2014 کی شام کا ذکر ہے یہ دل جو بہکاتووائی بلاک سے کشاں کشاں نہر پر لے گیا
بہت سال ہوئے ہم یوای ٹی والے پنجاب یونیورسٹی والوں سے محض اس بناء پر حسد کرتے تھے کہ نیوکیمپس میں بقول فرحت عباس شاہ
نہرکے کنارے پر
تتلیاں اترتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو چھیڑ کر گزرتی ہیں
آپ کی زیرِلب مسکراہٹ بجا مگر وہ دن ہی کچھ ایسے تھے
اب پلوں کے نیچے سے اتناپانی گزر جانے کے بعد ہمیں تویہ بھی یاد نہیں کہ یہ نظم فرحت عباس شاہ نے کہی تھی کہ کسی اورنے آپس کی بات ہےفرحت عباس شاہ بھی کچھ اس سبب سے یاد آئےکہ کچھ عرصے بعد جب دھڑادھڑ ان کی کتابوں کا تانتا سا بندھ گیا توایک دوست نے ان کی تخلیقات کے نوماہی اشاعتی وقفے کوایک اوربھلے سے فطری عمل سے تشبیہہ دی تو سچ کہیں ہمارا دل زچہ اوربچہ دونوں کی طرف سے کھٹا ہو گیا
اس دن کے بعد سے آج لکھنے بیٹھے ہیں توفرحت عباس شاہ کو دوبارہ یاد کیا ہے
2014 کی اس شام ہمارارخ نیوکیمپس سے مخالف سمت تھا وہیں جلو ریلوے اسٹیشن کہ ہمسائیگی میں لاہور کی نہر اپنے مخرج یعنی بمبانوالہ ۔ راوی ۔ بیدیاں لنک المعروف بی آربی نہر سے لاہور کی محبت میں نکلتی ہے
جی ہاں ستمبرکی جنگ والی بی آربی جو لاہور کی نہر کے عمودی رخ پربہتی ہے اوراگرآپ شمال کی سمت رخ کریں تو اس کے پانی باٹاپور کے پل کی خبر لاتے ہیں جرنیلی سڑک پر قائم بی آربی کایہ پل ستمبر 1965 کی سہانی صبح اچانک بہت اہم ہو گیا تھا کیونکہ واہگہ کا بارڈر کراس کرتی ہندوستانی فوج کی نظریں لاہور پر تھیں اور ان میں کرنل دیسمنڈ ھائیڈ کی دلیرپلٹن 3 جاٹ برق رفتاری سے بڑھتی پل پرسے سمجھیں گزراہی چاہتی تھی
یہ اسی پل کی کہانی ہے 5 اور 6 ستمبرکی درمیانی رات پیدل مارچ سے تھکے کرنل تجمل ملک کی 3 بلوچ کے سپاہی ابھی اپنے مورچوں تک پہنچے ہی تھے جب ہندوستانی سپاہ کے ہر اول دستوں نے سرحد پار کر کے لاہور پرپیش قدمی شروع کی
جی ٹی روڈ کے پل کوتباہ کرنے کے لیے تیار کرنے کی ذمہ داری 4 انجینئیربٹالین کی براوو کمپنی کی ایک پلٹن کی تھی ان سپاہیوں نے 5 ستمبرکادن اور اگلی رات پل کے پاس دفاعی مورچے کھودنے میں لگادیے
6ستمبرکی صبح ابھی صرف چیمبرز ہی ڈرل ہوئے تھے ان میں ابھی بارود رکھاجاناتھا کہ ہندوستانی ٹینکوں کے حملے کی خبر باٹاپور پہنچی اورساتھ ہی ساتھ بارڈر سے پیچھے پلٹتے پناہ گزینوں کاریلہ پل پرامڈآیا اس سارے گھمسان میں انجینئیرزکوبارود لگاتے پون گھنٹہ ہی ہواتھاکہ نہر کے پرلے سرے پرانڈین رسالے 14 ہارس کے ٹینک اور3 جاٹ رجمنٹ کے جوان پہنچ گئے
اس گھمبیرصورتحال اوردوطرفہ فائر کے دوران انجینئیرز نے اپنا کام جاری رکھا
3 بلوچ کی ٹینک شکن ٹیموں نے آگے بڑھتے دوٹینک شکار کیے تو جوانوں کے حوصلے بلند ہو گئے
3 جاٹ کے دلیرجوانوں کی پیش قدمی نہ رکی توبریگیڈ کمانڈر نے جلدی میں بارود کو آگ دکھانے کا حکم دیا
پہلادھماکہ ہوا دھواں اورگرد چھٹی تو پل کوصرف جزوی نقصان پہنچاتھا
اس دوران بارود لانے والی گاڑی انڈین توپخانے کےفائرکی زد پرآئی تواس کےپرخچے اڑگئے
پل ابھی سلامت تھااوراب بارودسے ہاتھ دھو بیٹھے
اتنے میں انجینئیرکمپنی کمانڈرمیجرآفتاب ایک جنگی چال دماغ میں سمائے محاذ پرپہنچے
انہوں نےآتے ہی حکم دیا کہ ٹینک شکن بارودی سرنگوں کےکریٹوں کواکٹھاکرکے بارود کی طرز پر دھماکہ کر کے پل اڑانے کی کوشش کی جائے
بارودی سرنگوں کےلگ بھگ پچاس کریٹ تیارکیے گئے اور ریتلی بوریوں کی حفاظتی دیوار کھڑی کی گئی جس کی آڑلے کرجان ہتھیلی پررکھے ساری شام انجینئیرز کے جوان تباہ کن کریٹوں کوپل پرنشان زدہ جگہوں پر لگاتے رہے
چھ اورسات ستمبرکی درمیانی رات لگ بھگ آدھی رات کا عمل ہوگاجب ان بارودی سرنگوں کوشعلہ دکھایا گیا اورایک روشن اور زور دار دھماکے کے بعد باٹاپورکاپل تباہ ہوگیا اس دن ہندوستانی سپاہی باٹا پورپل کے پرلے سرے تک ہی پہنچ پائے۔ آنے والے دنوں میں جنگ بندی تک 3 بلوچ کے شیردل جوان ہندوستانی سپاہ کو بی آربی پارکرنے نہیں دینگے
6 ستمبرکو 3 جاٹ کی دلیرانہ پیش قدمی جب باٹاپورپرتھم گئی توایک عجیب حکم پرانہیں واہگہ کی طرف واپس بلالیاگیا
3 جاٹ کے یہ جوان پلٹ کر آئیں گے
بی آربی نہر کے پرلے کنارے کے ساتھ ڈوگرئی گاؤں کو فتح کرنے
ڈوگرئی کی کہانی کسی اوردن پراٹھارکھتے ہیں
اللہ حافظ وناصر
“