اٹھارھویں ترمیم سے اور تو کچھ ہوا یا نہیں، ڈاکٹر چلا گیا!
ڈاکٹر گیارہ سال پہلے وطن واپس آیا تھا۔ اس کے پاس امریکہ کی بلند ترین ڈگریاں تھیں اور بہت بھاری تنخواہ چھوڑ کر لوٹا تھا۔ اسے یورپ میں ایک بڑے طبی ادارے کی سربراہی کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اس نے خاندان کی مخالفت کے باوجود سب کچھ تج دیا اور مفلوک الحال پاکستانی مریضوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار واپس آگیا۔ اسے دو طبّی اداروں نے مغرب میں اور ایک نے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت آجانے کا بلینک چیک دے دیا۔
پاکستان میں ان دنوں جمہوری حکومت تھی لیکن حالات حوصلہ فرسا تھے، ایک خاص شہر اور ایک خاص برادری مرکز میں چھائی ہوئی تھی۔ پھر مارشل لاء آگیا اورجنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ وہ ساعت تھی جب سیاست دانوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ڈاکٹر پرامید ہوگیا۔ جنرل مشرف کے پہلے تین سال نسبتاً بہتر تھے، لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے گریڈ سولہ سے نیچے کی بھرتی کے اختیارات واپس لے لئے۔ ڈاکٹر پر مایوسی چھاگئی، جمالی صاحب ایک لحاظ سے واضح اعلان کر رہے تھے کہ سیاسی مداخلت کے بغیر بھرتیاں اہل سیاست کو نہیں راس آتیں۔ ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسے ملک میں جو پیچھے کی جانب جا رہا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل روشن نہیں دیکھ رہا۔ اس لئے واپس جا رہا ہے لیکن کچھ دوستوں کی ضد کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیئے اگلے چھ سال اس نے شدید ذہنی کشمکش میں گزارے۔ وہ حساس طبیعت رکھتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے پاس بہترین نعم البدل تھے۔ وہ کہتا تھا کہ ملک پر تین افراد حکومت کر رہے ہیں۔ جنرل مشرف، جنرل حامد جاوید اور طارق عزیز۔ اور تین افراد… نابغہ بھی ہوں، افلاطون کو بھی مات دیں، تب بھی ان کی ذہانت ملک کو بچانے کیلئے ناکافی ہوتی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ جسٹس افتخار چوہدری نصف درجن جرنیلوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے اور ملک میں تحریک چل نکلی۔ 2008ء کے الیکشن میں قاف لیگ ہاری تو ڈاکٹر کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ بار بار اپنے اہل خانہ کو کہتا تھا کہ دیکھا…میں نہ کہتا تھا کہ صبح ضرور آئے گی۔ صبح آگئی ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔
اٹھارھویں ترمیم پاس ہوئی، میں رات پھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر خبریں، تبصرے، تجزیے اور تاثرات سنتا رہا اور دیکھتا رہا۔ دوسرے دن دوپہر کے وقت بیٹا کہیں جا رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے ڈاکٹر انکل کے گھر اتارتا جائے۔ میں پورچ ہی میں تھا کہ ڈاکٹر کا چھوٹا بیٹا۔ اصغر۔ جو۔ او۔لیول میں داخل ہوا ہے، ناچتا پھدکتا اندر سے نکلا۔ وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ’’یار! میں تو اب نیویارک میں پڑھوں گا۔ آخر ابّو نے فیصلہ کر ہی لیا واپس جانے کا۔‘‘
مجھے تعجب ہوا۔ ڈاکٹر نے اتنا بڑا فیصلہ مجھے بتائے بغیر کرلیا؟ میں اس کا ایسا دوست تھا جس سے مشورہ کئے بغیر وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ میں اندر گیا تو وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ کا رخ میری طرف کردیا کلِک سے تحریر سامنے آگئی۔ جس بڑے طبی ادارے نے اسے کسی بھی وقت واپس آجانے کی پیشکش کی ہوئی تھی، اس تحریر میں اسی کو مخاطب کیا گیاتھا اور بتایا گیاتھا کہ ڈاکٹر چند ہفتوں کے اندر اندر نیویارک پہنچ کر چارج سنبھال لے گا۔
میں نے اسے وہ سارے وعدے یاد دلائے جو اس نے اپنے آپ سے وطن کے ضمن میں کئے تھے۔ مفلوک الحال مریض، اس شعبے میں ملک کو اس کی اشد ضرورت اور…اور بھی بہت کچھ۔ لیکن اس کے چہرے پر پڑی گہری پرچھائیاں زیادہ گہری ہوتی گئیں۔ خاموشی کا طویل وقفہ کمرے پر حکمران رہا۔ اور پھر وہ آہستہ آہستہ گویا ہوا۔
’’تمہیں پتہ ہے کہ سولہویں صدی کے نصف آخر میں کوٹ اس طرح سیے جاتے تھے کہ ضرورت پڑنے پر الٹ دیئے جائیں اور اندرکا حصہ باہر اور باہر کا اندر آجائے۔ ان دنوں مغربی ملکوں میں سیاست دان پارٹی بدلتے وقت کوٹ الٹ دیتے تھے اور پارٹی کا نشان جو سینے پر لگا ہوتا تھا، اندر کی طرف ہو جاتا تھا اور نظر نہیں آتاتھا یہاں سے ٹرن کوٹ (TURN-COAT)کی اصطلاح وضع ہوئی یعنی وہ جو اپنی پارٹی کی پیٹھ میں چھُرا گھونپ کر مخالف سے جا ملے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء کا نام آئین سے نکالنے اور نعرے مارنے والے وہی ہیں جو جنرل ضیاء کی وردی استری کیا کرتے تھے۔ کیا ٹرن کوٹ کی اصطلاح ان سے زیادہ کسی پر سجتی ہے؟اس ملک کے لوگوں نے کیا کیا نہیں دیکھا اور ان پر کون سا ظلم ہے جو نہیں ہوا۔ نیپال کا چالیس سالہ پشکارشاہ سائیکل پر ایک سو پچاس ملکوں میں گیا اور گیارہ سالوں میں اس نے کیا نہیںکھایا؟ کیمرون میں ہاتھی کا گوشت سوئٹزرلینڈ میں گھوڑے کا گوشت، جنوبی کوریا میں کتے کا گوشت، گنی بسائو میں بندر کا گوشت اور بوٹسوانہ میں کیڑوں کا پلائو! لیکن پاکستان کے مظلوم لوگوں نے فوجی آمروں اور لوٹا سیاست دانوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ مکروہ دھوکے کھائے۔ میں اس ملک میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ کیا میں اپنے بچوں سے دشمنی کرسکتا ہوں۔ کیا اس سے زیادہ ظالمانہ مذاق کسی قوم کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ جسے جعلی ڈگری کے جرم میں اسمبلی سے فارغ کر رہی ہے۔ اسے وزیراعظم مشیر بنانے کو تیار ہیں اور پارٹی، الیکشن کا ٹکٹ دے رہی ہے! کیا اس ملک میں اس سے زیادہ ذہنی افلاس آسکتا ہے !
ملک کو ایک سو نہیں کئی سو میل پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار میں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات لازمی قراردیئے گئے تھے۔ سیاست دانوں نے اس کو نکال کر عوام کی پیٹھ میں زہر میں بجھا ہوا چاقو گھونپا ہے۔کیا اس سے زیادہ بُرا مذاق بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موروثی سربراہی پر مُہر تصدیق ثبت کرنے والے رضا ربانی صاحب ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ اب نون لیگ پر شریف خاندان، قاف لیگ پر چوہدری خاندان، اے این پی پر اسفند یار ولی کا خانوادہ، پیپلز پارٹی پر بھٹو شاہی اور جے یو آئی پر مفتی محمو د کا گھرانہ ہمیشہ قابض رہے گا اور فرحت اللہ بابر، اعتزاز احسن، احسن اقبال اور خواجہ آصف جیسے لوگ صرف کارکن رہیں گے۔ میں اس ملک میں اپنے بچوں کو کس منہ سے رکھوں جس میں سینکڑوں کی اسمبلی میں صرف تین سیاست دانوں نے اس جمہوریت دشمنی کے خلاف آواز اٹھائی۔ جاوید ہاشمی، سعد رفیق اورکشمالہ طارق اور جاوید ہاشمی اور سعد رفیق سے ’’پارٹی لائن‘‘ کے خلاف چلنے پر جواب طلبی بھی ہو گئی۔ جس ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندر بدترین آمریت کو جمہوریت کے نام پر سرسبز و شاداب رکھا جائے، اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ میری اولاد میں سے کوئی ری پبلکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر تو بن جائے گا لیکن پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کی صدارت کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘