ڈگلس ٹامپکنز ۸ دسمبر ۲۰۱۵ کو ہائپوتھرمیا کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ ان کی زندگی کے بہت سے رخ تھے۔ کامیاب ارب پتی جو نارتھ فیس جیسی کمپنی کا آغاز کرنے والے۔ ریکارڈ بنانے والے کوہ پیما جنہوں نے پاکستان آ کر کے ٹو جیسی چوٹی کو بھی سر کیا۔ ایک شوہر، ایک باپ۔ لیکن ان کی زندگی اس سے زیادہ تھی۔ یہ شاہانہ طریقے سے زندگی گزارنے والے امیر شخص نہیں تھے۔ یہ پورا ایکوسسٹم بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ڈگلس کی زندگی ایک ارب پتی کی زندگی تھی۔ انہوں نے دنیا کی ان جگہوں کا بھی سفر کیا جہاں دوسرے جانے سے خوف کھاتے ہیں۔ کپڑوں کی دو کمپنیاں شروع کی جو آج دنیا کی مشہور ترین کمپنیوں میں سے ہیں۔ یہ کامیاب زندگی تھی لیکن اصل کامیابی یہ تھی کہ یہ اس دنیا کے گلوبل شہری تھے۔ ان کو اپنے بزنس، اپنی فیملی، اپنے ریکارڈز سے نہیں بلکہ اس سے یاد رکھا جائے گا جو یہ دنیا کو دے کر گئے۔ ۱۹۹۳ میں انہوں نے چلی اور ارجنٹینا میں قومی پارک سسٹم کے نئے پراسس کا آغاز کیا۔ یہاں پر اتنی زمین خریدی جس پر پورا ملک آباد ہو سکتا ہے۔ یہ رقبہ کویت جتنا رقبہ تھا۔ کئی ملین ایکڑ چلی اور ارجنٹینا میں، غیرحاضر مالکان سے۔ اس خراب ہوتی زمین کو یہاں کے لوگوں کو بسس واپس لوٹا دیا۔ محفوظ پارکس کی صورت میں۔ جہاں غیر قانونی طور پر درخت نہ کاٹے جائیں، جہاں جنگلی حیات محفوظ رہے۔ اپنی بیوی کرس کیساتھ ملکر جس جگہ جنگل خطرے میں تھا، وہاں کا پورا ایکوسسٹم بحال کر کے۔
لیکن یہ یہاں تک ہی نہیں رکے۔ کنزرویشن کا مطلب صرف زمین کی بحالی نہیں۔ اس کا تعلق وہاں رہنے والے لوگوں سے بھی ہے۔ کنزرویشن کا مقصد ان کا روزگار چھیننا نہیں۔ ڈگلس بزنس مین تھے۔ انہوں نے یہاں پر انڈسٹری لگائی۔ مقامی زراعت میں سرمایہ کاری کر کے اسے منافع بخش بنایا۔ شجرکاری کو انڈسٹری بنایا۔ ایکوٹورزم، یعنی ماحول دوست سیاحت کا آغاز کیا۔ تا کہ مقامی لوگ بھی ان کے مشن میں حصہ دار رہیں اور تخریبی سائیڈ پر نہ نکل جائیں۔ ماحولیات پر کام کرنے کا صحیح طریقہ ڈگلس نے بھرپور طریقے سے اپنی عملی مثال کے ذریعے کر کے دکھایا۔
یہ کرتے ہوئی ان کو مزاحمت ملی اور نفرت بھی۔ ڈگلس ٹامپکز پر بہت اعتراضات ہوئے۔ ایک اعتراض یہ کہ ڈگلس امریکی تھے اور کچھ لوگوں کیلئے یہ شناخت قابل قبول نہ تھی۔ انہوں نے زمین خریدنے کا آغاز پنوشے کے دور میں کیا تھا۔ بائیں بازو والوں کے نزدیک یہ امپیریلسٹ تھے جو زمین ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ دائیں بازو والوں کے نزدیک یہ ہپی تھے جو اقتصادیات کی تباہی پر تلے ہوئے تھے۔ ان پر سازشی نظریات بنے۔ کسی نے کہا کہ یہ سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔ کسی نے کہا صیہونی ایجنٹ جو پینٹاگونیا میں نیا اسرائیل قائم کرنا چاہتا ہے۔ کسی نے کہا ڈگلس کی نظر چلی کے پانی پر ہیں تو کسی نے رائے دی کہ یہ نیوکلئیر ویسٹ کو یہاں خفیہ طور تلف کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی ان پر ایسی باتیں بنیں۔ خاص طور پر بائیں بازو کے لوگوں کے لئے دنیا بھر میں دولت رکھنے والے ڈگلس معاشی ناہمواری کا نشان تھے۔ کچھ لوگوں کیلئے یہ دیوانے تھے۔ وہ سسٹم کا حصہ بھی تھے اور ایک انتہاپسند بھی جو باقی سوسائٹی سے مختلف تھے۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے دنیا کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے انتہاپسند۔ اپنی دولت سے انہوں نے زمین پر اثر ڈالا، جس کا رسپانس آیا۔ کہیں سے مثبت مگر کہیں سے خوف بھرا۔
وہ کیسے بزنس مین تھے۔ کتنی دولت کمائی۔ یا پھر یہ کہ اتنی دولت کمانا بھی کسی کا حق ہونا چاہئے یا نہیں۔ اس طرح کی بحثیں تو اسوقت تک دنیا میں چلتی رہیں گی جب تک ہم دنیا میں ہیں لیکن دولت کو محل بنانے، بڑے عجوبے بنانے، جہاز خریدنے یا شاہانہ کشتیاں خریدنے میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس دنیا کے مسائل کوئی بھی اکیلا حل نہیں کر سکتا۔ بلکہ دنیا کے مسائل ہیں کیا؟ اس پر بھی شاید کبھی اتفاق نہیں ہو گا۔ اپنے تصور کے مطابق دنیا کو بہتر کرنے کی کوشش ہر کوئی کر سکتا ہے۔ ڈگلس نے اپنی دولت خرچ کرنے کیلئے یہ راستہ چنا تھا۔ ان کا طریقہ کپڑے بیچ کر جنگل بچانے کا تھا۔
اس طرح کے ایک اور کردار بل گیٹس ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو مائیکروسافٹ کی مونوپولی قائم رکھنے کے لئے اپنا مقابلہ کرنے والوں کو اور چھوٹی کمپنیوں کو کچل دینے والے سی ای او کا ہے جو درست ہے۔ لیکن ایک اور پہلو بیماریوں کے خلاف جنگ کرنے والے، غربت مٹانے کی کوشش کرنے والے، انفرا سٹرکچر بنانے والے، توانائی کے مسئلے کے لئے اقدامات کرنے والے کا ہے جس کے لئے پچھلی دہائی میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں۔ دولت خرچ کرنے کے اور بھی بہت طریقے ہو سکتے تھے۔
یہ دنیا برابری کو ہونی چاہئے یا نہیں کی بحث سے قطع نظر، یہ کبھی بھی برابری کی نہیں ہو گی۔ یہاں پر کچھ ارب پتی سونے کی گاڑیاں خریدیں گے، پرتعیش محل اور جہاز بنوائیں گے جبکہ کچھ بیماریوں کے خلاف لڑیں گے یا جنگل بچائیں گے۔ یہ ان کا اپنا انتخاب ہے لیکن ہم ان کی تعریف کر سکتے ہیں جنہوں نے دولت کو خرچ کرنے کا طریقہ اس دنیا کو بہتر بنانے میں ڈھونڈا۔ ڈگلس ٹامپکنز ان میں سے ایک تھے۔