دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند :تقسیم در تقسیم کی نفسیات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دو قومی نظریے پر بحث جاری ہے، اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر اپنے ایک گزشتہ مضمون کے ذریعےشائع کر رہا ہوں، جن دوستوں کی جذباتی وابستگی کو ٹھیس پہنچے ان سے پیشگی معذرت کہ " میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند")
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان اور پاکستان میں نفرت کی بنیاد تقسیمِ ہند ہے۔ اور تقسیمِ ہند کی بنیاد دو قومی نظریہ۔ دو قومی نظریہ جس تاثر کے ساتھ عوام میں پھیلایا گیا ہم اس پر بات کر رہے ہیں۔
دو قومی نظریہ پیدا کرنے اور اس کو پروان چڑھانے کے لیے ہندو مسلم امتیازات کو خوب ہوا دی گئی۔ دونوں طرف کے چند انتہا پسندوں کی حرکتوں اور بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جیسے کہ اب بھی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں ۔ جب یہ فصل خوب پک گئی، تو اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مسلمانوں کو الگ ملک میں رہنا چاہیے ، لیکن صرف جنوب مغربی ہندکے مسلمانوں کو۔ اس خیال کو ہندوستان میں رہنے والی مسلم اقلیت میں پذیرائی حاصل ہوگئی، اور اس کے ساتھ مسلم لیگ کو بھی، جسے اس واضح مقصد کے تعین سے پہلے مسلمانوں میں پذیرائی مل نہیں پا رہی تھی۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی، جو اب پاکستان میں شامل ہیں، وہاں کے مسلم عوام کو وہ مسائل درپیش ہی نہ تھے، جو ہندوستان کی مسلم اقلیت کو درپیش تھے اور جن کی بنا پر یہ مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ یہاں برعکس معاملہ ہوسکتا تھا کہ ہندو اقلیت کو مسلم اکثریت سے خطرات لاحق ہو سکتے تھے، مگر ایسا بھی کچھ نہ تھا۔ یہ علاقے اس لحاظ سے پرسکون تھے، اور اسی وجہ سے سیاسی طور پر کم بیدار بھی۔ اور اسی وجہ سے مسلم لیگ کو آخر وقت تک ان علاقوں سے ووٹ حاصل کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ساری تگ و دو کرنے کے بعد بھی 1945-46 کے انتخابات مین مسلم لیگ کو بنگال اور سندھ سے تو مکمل حمایت ملی، البتہ پیجاب میں اسے کل مسلم سیٹوں کا 87.2 فیصد ملا، جب کہ کل مسلم ووٹ کا 67.3 فیصد مل سکا۔ جب کہ خیبر پختون خواہ نے مسلم لیگ کے خلاف ووٹ دیا اگرچہ مذہب کے نام پر سب سے زیادہ اسی صوبے سے ووٹ مانگے گئے تھے، بلوچستان تو ان انتخابات میں شامل ہی نہ تھا۔
مسلم لیگ کی کامیابی یہ تھی کہ وہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ ملک کی مکمل مصنوعی بھوک پیدا کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود بھی اسے اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ، البتہ، اس میں کانگریس کیا ناعاقبت اندیشی کا بڑا دخل تھا۔
دوسری طرف، جس مسلم اقلیت کو ہندو کے سیاسی ، سماجی اور مذھبی غلبے سے ڈرا کر ووٹ لیے گئے تھے ، یعنی ہندوستان کے ہندو اکثریت والے علاقوں کے مسلمان، ان کے لیے الگ ملک کا قیام ان کے مسائل کا حل تھا ہی نہیں، اس لیے کہ عملاً یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سب کے سب ہجرت کر کے پاکستان میں چلے آتے۔1920 کی تحریکِ ہجرت میں وہ یہ ناکام تجربہ پہلے کر بھی چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کو الگ مسلم ریاست کے نام پر سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں ان سے ہی ملیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ لوگ ووٹ نہ دیتے تو پاکستان بھی بن نہیں سکتا تھا۔
دو قومی نظریہ ایک ایسا لالی پاپ تھا، جسے ہر طبقے کو اس کے پسندیدہ ذائقے اور رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ ہندوستان کی مسلم اقلیت کو یہ بتایا گیا کہ الگ ملک ہوگا تو مسلمانوں کا مذھبی، اور ثقافتی تشخص محفوظ رہے گا ورنہ ہندوستان کی ہندو اکثریت میں ضم ہو کر کھو جائے گا۔ لیکن یہ پتا، مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کے ہاں نہیں چل سکتا تھا۔ چنانچہ، ان کو یہ بتایا گیا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد، جمہوریت کے نظام کی وجہ سے سیاست اور حکومت میں مسلمان اقلیت میں رہ جائیں ، یہاں کے لوگ بھی ہندو اکثریت کے دست نگر بن جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کا الگ ملک ہو تاکہ وہ اس میں آزادی سے حکومت کر سکیں گے۔
تیسری طرف، مذھبی طبقے کو ساتھ ملانے کے لیے انہیں بتایا گیا کہ یہ درحقیقت اسلامی ریاست کا قیام عمل لایا جا رہا ہے، جس سے خلافت کی کمی پوری کی جا سکے گی، اسلام نافذ ہوگا اور قرونِ اولی کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ علامہ اقبال جیسی بلند قامت شخصیت اور ان کے عظمتِ رفتہ کی بحالی کی فکر اور شاعری نے مسلم لیگ کے مدعا کو مذھب کو مقدس جامہ پہنا دیا۔ مذھب کو شامل کرتے ہی، پاکستان اب ایک نظریہ سے بلند ہو کر عقیدہ بن گیا، ' پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ' کا نعرہ اس فکر کا ترجمان بن کر مقبول ہوگیا، اب جس کی مخالفت، کفر اور گمراہی قرار پائی۔ مسلم لیگ میں شامل ہونے والی مذھبی شخصیات کو فوراً ہی اس نظریے کے حق میں دلائل کے ساتھ ساتھ، مطلوبہ خواب اور غیبی بشارتیں بھی آنے لگیں۔ وہ مسلم لیگ کی قیادت، کے مغربی لباس کو تو تبدیل نہ کروا سکے، لیکن عالمِ رویا میں انہوں نے ان کو سبز چغے پہنا دئیے۔ البتہ، مخالف دھڑوں کی دینی شخصیات کے مختلف یا مخالف خواب، الہام ، کشف اور فتوؤں کو انہوں نے نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ،حسبِ توقع وہ، قرآن سے بھی دو قومی نظریہ برآمد کر لائے۔
چوتھی طرف، لبرل، سیکولر اور غیر مسلم اقلیتوں کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ملائیت (Theocracy)نہیں ہوگی۔ تمام شہری بلا امتیازِ مذھب برابر ہوں گے۔ 'وقت سے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے ، اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہیں گے، مذھبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر '۔ چنانچہ یہ لبرل اور سیکولر طبقات بھی اس تحریک میں دامے درمے سخنے شامل ہو گئے۔
آج جو یہ سب طبقات دو قومی نظریے یا نظریہ پاکستان کی اتنی مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک کو جو ورژن بتایا گیا، وہ اسی کا راگ الاپ رہا ہے۔
بدقسمتی دیکھیے کہ جس وقت دنیا شعوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، فیڈریشن اور کنفیڈریشن کی طرف جا رہی تھی، ہندوستان کے رہنما انہیں تقسیم کا سبق پڑھا رہے تھے۔ امریکہ کی 50 ریاستوں نے 1775 میں ساتھ مل کر رہنے کا معاہدہ کیا اور پهر وہ دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک بن گئے ہیں۔ یورپ کے 28 ممالک نے مذھب اور مسلکی بنیادوں پر ہونے والی صدیوں کی طویل باہمی جنگوں سے سبق سیکھ کر یورپین یونین کی بنا ڈالی۔ اسی طرح دنیا کے دیگر سیاسی بالغ ممالک بھی باہمی تعاون سے رواداری سے رہنا سیکھ گئے، لیکن ہندوستان کے باشندے مذھب اور ثقافت کے نام پر ایک زمین، ایک تاریخ، ایک بڑی مشترکہ زبان (اردو اور ہندی)، ایک ادب ، ایک جیسے فنون لطیفہ کے وارث ہو کر بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔ ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ یکساں اور متخالف اقدار کا میزانیہ بنایا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری مشترکہ یکساں اقدار اتنی زیادہ ہیں کہ مختلف یا متضاد اقدار بے ضرر بلکہ اختلاف حسن کا باعث ہیں۔ مگر سیاست دانوں کے سیاسی مفادات اور تعصبات، فرقہ باز مولویوں کی طرح ہمیں اتفاق سے زیادہ اختلاف کے پہلو نمایاں کر کے دکھاتے ہے۔
پھر یہ تقسیم کی نفسیات کہ اگر دو لوگ ایک دوسرے سے مختلف فکر اور تہذیب کے حامل ہیں تو انہیں الگ بھی ہو جانا چاہیے، ہمیں مزید تقسیم کرتی چلی گئی۔ تقسیمِ ہند کی کامیابی نے تقسیم کی اس نفسیات کو تقویت دی۔ چنانچہ، ملک کے اندر ہم آپس میں یہ دیکھنے لگے ہم میں سے کون ہم سے مختلف ہے، اور پهر اسے خود سے الگ کرنے کے لیے اسے خود سے الگ سمجھنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پہلے مشرقی پاکستان کے لوگ ہم سے علیحدہ ہو گئے، محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ ہم سے مختلف رنگ، زبان اور تہذیب رکھتے تھے، اس لیے ان کا علیحدہ ہونا بھی ضروری تھا۔ در حقیقت، وہ علیحدہ نہیں ہوئے تھے، ہم نے انہیں علیحدہ کیا تھا۔ یہ سلسلہ پھر چل نکلا، چنانچہ، ہم نے اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسیحی برادری کو خود سے الگ سمجھ لیا، ان کی بستیاں الگ بسائیں، معاشرتی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا، بات بات پر ان پر توہینِ مذهب کے الزام لگا کر ان کو ایک خوف زدہ اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ ہم مسلسل ان کو الگ کئے جا رہے ہیں۔ اب دیکھیے وہ بھی کب ہم سے الگ ملک کا مطالبہ کر دیں، اور جب وہ یہ مطالبہ کریں گے، تو ہم ان پر الزام لگا دیں گے کہ وہ پاکستان کے وفادار نہیں، اس ملک کو تقسیم کر کے وہ غیرو ں کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ علیحدہ ہونے میں کامیاب ہو گئے تو ہم ان سے ہمیشہ کے لیے دشمنی پال لیں گے۔ یہ ہے وہ کہانی جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ہم نے زبانوں کے مختلف ہونے کی بنیاد پر الگ صوبے بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ کراچی جیسے شہر میں مختلف قومیتوں والوں کے الگ الگ علاقے بن گئے۔ حتی کہ ملک میں اہلِ تشیع کو بھی الگ محلّے بنا کر رہنا پڑا۔
جن فسادات سے بچنے کے لیے ہم نے الگ ملک بنا تها ان فسادات نے ہمارا پیچھا پھر بھی نہ چھوڑا۔ ہمیں ہندو نہ ملے تو ہم نے اپنے ملک کے لوگوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ حقیقت میں مسئلہ ادیان کا نہیں، انسان کا تھا۔ یہ انسان تھا جو لڑنا چاہتا تھا۔ وہ مذهب کو بنیاد بنا کر لڑا، جب یہ بنیاد نہ ملی تو مسلک کو بنیاد بنا کر لڑا، مزید ورائٹی کے لیے زبان اور جلد کے رنگ کے اختلاف کو بنیاد بنا کر لڑا۔ ہم کب تک اور کہاں تک علیحدہ ہو تے چلے جائیں گے۔ ہم جتنے بھی اپنے جیسوں کے ساتھ علیحدہ ہوں گے، وہ بھی بہرحال انسان ہی ہوں گے۔ ہم انسان سے تو علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ ہم اپنے اپنے یونٹوں میں بھی لڑنے کے لیے کوئی نہ کوئی اختلاف ڈھونڈ لیں گے۔ تو اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ علیحدہ ہونا اس کا حل نہیں، وہ حل نکال کر ہم بھگت چکے۔ اس کا حل انسان کو انسان بنانے میں ہے۔ اس کی تعلیمی اور شعوری تربیت کرنے میں ہے کہ وہ انسانوں کے ساتھ انسانوں کی طرح رہنا سیکھ لیے۔ یہی ایک حل ہے۔ تقسیم اس کا حل نہیں۔ تقسیم در تقسیم کی پهر کوئی حد نہیں۔
یہی بھارتی اور پاکستانی، ہیں جو باہر ممالک میں جب جاتے ہیں تو محض معاش کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ نہایت امن و سکون ، بلکہ بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ پیٹ کے راستے آنے والی عقل بڑی پختہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب بھارت اور پاکستان کے عوام میں ہونے نہیں دیا جاتا۔ اگر باہر ممالک میں ایک ساتھ رہنے اور کھانے پینے سے ان کا مذھب اور دھرم، خراب اور بھرشٹ نہیں ہوتا تو اپنے ملک میں کیوں ہو جاتا ہے؟ وہاں ان کی ثقافت کو ایک دوسرے سے خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو یہاں کیسے لاحق ہو جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطرات عوام کو نہیں ، سیاست دانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ جن کو مشترکہ حکومت میں اپنے ذاتی اقتدار کی آزادی نظر نہیں آتی اس لیے وہ تقسیم کو پسند کرتے ہیں تاکہ ایک الگ ٹکڑے میں بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ اس کے لیے نفرت کا پیدا کرنا اور نفرت کو قائم رکھنا ان کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ ان کا حال فرقہ باز مولویوں سے بالکل مختلف نہیں ہے۔
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے انہی علاقوں میں ہندو مسلم بڑے سکون سے رہاکرتے تھے، بڑا میل جول ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے مذاہب پر مزاح بھی کرتے تھے لیکن ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں معاشرتی طور پر شامل بھی ہوا کرتے تھے۔ پھر سیاست آئی اور اس نے اچانک بتایا کہ تمہارے ساتھ رہنے والا مذہب اور ثقافت کے لحاظ سے تم سے مختلف ہے، اس لیے یہ تمہارا دوست نہیں ہے، اسے خود سے اجنبی بناؤ۔ پھر یہی ہوا اور اجنبیت بڑھتی چلی گی۔ دو ملک بن گئے مگر اجنبیت کا سفر جاری رہا، پھر اسی نفسیات نے بنگلہ دیش بنوا دیا، لیکن اجنبیت کا سفر پھر بھی نہ رکا، اب ملک میں اپنے مسلک مشرب، سیاسی اور ثقافتی اختلافات رکھنےوالوں کو برداشت نہین کیا جا رہا۔ اب ملک کے بعض حصے الگ ملک تو نہ بن سکے مگر نو گو ایریاز بن گئے، علیحدگی کی نفسیات ہمیں اپنے جیسے انسانوں سے دور کرتی چلی جا رہی ہے۔
دونوں ملکوں کی عوام کو چاہیے کہ نفرت کے اس کھیل کو سمجھیں اور اپنے خرچے پر اپنی تباہی مت خریدیں۔ تقسیمِ ہند، تاریخ کا جبر تھا جو گیا۔ اب ہمارے مستقبل کا تحفظ اور فلاح، بالغ نظر ممالک کی طرح کنفیڈریشن بنا کر رہنے میں ہے۔ جہاں سرحدیں بس نام کی ہوں۔ ویزہ کی پابندی نہ ہو۔ جب ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ہوگا تو معلوم ہوگا کہ دونوں طرف عام انسان بستے ہیں، جو اسی طرح سکون سے رہنا چاہتے ہیں، جیسے ہم رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوگا کہ وہاں اور یہاں کا عام آدمی اس 'عام آدمی' سے بالکل مختلف ہے جو میڈیا کے کیمرے کی کانی آنکھ سے نظر آتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“