یہ دو تصویریں کافی ہیں۔
قوموں کے حا ل کو سمجھنے اور مستقبل کو جاننے کے لیے ہزاروں صفحات کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ سالہاسال مشاہدہ کرنے کی۔ گہری تحقیق کے بعد حُمَقَاء اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جس پر مجذوب ایک نظر ڈال کر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ لطیفہ نما واقعہ خاصا پامال ہو چکا ہے ۔ سمندر کے کنارے ساحل کی نرم آسودہ ریت پر ایک چینی آنکھیں بند کیے مزے سے لیٹا تھا اور جانفزا ہوا کے جھکوروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ ایک امریکی یہودی وہاں سے گزرا ۔ اسے افسوس ہوا کہ افیون زدہ چینی سونا سی عمر اور موتی سا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس کی پسلی کو پائوں سے ٹھوکر ماری اور کہا اُٹھو‘ بے وقوف‘ کچھ کام کرو۔ وقت ضائع کیوں کر رہے ہو۔ چینی نے نیم واآنکھوں سے اسے دیکھا اور پوچھا‘ کیا کروں؟
’’یہ اتنی کشتیاں لانچیں اور سٹیمر کھڑے ہیں۔ ان میں کام تلاش کرو۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’تمہاری شہرت اچھے کارکن کی ہو جائے گی‘ تنخواہ بڑھے گی امیر ہو جائو گے۔
’’پھر؟‘‘
’’پھر تم اپنی ایک لانچ خرید لینا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کئی لانچیں لے لینا‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر تم بہت سے بحری جہازوں کے مالک ہو جائو گے۔ ارب پتی بن جائو گے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر ساحل کی ریت پر لیٹ کر مزے کرنا۔‘‘
چینی نے احمق امریکی یہودی پر نگاہ افسوس ڈالی اور آہستہ سے کہا ؛’’بے وقوف! وہی تو میں اب کر رہا ہوں!‘‘
یہ دو تصویریں وہی کچھ بتا رہی ہیں جو ورلڈ بینک کی ہزارہا صفحوں کی رپورٹیں ‘ آئی ایم ایف کے ضخیم جائزے اور پلاننگ کمیشن میں گھومتی ہوئی قیمتی کرسیوں پر بیٹھے فُٹ فُٹ لمبے سگار پیتے ‘ مراعات گزیدہ‘ منجمد دماغوں والے متکّبر ‘ برخو د غلط‘ ملک کی زمینی حقیقتوں سے یکسر ناواقف بیورو کریٹ درجنوں بیرون ملک دوروں کے بعد غلط انگریزی میں لکھے گئے ٹور نوٹس
(Tour Notes)
کی شکل میں پیش کرتے ہیں!
پہلی تصویر کراچی کی ہے۔ ایک معروف سیاسی پارٹی کے نوجوان سربراہ صوفے پر تشریف فرما ہیں۔ ساتھ میز پر ملک اور پارٹی کے جھنڈے لگے ہیں۔ نوجوان سربراہ کے ساتھ صوفے کے دوسرے کنارے پر پارٹی کی معروف رہنما‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون بیٹھی ہیں۔ سامنے والے صوفے پر ایک مذہبی روحانی شخصیت تشریف فرما ہیں۔ سر پر دستار ہے۔ ریش مبارک خضاب سے سیاہ ہیں۔ یوں لگتا ہے شلوار قمیض کے بجائے انہوں نے لمبی قبا زیب تن کر رکھی ہے۔ نمایاں ترین چیز تصویر میں یہ ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ‘ ایک دوسرے میں پیوست‘ ان کی گود میں رکھے ہیں اور نظریں نوجوان رہنما پر ہیں نہ خاتون سیاست دان پر۔ ان کی نظریں جھکی ہوئی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سامنے پڑی میز کو دیکھ رہے ہیں۔ خاتون سیاست دان‘ اِس شخصیت کو جس انداز سے دیکھ رہی ہیں‘ اُس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ سب کچھ‘ اور بہت کچھ جانتی اور سمجھتی ہیں۔ نوجوان سربراہ کے چہرے پر معصومیت ہے‘ کچھ کچھ شائبہ حیرت کا ہے!نوجوان سربراہ کو‘ جو نووارد ہے اور معصوم بھی‘ ایک مختصر سی بریفنگ ملاقات سے پہلے ضرور دی گئی ہو گی مگر تفصیلات سے اور لہروں
(Currents)
سے اور سمندر کے اندر چھپی ہوئی لہروں
( Under Currents)
سے وہ یقینا آگاہ نہ ہو گا۔ اسے حج کے سکینڈل کی ساری تفصیلات کا شاید ہی علم ہو۔ غالباً اسے باریک تفصیلات میں دلچسپی بھی نہ ہو۔ اسے کیا علم کہ پارٹی سربراہی کے دوران عام سیاست دانوں سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے تو سیاست میں آنے والے مذہبی روحانی حضرات سے نمٹنا از حد مشکل ہوتا ہے۔ ایسے ایسے پُر پیچ وخم طُرّے ہیں کہ بڑے بڑے پارٹی رہنما ان میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ایسی ایسی اجلی عبائیں ہیں کہ نظافت کی روشن آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔
یہ روحانی مذہبی شخصیت اپنی ہی پارٹی کے عہد حکومت میں داخلِ زنداں رہی ۔ ڈیڑھ سال بعد ضمانت ہوئی۔ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ جب تک ان کی پارٹی کے وزیر اعظم اقتدار میں ہیں‘ وہ جیل میں رہیں گے۔ بلٹ پروف کاروں کے مالک اور ’’ایم بی بی ایس‘‘ کرنے والے بچ گئے اور حضرت پھنس گئے۔ مولانا کوثر نیازی تو حیات نہیں‘ عقل مند ہوتے تو مذہب کے نام پر سیاست کرنے کا فن سیکھنے کے لیے ڈی آئی خان جا کر زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔
مگر قومیں وہی فلاح پاتی ہیں جن کی مذہبی اور روحانی قیادتیں اقتدار کے در پر نہیں جھکتیں۔ بلکہ یہ ان کے حکمران ہوتے ہیں جو علماء ‘ صوفیا اور سکالرز کے آستانوں پر حاضری دیتے ہیں ؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
جب عوام کی اخلاقی تربیت کرنے والے خود اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو جائیں تو عوام اُنہی کو منتخب کرتے ہیں جن میں اخلاق ہوتا ہے نہ دیانت۔ پھر عوام کی اکثریت محلات پر اعتراض کرتی ہے نہ اُن اربوں کھربوں پر جو سوئٹزر لینڈ سے لے کر اوقیانوس پارتک اور لندن سے لے کر جدہ تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
دوسری تصویر میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم دارالحکومت میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ یہ اجلاس خارجہ پالیسی کے بارے میں نہیں‘ نہ ملک کی صنعتی یا زرعی پالیسی کے متعلق ہے۔ اس کا موضوع ملک کا ناقص تعلیمی نظام ہے نہ ہر سال تباہی پھیلانے والے سیلابوں سے بچائو کا طریقہ! یہ اجلاس لاہور ایئر پورٹ کی توسیع کے بارے میں ہے!
روس کے شہر اوفا میں ’’شنگھائی تعاون کونسل‘‘ کے سربراہ اجلاس سے واپس آ کر وزیر اعظم نے فوراً لاہور ایئر پورٹ کی توسیع کے متعلق اس اجلاس کی صدارت کی۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم اوفا سے سیدھے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد پہنچے۔ ترکمانستان کی حکومت سے مذاکرات کے بعد مودی بشکیک گئے اور کرغزستان اور بھارت کے درمیان چار معاہدوں پر دستخط کئے۔ ان چار میں سے ایک معاہدہ دفاعی امور سے متعلق تھا ۔ اب بھارت اور کرغزستان مشترکہ جنگی مشقیں سرانجام دیں گے۔ بشکیک سے مودی‘ منزلوں پر منزلیں مارتے تاجکستان پہنچے۔ تاجکستان کے اندر‘ افغانستان کی سرحد پر‘ بھارت ایک عظیم الشان ہسپتال تعمیر کر رہا ہے جو عوامی مقبولیت حاصل کرنے کا راستہ ثابت ہو گا۔ اوفا جانے سے پہلے مودی قازقستان گئے جہاں بھارت اور قازقستان کے درمیان اس موقع پر پانچ معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ یہ معاہدے دفاع‘ ریلوے‘ یورینیم سپلائی اور کھیلوں کے شعبوں میں ہوئے ۔ بحیرہ کیسپین کے کنارے تیل کی کھدائی اب بھارتی کمپنیاں کریں گی۔2017ء میں ایک بہت بڑی عالمی نمائش قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہو رہی ہے ۔ بھارت اس میں اگلی صفوں میں ہو گا۔ آنے والے پانچ برسوں کے دوران بھارت‘ قازقستان کی چھ بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ طلبہ کے تبادلے کرے گا۔ یہ قازق طلبہ‘ جو بھارت میں تعلیم حاصل کریں گے‘ اپنے ملک میں واپس جا کر‘ بھارت کے بے دام سفیر ثابت ہوں گے!
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اُن معاملات کی‘ جو مودی نے وسط ایشیائی ریاستوں میں طے کیے۔ کیا تاثرات ہیں اور کیا کمنٹس ہیں ہماری وزارت خارجہ کے ان معاملات پر اور ان معاہدوں پر؟
اس کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اوفا سے وزیر اعظم واپس آتے ہیں اور لاہور ایئر پورٹ کے توسیعی منصوبے کے اجلاس کی صدارت بنفس نفیس کرتے ہیں؟ کیا یہ اس بلند ترین سطح کا کام تھا؟ یا یہ کام شہری ہوا بازی کی وزارت کے وزیر کی لیول کا تھا؟ اگر ایک پہلے سے تعمیر شدہ اور کام کرتے ہوئے ہوائی اڈے کی محض توسیع کے لیے وزیر اعظم کا قیمتی وقت درکار ہے تو اہم ترین امور کا کیا ہو گا؟
آپ کا کیا خیال ہے اگر یہ توسیع پشاور‘ یا کراچی یا کوئٹہ کے ہوائی اڈے کی ہوتی تو تب بھی وزیر اعظم اس حد تک ذاتی دلچسپی لیتے؟ اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ‘ جو فتح جنگ روڈ پر بن رہا ہے‘2007ء میں شروع ہوا۔ آٹھ سال ہو گئے ہیں، ابھی تک مستقبل قریب میں اس کی تکمیل کے کوئی آثار کسی افق پر نظر نہیں آ رہے! ہمارے واجب الاحترام وزیر اعظم ذہنی طور پر اپنے شہر سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں! کیا قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت کے سربراہ کا سب سے زیادہ وقت کہاں گزرا ہے؟ اور کیا سارے شہر ان کی نظرِ التفات سے برابر کا حصہ پا رہے ہیں؟
تصویریں تو اور بھی ہیں! سیلاب زدہ ڈوبتے عوام پر احسان جتانے والی تصویریں جن میں اعلان کیے جا رہے ہیں کہ ہم تو طبی معائنہ چھوڑ کر تمہاری خدمت کے لیے واپس آ گئے! ع
ہم پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
اس کے بجائے سیلاب روکنے کے لیے چند دیواریں ‘ چند ڈیم‘ چند جھیلیں ہی بن جاتیں تو عوام واقعتاً احسان مند ہوتے! رہا طبی معائنہ! تو کاش ہمارا غیر ترقی یافتہ‘ پس ماندہ ملک‘ کبھی اس قابل ہو جائے کہ حکمران طبی معائنہ یہیں کرائیں‘ تعطیلات یہیں گزاریں‘ اپارٹمنٹ اور محلات صرف یہیں بنوائیں اور اپنے بچوں کی شادیاں اسی دھرتی پر کریں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔