عرفان ملک سے میری دوستی ایک خواب کی دوستی ہے
وہی خواب جو اس کراہ عرض پہ تیسرے درجے سے بھی کم تر درجے کے محکوم لوگوں کا خواب ہے– اور پھر میں نے اور عرفان ملک نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اس خواب دیکھنے کے جرم میں سزائیں بھی بھگتیں کبھی سرعام شہر کی سڑکوں پہ اور کبھی سلاخوں کے پیچھے
پاکستان سے سویڈن آتے ہوئے دو دن پہلے لاہور کے مال روڈ پہ میں نے پاکستانی پولیس کی جو آخری لاٹھیاں کھائیں عرفان ملک بھی میرے ساتھ تھا
ایک سال بعد عرفان ملک بھی اپنے خواب سمیت سویڈن آگیا
میں سویڈن کی شہر گوتھن برگ رہتا تھا – اور عرفان ملک آودے والا میں۔
ایک دن میں اسے ملنے آودے والا گیا- ان دنوں موبائل فون کی سہولت نہیں تھی میں نے چلنے سےپہلے گھر سے اسے فون کیا مگر بیل بجتی رہی – میں جب آودے والے پہنچ کے اسے فون بوتھ سے فون کیا تو بھی بیل ہی بجتی رہی – اب میرے لیے بہت مشکل تھا کہ میرے پاس اس کے گھر کا کوئی پتہ نہیں تھا سوائے اس کے محلے کے نام کے –
میں اس کے محلے کی بس پہ سوار ہو کر اس کی محلے میں پہنچ کر ایک سٹاپ پہ اتر گیا اور راستے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا کہ"" کیا آپ یہاں کسی ایسے پاکستانی کو جانتے ہیں جس کی بیوی سویڈش ہے اور ان کے ہاں دو ماہ کا ایک بچی بھی ہے "
آخر پندرہ بیس لوگوں سے پوچھنے کے بعد ایک۔ عورت نے بتایا کہ ہاں وہ فلاں۔ نمبر کی بلڈنگ میں رہتے ہیں(عرفان کا پتہ ایک عورت ہی بتا سکتی تھی چاہے وہ دوجی عورت ہی کیوں نہ ہو) جب میں نے اس کی دروازے پہ لگی بیل بجائی تو کوئی جواب نہ آیا –
میں بلڈنگ کے باہر پڑے ایک بینچ پہ بیٹھ گیا اور اس کا انتظار کرنے لگا – کچھ دیر بعد بلڈنگ سے ایک عورت آئی اور پوچھنے لگی
"تم یہاں کیوں بیٹھے ہو " میں نے اسے بتایا کہ میرا پاکستانی دوست یہاں رہتا ہے مگر وہ گھر میں نہیں ہے " اس نے کہا " وہ تو اج گھر سے ہی نہیں نکلے ابھی ابھی میں نے ان کی بچی کی رونے کی آواز بھی سنی ہے – بعد میں پتہ چلا نہ صرف ان کے فون کی بیل خراب تھی ان کے گھر کی بیل بھی خراب تھی
پاکستان سے عرفان ملک کو ایک سویڈش عورت سویڈن لائی تھی پھر اس کو ایک دوجی عورت۔ ملی جس کے ساتھ یہ امریکہ چلا گیا
عرفاُن ملک کی پنجابی شاعری کی پہلی کتاب
"وچ جگراتے سُتی تانگے "
دوسری پنجابی۔ شاعری کی کتاب
" اکتھ"
تیسری پنجابی شاعری کی کتاب
" نون غُناں "
چوتھی سویڈش افسانوں کا اردو ترجمہ
" گھونگھے"
پانچویں سویڈش شاعر یوستہ فری بیری کی شاعری کی کا اردو ترجمہ
" ودھداہویا گھر" شائع ہو چکی ہی اور اب چھٹی پنجابی شاعری کی کتاب
" دوجی عورت " شائع ہوئی ہے
عرفان ملک نے اس کتاب کی شاعری میں بتایا ہے کہ ہر عورت دوجی عورت ہوتی ہے کہ ہر عورت کے اندر ایک اور عورت بیٹھی ہوتی ہے – عرفان نے اس کتاب میں عورت اور مرد کے ریلشن شپ کے جو مختلف شیڈ ہیں اس کو اپنی شاعری سے بہت خوبصورتی۔ سے بیان کیا پے
کل دوستوں نے عرفان ملک اور اس کے کتاب " دوجی عورت " کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا تھا
سائیں سچا نے عرفان ملک سے اپنی دوستی کے حوالے سے اور اس کی شاعری کے حوالے سے بہت خوبصورت گفتگو کی
میرا خیال ہے باسط میر نے اس کی کتاب کی روح کو بہت گہری نظر سے دیکھا ہے۔ – باسط میر نے سارتر کے فلسفہ " وجودی " کے پس منظر میں پرکھا ہے کہ ہونے میں جو نہ ہونا ہے وہ اس کتاب کی شاعری کا مرکزی نقطہ نگاہ ہے – عرفان ملک نے بعد میں اپنی چاروں کتابوں سے منتخب کلام سنایا
میں تمام دوستوں کا مشکور ہوں کہ وہ کہ انہوں نے اس تقریب میں شرکت کی
میں اپنے دوست اجمل بٹ کا بہت بہت مشکور ہوں اس کے بغیر یہ خوبصورت نشست کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا
———————–
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154718757448390