کیمسٹری کا اہم ترین ری ایکشن ہیبر بوش ری ایکشن ہے۔ ہیبر اور بوش، دونوں نے اس پر الگ الگ نوبل انعام جیتے۔ اگرچہ ری ایکشن میں دونوں کا نام اکٹھا ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے۔ یہ کہانی ان کی صلح کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی سائنس میں دنیا بھر سے آگے رہا تھا لیکن پہلی جنگِ عظیم میں 1918 کو شکست کھا گیا۔ جرمن کیمیادانوں نے خوراک کے عالمی بحران کا اہم ترین حل کھاد بنانے کی ٹیکنالوجی کے ذریعے نکالا تھا لیکن جنگ میں شکست کی ایک وجہ خوراک اور کھاد کی کمی تھی کیونکہ یہ امونیا ہتھیار بنانے میں استعمال ہو رہی تھی۔ خون بہنا رک گیا، لیکن فاتحین نے بدلہ لینا تھا۔ اور ہر طرح سے لینا تھا۔ جرمن سائنسدان بھی زیرِعتاب آئے۔ ورساں میں “امن معاہدہ” ہوا۔ جنگ بندی کے اس معاہدے کی شرائط نے ہٹلر کے عروج اور دوسری جنگِ عظیم کی بنیاد رکھی۔
ہیبر کی قسمت میں جنگی مجرم بننا، ملک سے بھیس بدل کر فرار ہو جانا، نوبل انعام جیتا لکھا تھا (ان کی کہانی نیچے لنک میں)۔ بوش کی قسمت بھی کچھ دلچسپ رہی۔ بوش پہلا کارخانہ لگا چکے تھے (کہانی نیچے لنک میں)۔ فرانس نے جنگ بندی کے مطالبے میں امونیا بنانے کے کارخانے کی انسپکشن کا حق مانگا۔ اس بہانے کہ کہیں جرمنی دوبارہ ہتھیار تو نہیں بنا رہا لیکن اصل مقصد ٹیکنالوجی چرانا تھا۔ بوش کو یہ کھیل کھیلنا آتا تھا۔ جب انسپکٹر آتے تو کبھی کوئی مشین “خراب” ہو جاتی، سیڑھی “گم” ہو جاتی۔ چیزیں “غائب” ہو جاتیں۔ بوش نے انسپکٹرز کو آنے سے کبھی نہیں روکا لیکن ان کا ہر دورہ ناکام رہا۔
ورساں کے امن معاہدے میں ہرجانے کی شرائط کی وجہ سے جرمنی کی معیشت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ وہ مزید ہرجانہ ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ فرانس نے اس کے بدلے بوش کے پلانٹس پر قبضہ کر لیا۔ بوش نے مشینوں کو ہی بند کر دیا۔ فرانس نے بوش کو مجرم قرار دے کر غیرحاضری میں آٹھ سال کی قید کی سزا سنا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوش کی عالمی برادری میں عزت کا اندازہ اس سے ہوا کہ انہیں 1931 میں کیمسٹری کا نوبل انعام مل گیا۔ بوش کا اگلا کام مائع کوئلے کو ایندھن کے طور پر ممکن کرنا تھا۔ ہٹلر جرمنی کے نئے حکمران بن چکے تھے۔ حکومت کے دباوٗ کے باوجود انہوں نے اپنی فیکٹری سے یہودی ملازمین نکالنے سے انکار کیا۔ دوسری طرف ان کی فیکٹریوں نے نازی فوج کے ایک چوتھائی ایندھن کو ممکن بنایا۔ ان کو نازی فوج کے لئے ایندھن کا بڑا کنٹریکٹ مل گیا۔ دنیا کو جنگِ عظیم مل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ہیبر جو قوم پرست جرمن تھے اور جرمن حکومتی ادارے کے سربراہ تھے، ان کو اپریل 1933 کو تمام یہودیوں کو اداروں سے ملازمت سے برخواست کرنا پڑا۔ جرمنی کا اس سے پہلے تک سائنس میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہٹلر کے مطابق، “اگر یہودی کیمسٹری اور فزکس کے لئے ضروری ہیں، تو ہمیں کیمسٹری اور فزکس کے کوئی ضرورت نہیں”۔ ہیبر نے چند ہفتوں کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ “میں کسی شخص کو اس کی صلاحیت اور کردار کی بنیاد پر ملازمت دیتا ہوں نہ کی اس بنیاد پر کہ اس کی نانی کون ہے”۔ یہ ان کے استعفی میں لکھے گئے خط کا فقرہ تھا۔ اپنے آپ کو جرمنی کے لئے وقف کر دینے والے سائنسدان کو جرمنی نے باہر نکال دیا۔ شکستہ دل ہیبر سوئٹزرلینڈ پہنچ گئے۔ ان کی پیٹھ پر آخری چھرا نازی حکومت نے ان کی تمام جائیداد ضبط کر کے گھونپا۔
نوبل انعام یافتہ اور ہٹلر کے آگے کھڑے ہونے کے باوجود کیمیائی ہتھیار بنانے کے دھبے کا مطلب یہ نکلا کہ ان کو کوئی ملازمت دینے کو تیار نہ تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی نے ان کو بغیر معاوضے کے لیکچر دینے کی اجازت دی لیکن جب ہیبر وہاں پہنچے تو عظیم سائنسدان رتھرفورڈ نے ان سے ہاتھ ملانے سے بھی انکار کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوس اور الگ رہ جانے والے ہیبر نے ایک آخری کوشش بوش کے ساتھ صلح کرنے کی صورت میں کی اور ان کو خط لکھا۔ لیکن بوش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہیبر نے برطانیہ سے فلسطین جانے کا ارادہ کیا لیکن راستے میں ہی دل بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ ان کو اپنی اس بیوی کے ساتھ ہی دفن کیا گیا جس نے ہیبر کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیبر کی پہلی برسی کا انتظام میکس پلانک نے نازی حکومت کی دھمکی کے باوجود کیا۔ چند لوگ ہی اس میں شریک تھے۔ پلانک خالی کرسیوں کو دیکھ رہے تھے۔ جرمن قوم کو ہتھیار اور دنیا کو روٹی دینے والے سائنسدان کی برسی پر کوئی نہیں آیا تھا۔ پلانک اس کو دیکھ کر افسردہ تھے۔ وقت گزر رہا تھا۔
پھر یکایک ہی لوگوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ بوش بے اے ایس ایف کے تمام ملازمین کو لے کر پہنچ گئے تھے۔ ہیبر بوش ری ایکشن کرنے والے دونوں سائنسدانوں کی صلح ایک کے مرنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔ بوش نے اس برسی پر ہیبر کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگِ عظیم میں بوش کی فیکٹریاں بمباری کا نشانہ بنیں۔ اس جنگ کے دوران ہی بوش کا انتقال ہوا۔ مرنے سے قبل ان کے الفاظ تھے، “میں اچھا مستقبل نہیں دیکھ رہا۔ میری عمر بھر کی محنت تباہ ہو جائے گی”۔ بوش کا اندازہ غلط تھا۔ ہیبر اور بوش کا یہ کام کس قدر کامیاب ہو گا۔ اس کا اندازہ ان دونوں کو اپنی زندگی میں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اگر اس کہانی میں اگر ہیرو یا ولن ڈھونڈ رہے ہیں اور نہیں مل رہے تو وجہ یہ کہ اصل دنیا کی کہانیاں بس ایسے ہی ہوتی ہیں۔ اس لئے عام کہانیوں یا فلموں کی طرح دلچسپ نہیں ہوتیں۔