پچھلے دنوں بیگم صاحبہ کے ساتھ میک اپ خریدنے ایک دکان پر جانا ہوا تو دوکاندار ایک خاتون کو کوئی جلد گورا کرنے والی کریم دکھا رہا تھا۔ خاتون اگرچہ نقاب میں نہ تھی لیکن حلیے سے کوئی شریف اور باعزت گھرانے کی معلوم ہوتی تھی۔ دوکاندار نے کریم دکھاتے دکھاتے خاتون سے کہا کہ یہ ذرا لگا کر تو دیکھیں اور اسی دوران میں خاتون کے ہاتھ کو پکڑ کر اس پر کچھ کریم لگا دی۔ خاتون نے دوکاندار کی اس حرکت کو مائنڈ کیا اور صرف اتنا کہہ کر دوکان سے باہر چلی گئی کہ میں نے نہیں خریدنی ہے اور دوکاندار پیچھے بڑبڑاتا رہا۔
اسی طرح ایک مرتبہ بیگم صاحب کے ساتھ لینز خریدنے کسی دوکان پر گئے تو دوکان میں ایک نقاب والی لڑکی موجود تھی جو کہ لینز خرید رہی تھیں۔ شاید اس لڑکی نے پہلی مرتبہ لینز خریدنے تھے یا کچھ بھی ایشو تھا کہ وہ لینز اس سے اپنی آنکھوں میں لگا کر چیک نہیں کیے جا رہے تھے۔ اتنے میں دوکاندار نے فورا لڑکی کے ہاتھ سے لینز لیے اور جھٹ پٹ میں اس کی آنکھوں میں لگا دیے اور یہاں پر بھی اس سے نہیں پوچھا تھا کہ کیا میں ایسا کر لوں؟ وہ خاتون بھی کچھ چپ سی تو ہو گئی لیکن دوکاندار کو کچھ نہ کہا۔
اسی طرح آپ جوتوں کی دوکان میں چلے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ دوکاندار خواتین کو جوتا چیک کروا رہے ہیں اور عام روٹین یہ ہے کہ دوکاندار جوتا چیک کرواتے ہوئے خاتون کا پاؤں پکڑ لیتے ہیں اور اس میں جوتا پہنا دیتے ہیں جو کہ کسی طور مناسب نہیں ہے۔ بھئی تمہیں پاؤں پکڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو روزانہ شام کو گھر جا کر اپنی بیوی کے پاؤں پکڑا کرو۔ یہاں بھی دوکاندار عورت کے جسم کو اس کی اجازت کے بغیر مَس کرتے ہیں جو کہ کسی طور بھی جائز نہیں ہے، نہ شرعاً اور نہ ہی عقلاً۔ یہ اصل میں ذہنی اور قلبی طور بیمار دوکاندار ہیں۔
میری رائے میں ایسے حالات میں پردہ دار اور شریف خواتین کو پیسیو (passive) نہیں ہونا چاہیے بلکہ دو ٹوک انداز میں دوکاندار کو نہ صرف جھڑک دینا چاہیے بلکہ ڈانٹ بھی دینا چاہیے کہ بھئی تمہیں یہ اجازت کس نے دی ہے کہ تم میرے جسم کو ہاتھ لگاؤ اور ٹچ کرو؟ اور اس بات کو باقاعدہ اتنا ایشو تو بنانا چاہیے کہ وہ دوکاندار آئندہ کے لیے دوسری خواتین کے حوالے سے محتاط ہو جائے۔ اگر اس مسئلے میں خواتین نہیں بولیں گی تو دوکانداروں کی یہ بیماری بڑھتی جائے گی۔
اسی لیے تو حدیث میں بازاروں کو بدترین جگہیں کہا گیا ہے کہ یہاں ایمان کا لیول کم ہو جاتا ہے اور اچھی بھلی شریف خواتین بھی مردوں کی ایسی حرکات پر چپ سادھ کر بیٹھ جاتی ہیں کہ جنہیں وہ جائز نہیں سمجھ رہی ہوتی ہیں یا دل سے ناپسند کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“