بزنس کے سلسلے میں مجھے کبھی کبھار لندن یاترا بھی کرنی پڑتی ہے اور لندن جیسے پرتعیش اور مہنگے شہر میں میرے بِزنس ٹِرپ کا دورانیہ عموماً مختصر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے صبح و شام بڑے مصروف گزرتے ہیں۔ تفریح و تاریخی اور علمی مقامات کی سیر کے لیے وقت نکالنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیے بےپناہ مصروفیات کے دوران فرصت کے کچھ لمحات نکال ہی لوں۔
ایسی ہی ایک یاترا کے دوران اتوار کا دن تھا اور شام کو ہماری ایک بزنس میٹنگ طے تھی۔ صبح ناشتے کے وقت مجھے خیال آیا کہ دوپہر تک تو ہم فارغ ہیں تو کیوں نا لندن کے کسی میوزیم کی ہی سیر کر آئیں۔ لندن میں 170 سے زائد میوزیم ہیں جن میں پانچ سے زیادہ میوزیم صرف "نیچرل ہسٹری" سے متعلق ہیں۔ وقت کی تنگی کے پیشِ نظر ہم لندن کے تمام نیچرل ہسٹری میوزیم تو نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے ہم نے فوری طور پر لندن شہر کے سب سے بڑے اور سب سے قدیم میوزیم "نیچرل ہسٹری میوزیم لندن" جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ تصویر لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ہی ہے۔ یہ میوزیم 1881 میں قائم ہوا۔ جس مقام پر یہ میوزیم موجود ہے اس کا نام South Kensington اسٹریٹ ہے۔ یہاں پر دو اور مشہور میوزیم بھی ہیں جو "سائنس میوزیم" اور "وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس تصویر میں آپ کو میری پشت پر جو دو بڑے پرندے بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں ان کو "ڈوڈو" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ پرندے اب دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں اور اس وقت کہیں بھی نہیں پائے جاتے۔ ڈوڈو کے معدوم ہونے کہ کہانی بہت دردناک ہے۔ ڈوڈو پرندے ماریشیس اور اس کے ملحقہ جزیروں ری یونین اور روڈ ریگس میں پائے جاتے تھے۔ ان جزیروں پر کسی بھی قسم کی کیمیاوی خرابیاں نہیں تھیں اور نہ ہی یہاں پر حشرات الارض اور رینگنے والے جانور موجود تھے، اس لیے ان پرندوں کو اپنی نسل کی بقاء کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔ خوش قسمتی سے ان جزیروں کی آب و ہوا بھی گرم اور مرطوب تھی۔ سردیوں کے مہینوں میں کافی حد تک گرم اور موسمِ گرما میں بہت گرم نہیں رہتی تھی، لہٰذا ڈوڈو سارا سال نہایت اطمینان سے اپنی زندگی کا وقت گزارتے تھے۔ ڈوڈو پرندے ان جزیروں کی زمینوں پہ بلا خوف و خطر گھومتے رہتے تھے۔ یہ جوڑوں کی شکل میں رہتے تھے۔ ایک وقت میں ایک انڈا دیتے تھے۔ ان کا گھونسلا عام طور پر زمین پر ہی بنا ہوا ہوتا تھا جو مٹی کی کیچڑ، درختوں کی شاخوں اور پتّوں کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔ ڈوڈو اپنے انڈوں کو سات ہفتوں تک سہتا تھا اور سہنے کے اس عمل میں نر اور مادہ دونوں برابر کے حصے دار ہوتے تھے۔ انہیں اپنے انڈوں کی حفاظت کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے یہ جہاں چاہتے تھے انڈے دے دیا کرتے تھے، حتیٰ کہ ان کے انڈے جزیرے کے کُھلے میدانوں میں بکھرے ہوئے پائے جاتے تھے اور ان انڈوں میں سے مقررہ وقت پر چوزے نکل کر بلا خوف و خطر جزیروں میں پھرتے رہتے تھے۔ ان جزیروں میں سترھویں صدی تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔ کہنے کو تو "ڈوڈو"، پرندوں کی ہی نسل سے تھے لیکن ان میں اُڑنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی تھی اور نہ ہی یہ تیرنا اور تیز دوڑنا جانتے تھے۔ تیز نہ چلنے کی وجہ ان کی جسمانی ساخت تھی جس میں ان کا حد سے زیادہ بڑھا ہوا پیٹ شامل تھا۔ ان تمام حالات میں ڈوڈو کا قدرتی دشمن کوئی تھا ہی نہیں۔ یہ اپنے اردگرد کے ماحول میں رچ بس گئے تھے، انہیں اپنے ماحول سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ ڈوڈو بنیادی طور پر ایک پُرامن پرندہ تھا جس کی غذا پودوں اور دیگر نباتاتی جڑی بوٹیوں پر مشتمل تھی۔ یہ غذا ڈوڈو بغیر کسی مشکل کہ وافر مقدار میں اپنے ارد گرد کے ماحول سے باآسانی حاصل کر لیا کرتا تھا۔ کیونکہ انسانی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے ماریشیس کے وہ جزیرے مختلف پودوں اور دوسرے قدرتی نباتات سے بھرے پڑے تھے۔
حتمی طور پر یہ کہنا کہ ڈوڈو پرندہ ان جزیروں میں کتنے عرصے سے پُرسکون طور پر رہتا چلا آرہا تھا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے لیکن معلوم تاریخ میں اس پرندے کا پہلی بار ذکر سن 1598 میں اُس وقت ہوا جب ولندیزی ملاح اس جزیرے پر اترے تھے۔ ولندیزی ایڈمرل کے ریکارڈ کی بدولت یہ پرندہ دنیا کی نظروں میں آیا۔ یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ڈوڈو کا نام ان کو پرتگالی جہاز رانوں نے دیا تھا جس کے معنی "بیوقوف" کے ہیں۔
ڈوڈو کی معدومیت میں اوّلین کردار انسانوں کا ہے۔ کیونکہ جب انسان ماریشیس کے جزیروں تک پہنچے تو اپنے ساتھ لائے گئے دیگر جانور اور بطور غذا گوشت کی مزید ضرورت پوری کرنے کے لیے انہوں نے بےدریغ ڈوڈو پرندوں کا شکار کرنا شروع کر دیا تھا۔ جہاز رانوں کے لیے یہ بہترین غذائی ذریعہ بن گئے۔ تین عدد ڈوڈو کا گوشت پورے جہاز کے عملے کے لیے ایک وقت کے کھانے کے طور پر کافی ہوتا تھا اور اگر کئی درجن ڈوڈو کو مار کے ان کا گوشت نمک لگا کر محفوظ کر لیا جاتا تھا تو وہ پورے سفر کے لیے کافی ہوا کرتا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ڈوڈو کو ایک پتھر یا چَھڑی کی مدد سے مارا جا سکتا تھا اور اس دوران وہ اپنی مضبوط چونچ کے باوجود اپنے دفاع کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا تھا اور نہ ہی بھاگنے کی تگ و دو کرتا تھا۔ ملاحوں کے ساتھ ان جزائر پہ چوہے، بلیاں، بندر، کُتے اور سؤر بھی آئے جو نہ صرف ڈوڈو کے انڈے کھا جاتے تھے بلکہ ان کے چوزوں کو بھی مار دیتے تھے۔ اس طرح یہ تمام جانور بھی بلاواسطہ طور پر ڈوڈو کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سو سال سے بھی کم عرصے میں ان جزائر پر ایک ڈوڈو بھی نہیں بچ سکا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آخری ڈوڈو پرندہ اٹھارویں صدی کے اوائل میں ہلاک ہوا۔
جب جہاز ران اس غیرمعمولی اور بظاہر طاقتور نظر آنے والے پرندے کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے تھے تو وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کر پاتا تھا، یہ خوفزدہ ہو کر خوراک بھی چھوڑ دیتا تھا اور آخرکار مر جاتا تھا۔ تاریخی حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب ان پرندوں کو ان کے آبائی جزیروں سے فرانس لے جانے کی کوشش کی گئی تو ان کی آنکھوں سے باقاعدہ آنسو جاری ہو گئے کہ جیسے ان کو یقین ہو گیا ہو کہ اب یہ اپنی جنم بھومی پر کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ لیکن حیران کُن طور پر 1637 میں کسی نہ کسی طرح ایک ڈوڈو کو ماریشیس کے جزائر سے زندہ سلامت انگلستان لایا گیا۔ ایک عرصے تک انگلستان میں اُس زندہ "ڈوڈو" کی نمائش کر کے خوب پیسہ بھی کمایا گیا۔ جب وہ ڈوڈو مر گیا تو پھر اس کو حنوط کر کے لندن کے ایک میوزیم میں رکھوا دیا گیا۔ وہ حنوط شدہ ڈوڈو آج بھی لندن کے آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم میں موجود ہے۔ سن 2002 میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اس ڈوڈو میں سے DNA بھی حاصل کر لیا تھا اور آخرکار ایک طویل تحقیق کے بعد 2016 میں سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ اب ہم اُس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں کہ DNA کی مدد سے تخلیق کیا ہوا زندہ ڈوڈو دیکھ پائیں۔
کیمبرج سسٹم کے تحت پڑھے ہوئے ہر طالبعلم نے "ایلیس ان ونڈر لینڈ" کہانی ضرور پڑھی ہو گی۔ اس کہانی کے لکھاری لوئس کیرل تھے جن کا اصلی نام Charles Lutwidge Dodgson تھا۔ وہ انگریزی زبان کے مصنف تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، منطق دان، پادری اور عکاس بھی تھے۔
انہوں نے اپنی مشہور کتاب ایلس ان ونڈرلینڈ میں نہ صرف ڈوڈو کا ذکر کیا بلکہ اس کا کیریکیچر بھی شائع کیا ہے۔
حیرت انگیز طور پر "ایلس ان ونڈر لینڈ" میں شامل ڈوڈو کے کیریکچر سے کوئی دوسوسال پہلے برصغیر پر حکمراں مغل دور کے بادشاہ نورالدین جہانگیر کے دور کی ایک رنگین پینٹنگ میں بھی دوسرے پرندوں کے ساتھ ساتھ "ڈوڈو" کی ایک واضح تصویر نظر آتی ہے۔
1612ء میں مغل شہنشاہ جہانگیر سے پرتگیزیوں نے ایک معاہدہ کیا۔ اُس معاہدے کے بعد جب پرتگالی شاہی سفیر واپس ہُوا تو اپنے ساتھ دوسرے عجائبات کے علاوہ بہت سے پرندے بھی لایا تھا۔ ان میں سے ایک پرندے کے متعلق جہانگیر اپنی کتاب "تُزکِ جہانگیری" میں لکھتا ہے کہ
"اس نے اس سے پہلے ایسا پرندہ نہیں دیکھا تھا"
غالب گمان یہی ہے کہ یہ بات انہوں نے ڈوڈو کے بارے میں ہی لکھی ہو گی۔
مغل شہنشاہ فنِ مصوری کے بہت بڑے قدر دان تھے۔ ان کے درباروں سے فنِ مصوری کی صنف سے وابستہ کئی عظیم فنکار اپنے اپنے عہد کے ماہر استاد کہلائے۔ جہانگیر کے عہد حکومت میں ہندوستانی مصوری کو بہت زیادہ عروج حاصل ہوا۔ ابوالحسن منصور، بشن داس اور فرخ بیگ اس عہد کے بہترین مصور تھے۔ ڈوڈو کی تصویر استاد منصور کی کاوش کا نتیجہ تھی۔
انسان نے ڈوڈو سمیت زندگی کی ان گنت انواع کو فنا اور قدرتی ماحول کے تنوع کو تباہ کر کے ماحولیاتی توازن کو درہم برہم کر دیا ہے۔ آج فطرت انتقام لے رہی ہے۔ وہ وائرس اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے انسان کو فنا کرنے کے درپے ہے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ تنوع اور رنگا رنگی سے ہی زندگی ہے۔
“