔ لیکن تمہاری زندگیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ تمہارے رویے کچھ اور بتاتے ہیں۔ تم اخلاقی لحاظ سے پستیوں میں ہو، علمی اعتبار سے قلاش ہو، تحقیق اور سائنس کے اعتبار سے مفلس ہو اور اقتصادی حالت گداگروں جیسی ہے اور وہ لوگ جو مسلمان نہیں، انہوں نے تمہارے رسولؐ کے احکام پر عمل کر کے دنیا کو مسخر کر لیا ہے۔ تمہاری مقدس کتاب نے تمہیں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا لیکن آج غیر مسلموں نے کائنات کا آخری سرا دریافت کیا ہے، مسلمان اس دریافت سے کوسوں دور ہیں۔
تمہارے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ لیکن آج دنیا میں سب سے زیادہ گندے مسلمان ہیں۔ سڑکیں، باغ، گھر، پارک، دکانیں کہیں بھی صفائی نہیں۔اسکے مقابلے میں غیر مسلموں کو دیکھو، انہوں نے یہ اصول اپنایا۔ آج ان کے ملک شیشے کی طرح چمک رہے ہیں،
تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ صرف اہل (QUALIFIED)
طبیب کے پاس جاؤ۔تمہارے ملک میں عطائیوںکی بھر مار ہے۔ تم علاج تعویذوں اور مزاروں کی مٹی سے کر رہے ہو۔‘‘
تمہارے رسولؐ کا فرمان ہے ’’کہ علم حاصل کرنے کیلئے چین (اس وقت دنیا کا کنارہ) بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘۔آج مسلمان ملک خواندگی کے تناسب میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں۔ انہیں زبانوں پر عبور ہے نہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ ہے‘ انکے حکمران معمولی بیماریوں کے علاج کیلئے بھی لندن اور ہیوسٹن جاتے ہیں۔ غیر مسلموں کے ہر محلے میں لائبریری ہے لیکن مسلمانوں کے ہاں خوراک کی دکانیں ہیں، کپڑے کے بازار ہیں، زیورات کی مارکیٹیں ہیں اگر نہیں تو لائبریریاں نہیں‘ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی قیدیوں سے فرمایا تھا کہ ہماری عورتوں اور مردوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تمہیں آزاد کر دیں گے اس رسولؐ کے نام لیوا سکول جلا رہے ہیں۔
جس رسولؐ نے اعلان فرمایا کہ:
’’جس نے اترنے کی جگہ تنگ کی یا راہ گیروں کو لوٹا اس کا کوئی جہاد نہیں۔‘‘
ایک غزوے میں رسولؐ نے ایک مقتول عورت کو دیکھا تو فرمایا …
’’خالد کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ پیغمبر تمہیں حکم دیتے ہیں کہ بچوں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘
یہودیوں کے سردار ابن ابی الحقیق کو قتل کرنے کیلئے صحابہ کا دستہ بھیجا گیا اس دستے کو رسولؐ نے حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس دستے میں شریک ایک مجاہد کا بیان ہے کہ ’’ابن ابی الحقیق کی بیوی نے چیخ کر ہمارے خلاف مدد کیلئے پکارا، میں نے تلوار بلند کی لیکن پھر مجھے رسول اللہ ؐ کا حکم یاد آیا اور میں نے اپنی تلوار روک لی‘ اگر آپ کا حکم نہ ہوتا تو ہم اسکی بیوی کا قصہ پاک کر دیتے۔‘‘ جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ مشرکین کے تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے۔‘‘
آج اُسی رسولؐ کے نام لیوا ان ہدایات کے پرخچے اُڑا رہے ہیں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں، غیر مسلح عوام یہاں تک کہ مسجدوں میں سجدہ کناں نمازیوں کوبھی قتل کر رہے ہیں اور پھر رسولؐ کی مخالفت میں اتنا دور جا رہے ہیں کہ قتل عام کو جائز بھی قرار دے رہے ہیں۔ جس رسولؐ نے فرمایا تھا کہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھو اس لئے کہ تمہیں رزق اس لئے دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد اس لئے کی جاتی ہے کہ تم اپنے ضعیفوں کا خیال رکھو۔اس رسولؐ کے نام لیوا ملکوں میں بوڑھے دھکے کھا رہے ہیں اور بے یارو مددگار مر رہے ہیں جب کہ غیر مسلم ممالک میں ہر بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کی خوراک، علاج اور رہائش کا انتظام ریاست کے ذمے ہے اور ٹرینوں، بسوں اور جہازوں میں وہ مفت سفر کرتے ہیں۔
تمہارے رسولؐ کا فرمان تھا کہ اگر اس کی بیٹی فاطمہؓ بھی جرم کرتی تو سزا سے نہ بچ سکتی،۔آج تمہارے ہاں سزا صرف انہیں ملتی ہے جو طاقتور طبقے سے تعلق نہیں رکھتے اور وہ جو رُولنگ کلاس سے ہیں انکے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، ان کیلئے قتل، چوری، جھوٹ، رشوت، ڈاکہ، ٹیکس کا ہیر پھیر، بدکاری خیانت، اسراف، تبذیر، نمائش، اقربا پروری، سفارش، ملاوٹ، ملکی قانون کی خلاف ورزی، دوسروں کا حق مارنا سب کچھ جائز ہے۔ جنہیں تم کافر کہتے ہو انہوں نے تمہارے خلفائے راشدینؓ کی پیروی کی ہے۔ صدارت کے عہدے پر فائز کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا بیٹا ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی اہلیہ جلدی میں ہونے کی وجہ سے ٹرین کا ٹکٹ نہیں خریدتی تو عدالت میں طلب کر لی جاتی ہے۔ خاتون وزیر سائیکل چلاتے ہوئے سرخ بتی کی خلاف ورزی کرتی ہے تو وزارت سے استعفی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وزیر سرکاری کاغذ پر ذاتی خط لکھتا ہے تو اس پر اعتراض ہوتا ہے اور وہ معافی مانگتا ہے۔ یہ وہ اسلامی روایات ہیں جن کا مسلمان ملکوں میں سوچا تک نہیں جا سکتا۔‘‘
ٹیٹو کے مطالعے اور معلومات پر مجھے حیرت ہوئی۔ ’’یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا؟‘‘ اس نے جیسے میرا ذہن پڑھ لیا۔ ’’میں تمہارے رسولؐ کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو سوچتا ہوں مسلمان ہو جاؤں، لیکن جب تم مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ تم خزانوں کے مالک ہو اور بھک منگوں کی زندگی گزار رہے ہو۔‘‘