ایران میں کون رہتا ہے؟
ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔
انگلستان میں کون رہتا ہے؟
انگلستان میں انگریزی قوم رہتی ہے۔
فرانس میں کون رہتا ہے؟
فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔
یہ کون سا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہو گی؟
نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی۔
اس میں سندھی قوم رہتی ہے۔
اس میں پنجابی قوم رہتی ہے۔
اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔
اس میں یہ قوم رہتی ہے۔
اس میں وہ قوم رہتی ہے۔
لیکن۔ پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں!
سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں!
بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں!
پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا تھا؟
“غلطی ہو گئی۔ معاف کر دیجئے۔ آئندہ نہیں بنائیں گے۔ ”
چلیے جناب چھٹی ہوئی، جناب ابن انشاء تو معافی مانگ پڑے جا کھڑے ہوئے۔ آئندہ کی توبہ ہو گئی اور جو بھی قومیں یہاں رہتی تھیں وہ پچھلے پاپوں کا پرائسچت کرنے میں لگ گئیں۔ بنگالیوں کو عقل آ گئی یا دلا دی گئی کہ قوم رسول ہاشمی بانگ درا سے ابھی باہر نہیں نکلی اس لیے اپنی زبان، تہذیب اور ورثے کو لو اور سندر بن میں اپنی بانسریا بجاؤ۔ ہم اپنا تان پورہ ادھر رکھ لیتے ہیں۔ بات میں اثر پیدا کرنے کے لیے ٹکا خان کو عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھانے کو کہا۔ تماشا تھوڑا بندھا تو پھر بندہ اور بندہ نواز دونوں ہی کام میں لگ گئے۔ ہولی کے وہ وہ رنگ بکھرے جو بنگال کی بارشیں بھی آج تک دھو نہ سکیں۔
پشتون، بلوچوں، کشمیریوں اور کوہستانیوں کا ذکر تو انشاء جی نے بھی نہیں کیا تھا تو باقی ہما شما نے بھی جرات نہ کی۔ شاید سوچا ہو کہ آپس میں خود ہی نمٹ نمٹا لیں گے، جو بچ گئے ان کا فیصلہ تب کی تب دیکھا جائے گا۔ سو کام جاری ہے۔ ایک صوبے میں بلوچ اور پشتون سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں۔ ایک میں ہزارہ اور پشتون۔ سندھی مہاجر لڑ لڑ کر بیحال ہوئے پڑے ہیں۔ سرائیکی اور پوٹھوہاری پنجابیوں سے شاکی ہیں۔ کشمیری پہلی دوسری اور تیسری آپشن کے بیچ گول گول گھومے جا رہے ہیں اور پی ٹی وی بتا رہا ہے کہ انڈیا میں آزادی کی چوبیس تحریکیں چل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس نسلی اور قبائلی تفرقے کا علاج ممکن ہے؟ جواب اتنا سادہ نہیں ہے لیکن تاریخ کا مطالعہ، ماضی قریب میں دنیا میں ہوئی واضح تبدیلیاں، یورپ کے بدلتے سیاسی لینڈ سکیپ اور ایشیا کی بنتے بگڑتے اتحاد ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ نئی اکائیوں کی تشکیل اور حقوق کی واضح اور منصفانہ تقسیم اس قضیے کو سلجھا نے کی طرف پہلا قدم ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے برا مسئلہ وہ ہے جو ہمارے خطے میں روز بروز الجھتا ہی چلا جا رہا ہے اور وہ ہے عقیدے کی بنیاد پر گروہی تشکیل جو اب عسکریت پسندی، تشدد اور خونریزی سے عبارت ہو چکی ہے اور حقیقتا جس سے نمٹنے کا کوئی راستہ فی الحال نظر نہیں آتا۔
اس تناور ہوتے درخت کے بیج بونے سے لے کر اب تک کا سفر کا ستر سالہ مشاہدہ ہمارے پاس ہے۔ ہم آج کہاں کھڑے ہیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کھینچا تانی کے اس دور میں قومی ہم آہنگی کے حوالے سے ہم نے صرف الٹا سفر کیا ہے۔ ایک پوری تاریخ سامنے ہے۔ پوٹلی میں زاد سفر سمجھ کر چلے تھے پر اندر سے پھنکارتے سانپوں کی پٹاریاں نکلی ہیں لیکن ہم ہیں کہ اب بھی خود فریبی کے آئینے میں اپنے گیسو سنوار رہے ہیں۔ اس میں کس کو کلام ہے کہ طالع آزماؤں نے اپنی سی کی ہے پر یہ میدان بنایا ہی ان کے لیے گیا تھا سو وہ کھیلے اور کھل کر کھیلے۔ ہم وہ احمق ٹھہرے جو اس بات کے منتظر چلے آ رہے ہیں کہ جامن کے درخت پر آم کا بور کب آئے گا۔
کون کہتا ہے کہ قوم نظریے سے بنتی ہے؟ دو قومی نظریے کا منتر جپنے والے اس ہجوم کو کیسے سمجھایا جائے کہ دو قومی نظریہ اگر کہیں تھا بھی تو 15 اگست 1947 کے بعد اس کی کوئی عقلی توجیہہ یا عملی انتظام ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ اقبال نے کبھی یہ بات کی ہی نہیں تھی اور یاد رہے کہ کابینہ مشن کی ناکامی تک جناح کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔ باقی رہ گئے مسلم لیگ کے کرتا دھرتا تو برکات حکومت غیر انگلشیہ میں ابن انشا ایک اور سچ بول گئے کہ ” آزادی سے پہلےہندو بنیے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے، ہماری خواہش تھی، کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنیے اور سیٹھ لوٹیں، الحمد اللہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی“ باقی کچھ لینڈ ریفارم وغیرہ کو دیکھ لیا جائے اور مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے شجرہ نسب پر ایک نظر غور سے ڈال لی جائے تو بات کی جو دو چار پرتیں رہ گئی ہیں وہ بھی اتر جائیں گی۔
عمرانیات کی کوئی بھی کتاب اٹھا لیں۔ یاد رہے کہ یہاں ع کے اوپر پیش ہے اور ابن صفی کی جملہ کتب اس زمرے سے باہر ہیں۔ ہاں تو حضور عمرانیات کی کتاب اٹھائیں اور ذرا قوم کی تعریف پر نظر ڈال لیں۔ پتہ لگے گا کہ قوم ایک ایسے گروہ کا نام ہے جس کی مشترکہ خصوصیات کا ایک طویل تاریخی تسلسل ہو۔ ان خصوصیات میں زبان، لباس، خوراک، تہواراور خدوخال کا ذکر تو ملے گا مگر مذہب کا نہیں۔ قومیت کی جامع تعریف میں قوم کے افراد کا آپس میں ابلاغ ایک انتہائی اہم جزو رہا ہے۔ یہاں مطمع نظر ایک علمی مقالہ تحریر کرنا نہیں ہے اس لیے میں عمرانی حوالوں سے گریز کر رہا ہوں پر یہ حوالے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ایڈورڈ کوہن، سوسن رینالڈز، ایڈریان ہیسٹنگز یا ابن خلدون کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ثابت ہو سکتا ہے اگر کوئی افادے کا قائل ہو تو۔
ہماری قومی تعمیر میں ایک خرابی مضمر رہی اور وہ مذہب کو وطنیت یا قومیت کی بنیاد سمجھنا تھا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ لیکن ہم اس طرف اشارہ کرنا بھی مناسب نہیں جانتے۔ ہمارا سارا زور انتظامی نااہلی پر ٹوٹتا ہے جو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے پر بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ جدید تاریخ میں اسرائیل اور پاکستان نظریاتی ممالک ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اسرائیل کا فلسفہ مختلف ہے۔ یہودیت اور بنی اسرائیل کا تعلق مذہبی اور قومی عصبیت کی ایک ایسی مثال ہے جسے کسی بھی اور خطے، مذہب اور قوم پر منطبق کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے اس موازنے کو یہاں چھوڑتے ہیں اور اپنی بات کرتے ہیں۔ کیا آج آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک چینی اسلام قبول کرنے سے پاکستانی بن جائے گا یا ہندو مت کا پیروکار بنتے ہی بھارتی کہلانے لگے گا۔ اور تو اور کیا ہندوستان میں مقیم بیس کروڑ مسلمان پاکستانی شہریت کے اہل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مذہب ایک انفرادی انتخاب ہے اور اس کا تعلق ذاتی عقائد سے ہے۔ اس کی بنیاد پر قومی تشکیل اس لیے خام رہے گی کہ عقائد کی کبھی کوئی آفاقی تعبیر ممکن نہیں ہے۔ ہر فرد اپنے طریق پر اور اپنے طرز زندگی کی بنیاد پر اپنی تعبیر بنائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کے اندر فرقہ در فرقہ در فرقہ نظر آئے گا۔ پھر اس فرقے کے اندر بھی لوگ متفق نہیں ہوں گے۔ دیوبندی مسلک میں وہ لوگ بھی ملیں گے جو داڑھی نہ رکھنے کو اور پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنے پر جہنم کی وعید دیں گے۔ وہ بھی ملیں گے جو طالبان اور القاعدہ کو اسلام دشمن گردانیں گے اور وہ بھی جو انہیں حق کا پیروکار۔ خودکش دھماکے کا جواز دینے والے بھی ملیں گے اور اسے حرام سمجھنے والے بھی۔ پردے کی پابندی کرنے والے بھی ملیں گے اور پردے کو غیر ضروری سمجھنے والے بھی۔ یہی اختلاف بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ فکری حلقوں میں نظر آئے گا۔ کمال یہ ہے کہ ہر شخص اپنی تعبیر کو درست جانے گا اور دوسرے کی تعبیر کو اس کے فہم کی غلطی سمجھے گا۔ یہی طرز عمل آپ کو ہر مذہب کے پیروکاروں میں نظر آئے گا۔ شدت پسند ہوں یا معتدل، دونوں اپنے نظریے کو ایک ہی ماخذ سے ثابت کرتے دکھائی دیں گے۔ اور صدیوں سے جاری اس بحث میں اتفاق ہونا عبث ہے۔
مذہب فرد سے ذاتی سطح پر مخاطب ہے اور اس کا کام فرد کے کردار کی تعمیر ہے نہ کہ ایک سیاسی، معاشی، قانونی یا معاشرتی نظام کی تشکیل۔ کوئی مذہب ضابطہ حیات ہونے کا دعوٰی نہیں کرتا، یہ ہماری اپنی ایجادات ہیں جو ہم مذاہب سے منسوب کر دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مذہب قوم یا وطن کی تشکیل کا مادہ نہیں ہے۔ اور جغرافیائی وحدت کا تو بالکل بھی نہیں۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ زکوۃ و صدقات کے احکامات فنانس بل کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ حدود کے احکامات کو بنیاد بنا کر 511 دفعات پر مشتمل تعزیرات پاکستان تحریر نہیں ہو سکتیں۔ اداروں کے قیام اور ان کے باہمی ربط کا ارتقا بھی کسی کتاب مقدس کا موضوع نہیں ہے۔
ہم نے دو قومی نظریے کو حرز جان سمجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا جس کی انتہا ہر مذہبی گروہ کو اپنی تعبیر کے حساب سے اپنے آپ کو حق اور بقیہ کو باطل سمجھنے پر منتج ہوئی۔ ہم نے ابلاغ اور مشترکہ ورثے کو موضوع نہیں بنایا اور مذہبی فلسفے کو ان پر مقدم جانا۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے اسی بنیاد پر اپنے دشمن تراشے اور اتنی اونچی دیواریں بنا ڈالیں کہ ہوا کا گذر بھی ممکن نہیں رہا۔ صدیوں کا تاریخی تسلسل ہم نے مذہبی سیاست اور عصبیت کی نذر کر ڈالا۔
ہندوستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ لاہور میں مال روڈ سے ایک جلسہ ” لے کے رہیں گے ہندوستان“ کے نعرے لگاتا گذر رہا تھا۔ ایک ذیلی سڑک پر دو جمعدار جھاڑو لگا رہے تھے۔ ایک کا نام جوزف تھا اور ایک کا البرٹ۔ البرٹ نے جوزف سے پوچھا ” یہ نعرے کس بات کے لگ رہے ہیں“
جوزف نے کوڑا اکٹھا کر کے ایک طرف کیا اور کہا ” کوئی خاص بات نہیں۔ یہ آزادی مانگ رہے ہیں اور ہم دے نہیں رہے“
بس ہمارا قومی ورثہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم مسلمان مسلمان کا نعرہ لگاتے کبھی سعودیہ سے ڈیپورٹ ہوتے ہیں تو کبھی افغانیوں کی گالیاں سنتے ہیں اور کبھی ایران کے شکوے۔ ہم کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کی شہریت کے قابل تو ہیں لیکن متحدہ عرب امارات، مصر اور شام میں ہم اچھوت ہیں۔ جن چینیوں سے ہم ایک جملے کا تبادلہ نہیں کر سکتے وہ ہمارے سب سے گہرے دوست ہیں اور جن کے ساتھ ہم بسنت منا سکتے ہیں، ٹپے گا سکتے ہیں، گھنٹوں گپیں مار سکتے ہیں وہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم ایک جسم ہیں۔ لیکن اس جسم کو اسی کا کینسر کھا رہا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کہیں دور پردیس میں کسی کو بات سمجھانی ہو تو ایک چینی، ایک سوڈانی، ایک ایرانی اور ایک ہندوستانی میں سے کس کو آپ کی بات سمجھ آئے گی۔ کیا اس جواب میں کوئی سبق ہے؟
پر یہ بات ہندوستان سے جا ملنے کی نہیں ہے۔ یہ بات بتانا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے زود فہم سوشل میڈیا جہادی اس استنباط پر فورا جا پہنچیں گے۔ یہ بات اس سوچ سے پیچھا چھڑانے کی ہے جو ہماری راہ کا اصل کوہ گراں ہے۔ دو قومی نظریہ یکجہتی کا نہیں، تقسیم کا نظریہ ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں گرچہ یہ حقیقت ہے نہیں کہ تقسیم ہند اسی نظریے کی مرہون منت تھی تو پھر کیا۔ ایک تقسیم ہو گئی تھی پر اس نظریے کو سینے سے لگا کر رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ پھر تقسیم در تقسیم در تقسیم ہی ہونی تھی کیونکہ اس کی رو سے عقائد کے فرق کا منطقی انجام ہر عقیدے کے لیے ایک جغرافیائی وحدت کا قیام بنتا تھا اور یہ بھی کہ عقائد کے سامنے مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو عقیدے کا فرق رکھتے ہیں وہ ایک ساتھ گزارا نہیں کر سکتے۔ سو پہلی ضرب اقلیتوں پر لگی۔ پھر ایک ہی مذہب کے نام لیوا خانوں میں بٹے پھر ان میں سے نئی اقلیتیں بنیں۔ پھر باقی بچنے والوں نے اپنے اپنے علم اٹھائے اور تکفیری جنگ چھڑ گئی۔ ہر عقیدے کا اب ایک قبیلہ ہے اور وہ اپنے میں ایک قوم ہے اور دو قومی نظریے کی رو سے ان کا ہر اختلاف معرکہ حق و باطل ہے۔ بنیاد میں کجی ہو تو سیدھی عمارت کیسے اٹھے۔
اب وقت ان پہنچا ہے کہ انسانی نظریے کو الہامی درجہ دینے سے گریز کر لیا جائے۔ قومی اکائیوں کی ازسر نو تشکیل کا سوال ہے۔ مذہب کو فرد کے حوالے کرنے کا اور ریاست کو سیکولر بنانے کا سوال ہے۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کی سچی پہچان کرنے کا سوال ہے۔ کچھ دیواریں اٹھانے کا سوال ہے، کچھ کو گرانے کا سوال ہے۔ سیلاب ہے اور بلا کا ہے۔ اب بھی بند نہ باندھا گیا تو شہر بھی جائے گا اور شہر کے مکین بھی۔