پیدائشی نام اس کا ’’لاج رے منڈ‘‘ تھا۔ قلمی نام بہت سے تھے لیکن جس نام سے وہ دنیا میں مشہور ہوا‘ ہَیڈ لے چیز تھا۔ جیمز ہیڈلے چیز۔ اس کے پچاس ناول ایسے تھے جن پر فلمیں بنائی گئیں۔ 1906ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ باپ ہندوستانی فوج میں حیوانات کا ڈاکٹر تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہیڈلے چیز امریکہ کبھی نہیں رہا۔ صرف دو بار چند ایام کے لیے گیا۔ مگر شکاگو کی زیر زمین جرائم کی دنیا پر اس کے ناول شہرۂ آفاق ہوئے۔ اُس نے نقشوں کی مدد سے ایک ایک شہر کے حصے سمجھے اور امریکیوں کی مخصوص مقامی زبان
(Slang)
کے لغات دیکھے۔ لندن کی جرائم کی دنیا پر اس نے ایک اور قلمی نام سے لکھا۔ جن دنوں اس کالم نگار کو ہیڈلے چیز کے ناول پڑھنے کا خبط ایک مرض کی طرح لاحق ہوا‘ راولپنڈی کی آرمی لائبریری میں اس کے ناولوں کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ (آج کی صورت حال معلوم نہیں)۔ باقی کسر پرانی کتابوں کی دکانوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوری کی۔ یارِ دیرینہ عارف منصور مرحوم نے ڈانٹا کہ وقت اور صلاحیت دونوں ضائع کرنے پر تُلے ہو۔ عارف منصور کی یاد آئے تو دل میں کسک اٹھتی ہے۔ اتنا ذہین اور خوبصورت انگریزی لکھنے والا بیوروکریٹ شاید ہی اس ملک کو پھر نصیب ہو۔ پرائیویٹائزیشن ڈویژن میں وفاقی سیکرٹری تھا جب بیگم کے ہمراہ عمرہ کے لیے گیا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے حادثہ ہوا اور دونوں میاں بیوی نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ عارف منصور کے والد شفیع منصور معروف ماہرِ تعلیم تھے۔ جن دنوں دارالحکومت میں محب عارفی کے ہاں ہر ویک اینڈ پر شعرا جمع ہوتے تھے شفیع منصور باقاعدگی سے آتے تھے۔ ان کا یہ شعر ہر شاعر کی زبان پر تھا ؎
ہے مرا اپنا ارادہ بھی سفر کا منصورؔ
ورنہ یاروں کو بہت دور نہ جانے دیتا
ہم ہیڈلے چیز کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس کے ناولوں میں واقعات اس سرعت سے رونما ہوتے ہیں کہ دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ مرکزی خیال یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کا گروہ راتوں رات امیر بننے کے لیے سب کچھ کر گزرتا ہے۔ قتل کرنا تو معمولی بات ہے۔ مگر آخر میں مجرم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایک انہی میں سے راز فاش کر دیتا ہے۔ اکثر ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔
جو کچھ ایگزیکٹ گروپ کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے‘ اُس سے ہیڈلے چیز یاد آیا۔ اس کے ناولوں کے پلاٹ ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا مگر جرائم کی دنیا سے مجرموں کے انجام سے کس نے سبق سیکھا ہے؟ ہر جرم کرنے والا فرد اور گروہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ بچ جائے گا۔ مگر فطرت کا قانون ہے کہ سازش کیسی ہی چالاکی سے کیوں نہ کی گئی ہو اور جرم کیسی ہی رازداری سے سرزد کیوں نہ ہوا ہو‘ کسی نہ کسی طرح‘ کہیں نہ کہیں گرہ کھل جاتی ہے۔ گمان یہ ہے کہ اس کمپنی کے معاملے میں بھی کسی گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی ہے۔
سورہ مجادلہ کی ایک آیت پر غور کیا جائے تو پردہ داریوں کے اور سازشوں کے اور چھپ کر جرائم کرنے کے اور تدبیریں بُننے کے اور ترکیبیں ڈھالنے کے سارے اسرار کھل جاتے ہیں۔
’’تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے‘ جہاں بھی وہ ہوں‘‘۔
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کے درمیان تعلقات ایسا رُخ اختیار کریں گے کہ گفتنی چھوڑ کر‘ ناگفتنی بھی سامنے آ جائے گا۔ ان کی بیگم کو زرداری صاحب نے ملک کے تیسرے بڑے منصب پر بٹھا دیا۔ قرضے معاف ہوئے۔ اُن کی سپیکر شپ کا عرصہ اس بدبخت ننگی بھوکی قوم کو کتنے میں پڑا؟ کبھی سارے اعداد و شمار سامنے آئیں تو حیرت سے زبانیں گنگ اور ذہن مائوف ہو جائیں۔ اب سارے ایک دوسرے کے راز کھول رہے ہیں۔ یہ جیمز ہیڈلے چیز کا جیتا جاگتا لائیو ناول ہے جس کے صفحے ہمارے سامنے پلٹے جا رہے ہیں۔ دیکھیے‘ کہانی کے آخر میں کیا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ جرم کو جرم نہیں سمجھا جاتا اور لوٹ مار کو معمول کی کارروائی گردانا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے جیل کا پانی پیا نہ جیل کی گرمی برداشت کر سکیں گے۔ کوئی پوچھے کہ آپ کیا کسی جنگِ آزادی کی پاداش میں جیل گئے تھے؟ یا حکومتِ وقت کے خلاف کوئی تقریر کی تھی؟ کیا آپ بھگت سنگھ یا جعفر تھانیسری تھے؟
جرم کبھی نہیں چھپتا۔ کوئی مسعود محمود سامنے آ جاتا ہے۔ کوئی ذوالفقار مرزا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ کوئی صولت مرزا راز اُگل دیتا ہے۔ یہی کچھ ایک دن ماڈل ٹائون سانحہ کے ضمن میں بھی ہوگا۔ اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ ؎
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے
مگر یاد رہے کہ جہاں چار جمع ہوتے ہیں وہاں پانچواں ہوتا ہے اور جہاں پانچ ہوتے ہیں وہاں چھٹا موجود ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ پانچواں اور چھٹا نظر نہیں آ رہا ہوتا! یہی بھول ایگزیکٹ والوں سے ہوئی۔ یہی بھول سب سے ہوتی ہے۔ اقتدار کے عروج پر‘ حیرت ہے‘ سب سے زیادہ بے خبر وہی ہوتا ہے جو سب سے بلند بیٹھا ہوا ہے۔ کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ ہر شے پرفیکٹ اور اپنی جگہ پر انتہائی مناسب لگتی ہے ؎
مری آنکھوں پہ بھی زرتار پردے جھولتے ہیں
ترے بالوں میں بھی کچھ اِن دنوں ریشم بہت ہے
مگر افسوس! بہت جلد پردے ہٹ جاتے ہیں اور ریشم جیسے بال برگد کی جٹائوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
کل ایک صاحب ایگزیکٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر اس انداز میں دفاع کر رہے تھے کہ ہنسی آ رہی تھی اور رونا بھی! ایک زمانہ تھا کہ ان صاحب کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ مگر اب ان کی ہنڈیا سے کچی سبزی کے علاوہ کچھ نہیں نکل رہا تھا۔ سب سے اہم ’’دلیل‘‘ بار بار یہ دے رہے تھے کہ کمپنی میں سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کام کر رہے ہیں! آج کی خبر یہ ہے کہ پانچ سو ڈالر کے عوض کتے کو بھی ایم بی اے کی ڈگری دے دی گئی۔ اس کی بنیاد امتحان نہ تھا بلکہ محض سی وی تھا جو کتے کا بھیجا گیا تھا۔
یوں بھی انسانیت پر وہ زوال آیا ہے کہ کتے کا کردار نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نصیحت بھی کسی کتے ہی نے اپنے بچے کو کی تھی کہ بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا۔
چند برس قبل جب ایک امریکی صدر بھارت کے دورے پر آیا تو ایک ایک سراغ رساں کتے کو فائیو سٹار ہوٹل کے الگ الگ کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ ایک کمپنی کو ٹائپسٹ کی ضرورت تھی۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیا۔ امیدواروں میں ایک کتا بھی حاضر ہوا۔ اسے ٹائپ کرنے کے لیے ایک لکھا ہوا کاغذ دیا گیا۔ اس نے کاغذ منہ میں دبایا‘ کرسی پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور بالکل درست ٹائپ کر کے پیش کردیا۔ امتحان لینے والے نے کہا کہ یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہمیں ایسا ٹائپسٹ درکار ہے جو کم از کم دو زبانیں جانتا ہو۔ اس پر کتے نے… میائوں کی آواز نکالی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“