یہ جولائی 2012ء کی بات ہے۔ جماعت الدعوۃ کے امیر جناب حافظ سعید نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ ’’وی آئی پی کلچر‘‘ کے خلاف تھا۔ حافظ صاحب نے عدالت کے سامنے وی آئی پی کلچر کی کئی مثالیں پیش کیں۔ گورنر پنجاب کا محل 68 ایکڑ پر محیط ہے۔ کمشنر اور دیگر ا ہلکار سو سو ایکڑ کے محلات میں بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ ’’انہیں پانچ پانچ مرلے کے گھروں میں رکھو اور نوکروں‘ خدمت گاروں کے لشکر ختم کرو‘‘۔ حافظ صاحب کے وکیل نے کہا: ’’حافظ صاحب نے فریاد کی کہ پاکستان کے حکمران گھوڑوں کے لیے ائیرکنڈیشنڈ اصطبل تیار کراتے ہیں۔ صدر مملکت کے سٹاف کے روزانہ اخراجات دس لاکھ روپے ہیں۔ بارہ لاکھ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ہیں۔ بیس لاکھ روزانہ سینیٹ کے ہیں۔ چالیس لاکھ روزانہ نیشنل اسمبلی کے ہیں اور بیس کروڑ روزانہ کیبنٹ سیکرٹریٹ کے ہیں۔ جب کہ 75 سالہ لطیف خان گزشتہ تیس سالوں سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پرانے کاغذ چن کر دو وقت کی روٹی کھا رہا ہے‘‘۔
حافظ صاحب کے وکیل نے اور بھی کئی مثالیں دیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس مقدمے کا کیا بنا؟ لیکن حافظ صاحب نے اپنے دلائل میں ایک دلیل ایسی دی جس پر اگر غور کیا جائے تو ہمارے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’برطانوی وزیراعظم چار بیڈ روم کے ایک ایسے گھر میں رہتا ہے جو سترھویں صدی میں بنا تھا اور ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ جب سورج سلطنت برطانیہ پر غروب نہیں ہوتا تھا اُس وقت بھی اُس ملک کا چیف ایگزیکٹو چند
مرلوں کے اسی گھر میں رہتا تھا۔ یہ حقیقی معنوں میں اسلامی طرز ہے اور رسول اکرمؐ کی سنت پر عمل پیرا ہونے والی بات ہے‘‘۔ 13 جولائی 2013ء کے تمام اخبارات نے حافظ صاحب کے اس مقدمے کی خبر شائع کی اور لکھا… ’’درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی کہ وفاقی سیکرٹری قانون‘ سیکرٹری داخلہ‘ چیف سیکرٹری پنجاب‘ وزیراعظم‘ صدر مملکت اور دیگر تمام مدعا علیہ حضرات کو ہدایت کی جائے کہ وہ برطانوی اہلکاروں اور سرکاری عہدہ داروں کی قائم کردہ مثال کی پیروی کریں جو بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن پھر بھی یوں لگتا ہے کہ وہ سنتِ رسولؐ کی پیروی کر رہے ہیں‘‘۔
حافظ صاحب کے مقدمے کو یہیں چھوڑ کر اب ہم ایک مریض کا حال پوچھنے جاتے ہیں جسے ڈاکٹر نے دوا دی اور ساتھ ہی یہ ہدایت کی کہ صاف ستھرے کمرے میں رہنا ہے۔ بستر کی چادر ہر روز بدلنی ہے۔ ہر روز دُھلے ہوئے کپڑے پہننے ہیں۔ مرچ‘ چکنائی‘ گرم مصالحوں اور چربی والے گوشت سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔ مریض دوائی باقاعدگی سے لیتا رہا لیکن اس کے کمرے سے بُو آتی تھی اور کاکروچ‘ کھٹمل‘ چوہے ہر طرف دوڑتے پھرتے تھے۔ بستر کی چادر کبھی سفید تھی لیکن اب سیاہ تھی۔ مریض کے کپڑوں کو دیکھ کر ابکائی آتی تھی۔ رہا خوراک کا پرہیز تو یہ اللہ کا بندہ‘ صبح شام
بازار سے گندے تیل میں تلے ہوئے پکوڑے منگوا کر اُن پر چاٹ مصالحہ چھڑک چھڑک کر کھاتا تھا۔ چپل کباب‘ نہاری‘ مغز‘ حلوہ پوری اس کی روزانہ کی خوراک تھی۔ چند دنوں میں وہ لقمۂ اجل بن گیا۔ اب اُس کے لواحقین ڈاکٹر کی جان کے در پے ہیں کہ اس نے دوا غلط تجویز کی تھی!!
ہم جب جمہوریت کو بُرا بھلا کہتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے گناہوں کا بوجھ جمہوریت کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ بھارت نے 1951ء میں زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ ریاستیں‘ راجواڑے‘ شہزادے‘ راجے مہاراجے ختم کر دیے۔ بڑے بڑے نواب اپنے محلات میں ہوٹل کھولنے پر مجبور ہو گئے۔ زرعی زمین کی ملکیت کی تحدید کی گئی۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نشستیں اسمبلیوں میں آج تک چلی آ رہی ہیں۔ ہم نے بلوچستان میں ایک رتی کے برابر اصلاحات نہیں کیں۔
آج اکیسیویں صدی میں بگٹی سردار دن دیہاڑے سرداری نظام کا دفاع کرتے پھرتے ہیں اور جلتے انگاروں پر ملزموں کو چلا کر سچا یا جھوٹا قرار دینے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے قاتل کو ایک ہزار ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازم اپنی جائز ماہانہ تنخواہ سردار کی پرچی کے بغیر قومی خزانے سے نہیں لے سکتے۔ جو گیس کوئلہ معدنیات ریاست کی ملکیت ہیں ان کی رائلٹی مخصوص خاندان لے رہے ہیں۔ ہم نے چھیاسٹھ برسوں میں وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں ایک کالج‘ ایک یونیورسٹی نہیں بنائی‘ ایک کارخانہ نہیں لگایا۔ ٹیکس ملک میں صرف آٹھ فی صد آبادی دے رہی ہے۔ قاتل سیاست دانوں کے ڈیروں میں محفوظ بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے بیٹے بھتیجے بادشاہ بنے پھرتے ہیں۔ اللہ کے بندو! یہ سارے جرائم تو ہمارے ہیں۔ جمہوریت کا اس میں کیا قصور ہے؟ اگر یہ ساری خرابیاں جمہوریت میں ہوتیں تو برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ سنگاپور میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا۔ اور حافظ سعید جیسا کٹر مسلمان‘ جس نے پورے بھارت پر لرزہ طاری کیا ہوا ہے‘ برطانوی وزیراعظم اور برطانوی اہلکاروں کی مثالیں نہ دیتا!
اسلام ہمیشہ کے لیے ہے اور ہر زمانے میں قابلِ عمل ہے۔ اسی لیے اسلام نے دوسرے مذاہب کی طرح اپنے پیروکاروں کو ناقابلِ عمل غیر فطری احکام میں قید نہیں کیا۔ کسی مذہب نے گوشت اور انڈے حرام قرار دیے اور کسی نے اپنے مذہبی رہنمائوں کو شادی کرنے سے منع کردیا؟ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس نے بنیادی اصول بتائے اور پابندی صرف یہ لگائی کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو‘ کرو‘ ان بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ لباس کے معاملے میں ستر کا حکم دیا۔ اسلام کو معلوم تھا کہ الاسکا اور نیوزی لینڈ میں بھی مسلمان رہیں گے اور لباس وہاں کے موسم کے مطابق پہنیں گے۔ خوراک میں اس نے حرام حلال کی تخصیص کی اور پھر مقامی ثقافت کو آزادی دے دی۔ یہی طرزِ ہدایت حکمرانی کے اسلوب میں روا رکھا۔ بنیادی اصول بتا دیے‘ بیت المال پر حکمرانوں اور اہلکاروں کا حق نہیں۔ بڑھیا حکمران کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اقربا پروری نہیں ہوگی اور پھر لوگوں کی صوابدید اور زمانے کے تقاضوں پر چھوڑ دیا۔ شوریٰ کو پارلیمنٹ کہنے سے منع نہیں کیا۔
کتنی بڑی غلط فہمی ہے یہ کہنا کہ جمہوریت عوامی نمائندوں کو حقِ حکمرانی دیتی ہے۔ مسلمان عوامی نمائندے اللہ کی حاکمیت کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے کسی رکن کی مجال ہی نہیں کہ وہ اللہ کی حاکمیت کے آگے سر نہ جھکائے اور ایسی قانون سازی کرے جو اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلمان نہیں؟ آخر ہم میں سے ہر شخص اپنے آپ ہی کو دوسروں سے بہتر مسلمان کیوں سمجھتا ہے؟
اگر جاگیروں اور زمینداریوں نے یونہی قائم دائم رہنا ہے‘ اگر تعلیم عام نہیں ہونی‘ اگر قبائلی علاقوں میں سمگلروں اور خانوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے‘ اگر سرداری نظام تبدیل نہیں ہونا‘ اگر حکومت قانون کی نہیں‘ بلکہ سفارش ا ور اقربا پروری کی رہنی ہے تو پھر جمہوریت کے بجائے کوئی نظام بھی لے آیئے‘ نتیجہ وہی رہے گا!