کسی معاملے کو حساس کہہ کر اس سے کتنا صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ کوڑا کرکٹ قالین سے ڈھانپ دیا جائے تو کب تک ڈھکا رہ سکتا ہے؟ ادب و احترام کا بہانہ بنا کر لوگوں کو واشگاف رائے دینے سے کب تک باز رکھا جا سکتا ہے؟ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن ایک محدود مدت کے لیے! وقت خاموش رہنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔
مولانا فضل اللہ، مسلم خان، بیت اللہ محسود اور اس قسم کے دیگر حضرات نے ایک مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد صرف دو امکانات تھے۔ پہلا یہ کہ وہ واقعی اس مخصوص مکتبِ فکر کے نمائندہ تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ نمائندہ نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے نمائندہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کس نے کرنا تھا؟
یہ تھا وہ موڑ جہاں علماء کرام کی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ اس مخصوص مکتبِ فکر کے ثقہ اور مسلمہ علماء کرام کا فرض تھا کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے اور بتاتے کہ ہاں! یہ حضرات درست کہہ رہے ہیں یہ واقعی ہمارے مکتبِ فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، ہمارا مسلک اس کی تائید کرتا ہے۔ یا یہ وضاحت کرتے کہ نہیں، ان لوگوں کا ہمارے مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ تو کیا علماء کرام نے اس معاملے میں رہنمائی کی؟ جواب نفی میں ہے!
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان علماء کرام نے اس مسئلے پر بحث ہی نہیں کی لیکن جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا ہے کہ کوڑا کرکٹ قالین کے نیچے زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا، بالآخر سچ خود اسی مکتبِ فکر کے ہاں سے ظاہر ہونا شروع ہو رہا ہے۔ پہلے تو سعودی عرب کے ایک ایسے اخبار نے علماء کرام کی ناکامی کا اعتراف کیا جو سعودی عرب کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ سعودی عرب کی حکومت اور علماء کرام کا اسی مکتبِ فکر سے تعلق ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں۔ اخبار نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میںانتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانی علماء اس ضمن میں کچھ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ جو آواز بلند کرتے ہیں اور طالبان پر تنقید کرتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں۔ کچھ موقع پرست ہیں اور طالبان کے جرائم پر خاموش رہتے ہیں۔ تیسرے گروہ نے عافیت کو چنا ہے اور سکوت اختیار کیا ہے۔
اس مکتب فکر کے ایک معروف عالم دین مولانا طاہر اشرفی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تکفیری حضرات ہمارے (یعنی ہمارے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے) نوجوانوں کے مائنڈ سیٹ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس کا سبب مولانا اشرفی بتاتے ہیں… ’’مسئلہ یہ ہے کہ علماء نے نوجوانوں کو ان تاریک راہوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ان کی سوچ کو متاثر کیا۔‘‘
تاریخ میں ایسا بھی کم ہی ہوا ہوگا کہ ایک پورے کا پورا مکتب فکر ایک انتہائی اہم موقع پر خاموش ہو گیا ہو۔ تائید نہ تردید، تعریف نہ تنقید نہ تنقیص! کچھ بھی تو نہیں! حافظؔ شیرازی نے کہا تھا ؎
مشکلِ خویش برِ پیر فُغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معّما می کرد
دیدمش خُرم و خَندان، قَدح بادہ بدست
وندران آئینہ صد گونہ تماشا می کرد
گفتم این جامِ جہان بین بتو کی داد‘ حکیم
گفت آن روز کہ این گنبد مینا می کرد
(ترجمہ)میں کل اپنی مشکل پیرِ مغاں کے حضور لے گیا اس لیے کہ وہ اپنی نظروں ہی سے گتھی سلجھا دیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ خوش و خرم، ہاتھ میں ساغر پکڑے ہے۔ ساغر کیا تھا بس ایک آئینہ تھا اور پیرِ مغاں اس میں سو طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ جامِ جہاں نما تجھے کب ملا، کہنے لگا، اس روز جب یہ گنبدِ مینا بنایا جا رہا تھا!
لیکن آج کوئی پیرِ مغاں نہیں جس کے پاس کوئی اپنی مشکل لے جائے اور اگر کوئی دعویٰ کرتا بھی ہے تو اس کے پاس جامِ جہاں نما نہیں ہے!
جب مولانا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں نے سکول تباہ کرنے شروع کیے اور تشدّد کو اپنا نشان قرار دیا تو لازم تھا کہ اس مسلک کے علماء کرام کھل کر سامنے آتے اور سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے۔ پھر معاملہ اور آگے بڑھا اور انہوں نے ایک ایسے شخص کی میت قبر سے باہر نکال کر چوراہے پر لٹکا دی جو لوگوں کی بڑی تعداد کے نزدیک محترم تھا! یہ ایک ایسی وحشیانہ حرکت تھی جس کی اسلام اجازت دیتا تھا نہ مقامی ثقافت لیکن اس پر بھی علماء کرام خاموش رہے پھر معاملہ مزید آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ مزاروں پر دھماکے ہوئے اور لاتعداد بے گناہ مسلمان شہید کر دیے گئے۔
تو پھر کیا علماء کرام ان تمام پُرتشدد کارروائیوں کی حمایت کر رہے تھے؟ خاموشی نیم رضا۔ شاید وہ حمایت کر رہے تھے، وگرنہ وہ اختلاف کرتے۔ علماء کرام بہادر ہیں اور جری۔ وہ بے خوفی سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر وہ خاموش رہے تو غالباً اس لیے کہ وہ ان تمام کارروائیوں کے حامی تھے! اس نکتے کی وضاحت ایک اور مثال سے ہوتی ہے۔ سوات میں کچھ عرصہ قبل مولانا صوفی محمد نے ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ ضرور شریک تھے۔ انہوں نے مجمع سے ہاتھ اٹھا کر حلف لیا کہ ہر شخص سیاہ رنگ کی دستار پہنا کرے گا۔ یہ ایک ایسی پابندی تھی جو اسلام کی پوری تاریخ میں کسی عالمِ دین نے مسلمانوں پر عائد نہیں کی! ایسی پابندی عہدِ رسالت میں لگائی گئی نہ خلفاء راشدین کے عہد میں۔ لیکن پورے ملک میں مولانا صوفی محمد کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء میں سے کسی نے اس اقدام کی مخالفت کی نہ ہی شرعی حوالے سے کوئی وضاحت پیش کی۔ مولانا صوفی محمد کوئی گمنام یا بے بضاعت شخصیت نہیں تھے۔ تو کیا علماء کرام اس حلف کی حمایت کر رہے تھے؟
تشدّد کی کارروائیاں دن بدن زیادہ ہو رہی ہیں۔ وہی مخصوص مکتبِ فکر ہے جو ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔ یہی کچھ کوئٹہ میں ہوا ہے۔ کیا اب بھی اس مکتبِ فکر کے علماء کرام ان گروہوں کی حمایت یا ان سے لاتعلقی کا واضح اعلان نہیں کریں گے؟