وہ مجھے گھسیٹتے ہوۓ باہر لاۓ اور سڑک کے کنارے پھینک دیا ۔۔ مجھے حیرت ہوئ کہ مجھے چوٹ کا احساس کیوں نہیں ہوا ۔۔۔ اسلۓ کہ شاید میں مر چکا تھا ۔۔۔ میرا وجود اب لاش تھا۔۔ آخری سانس کب لی، کیسے لی یاد نہیں ۔۔ موت کے بعد احساسات ختم ہو جاتے، لیکن میں کیوں محسوس کر رہا ہوں۔۔ موت کا درد نہیں، درد اس بات کا کہ اب میں اُسے کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا ۔۔ نہیں میں ابھی مرنا نہیں چاہتا، مجھے روح واپس چاہیے اپنے جسم میں، میں اُوپر نہیں جاؤں گا۔۔ میں چیخنا چاہتا تھا، پوری طاقت سے چلانا چاہتا تھا ۔۔ لیکن ۔۔ میں تو مر چکا تھا وہ بھی صرف جسمانی طور پر کیونکہ میری روح ابھی بھٹک رہی تھی، میرا مقصدِ حیات پورا جو نہیں ہوا تھا ۔۔۔ میری لاش سڑک کے کنارے پڑی تھی اور گزرنے والے بچ بچ کر بلکہ دورسے گزر رہے تھے جیسے میں ابھی اُٹھ کر اُن سے چمٹ جاؤں گا ۔۔۔ سب مجھے دیکھ رہے تھے مگر کوئ بھی نہیں دیکھ رہا تھا، سبھوں کے لیے یہ ایک معمولی واقعہ تھا جو ہر دوسرے دن وقوع پزیر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ میری لاش ابھی تازہ تھی اور سر سے رستا ہوا خون ابھی جما نہیں تھا اور نا ہی ابھی تک کسی جانور نے میری جانب رخ کیا تھا ۔۔۔ میری آنکھیں کُھلی تھیں جس میں خوف نہیں انتظار تھا ۔۔ لیکن یہ کسی کو نظر آتا اگر کوئ قریب آنے کی جرات کرتا تو ۔۔۔ میری آنکھیں منتظر تھیں آخری لمحوں تک، شاید وہ آجاۓ وہاں ، میں اُسے دیکھ لوں ایک نظر ، میں تو یہ بھی نہیں جان پاؤں گا کہ اُسے خبر بھی ہے یا نہیں ، میں اُسے بتانا چاہتا تھا کہ میں اُس پر کوئ آنچ نہیں آنے دوں گا، کوئ بُری نظر اُس پر نہیں پڑے گی ۔۔ اور میری بے چین روح بھٹکتی رہے گی جب تک مجھے پتا نہ چلے گا کہ وہ محفوظ ہے ۔۔ میں پکارنا چاہتا تھا آؤ میری جوانمرگی کی کتھا سنو میری مدد کرو۔۔ لیکن کیسے ۔۔۔
جب مجھے اُس بنگلے میں لایا گیا تو وسیع و عریض ہرا لان ، تراشے ہوۓ پودے اور تراشیدہ گھاس کو دیکھ کہ میں کِھل اُٹھا تھا، بچپن سے ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا تھا۔۔ سوچا کہ اب زندگی خوب گزرے گی اور پھرنظرلان میں کھڑی اُس گول مٹول بے حد گوری، گڑیا سی لڑکی پہ پڑی جسکے سنہری مائل گول گول پیچدار بالوں کی لمبی لمبی لٹیں اُسکے چہرے کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئ تھیں، چہرے پہ ایک مخملی اُداسی اور غمزدہ شگفتگی تھی ،گلابی فراک میں وہ ایک کِھلا ہوا پھول لگ رہی تھی،ایک عجیب سی جاذبیئت تھی کہ میں ٹِھٹَھک گیا، ایک نرم نرم خوشبوکے جھونکے کی لپیٹ نے مجھے مسحور کر دیا ۔۔ جس چیز نے مجھے پہلی نظرمیں اُسکی محبت میں گرفتار کیا وہ تھی اُسکی بڑی بڑی بھوری آنکھیں جن میں خوف اور ڈر تھا، حالانکہ ڈرنا مجھے چاہیے تھا مگر ایسی ڈری ڈری گڑیا کو دیکھ کہ میں اپنا ڈر بھول گیا، پھر بھی میں آگے نہیں بڑھا انتظار کیا ، چند لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد وہ خود میرے قریب آئ اور اُسکا پہلا لمس ۔۔ اور ہم دوست بن گۓ ۔۔۔ مجھے خوشی تھی کہ اُس بنگلے میں میں "روشنی" کے لیے تھا لیکن افسوس اِس بات پہ تھا کہ میں آزاد نہیں تھا ، میں اپنی مرضی سے لان میں گھوم نہیں سکتا تھا، گارڈ کی چوکنی نظر ہمہ وقت مجھ پر رہتی، اُسکا ہاتھ مستعد بندوق پہ ۔۔اور۔۔۔ پھر۔۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میرا مقدر بن گئ تھی ۔۔ صبح صبح کوٹھڑی سے باہر آتا اور روشنی کے ساتھ ٹہلتا، اور شام میں اُسکے ساتھ کھیلتا ، زندگی اچانک سےگلزار ہوگئ تھی اور میں اُن چند لمحات جو اُسکے ساتھ گزرتے تھے، کا قیدی بن گیا ۔۔ آہستہ آہستہ، وقت گزرتے پتا چلا کہ وہ بہت اُداس بچی ہے ، اکیلی تنہا اور خوفزدہ ۔۔ اُسکی آنکھوں کا رنگ اور انداز بدل جاتا جب اُسکے بابا جانی آجاتے ، وہ کیوں اُن سے اتنا ڈرتی ہے میں اکثر سوچتا، کتنی محبت کرتے تھے اُس سے ، "میری روشنی، میری جان " یہی کہتے ہمیشہ ، گود میں بٹھا کر ڈھیروں پیار کرتے مگر مجھے اُسکے اندر کے خوف کا ارتعاش ہلادیتا ، میں چپ چاپ اُسکی آنکھوں میں تکتا رہتا اور وہ اُتنی دیر بے چین رہتی جب تک اسکے بابا جانی وہاں رہتے۔۔
ہماری دوستی بڑھی تو میں اُسکے لیۓ ایک "کان" بن گیا، وہ دھیمے سُروں میں اپنی باتیں مجھے بتاتی، اور میں چپ چاپ اسے تَکتا رہتا اور سُنتا رہتا ۔۔ جواب دینا ضروری تو نہیں ہوتا ،کبھی کبھی ہمیں صرف کان کی ضرورت ہوتی ہے اس احساس کے ساتھ کہ سُننے والا تکلیف کو سمجھ رہا ہے، ایک کاندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس پہ سر رکھ کر سُکون مِل سکے ، عافیت کا احساس ہو، تحفظ محسوس ہو ۔۔۔ اور یہ سب کچھ روشنی کو شاید مجھے اپنی بانہوں میں لے کہ مل جاتا تھا ، میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وہ بلاتکان بولتی، اپنی ساری خواہشیں اپنی ساری بے چینیاں اپنی ساری کُلفتیں ۔۔
"جانتے ہو میرے بابا میرے بابا نہیں ہیں۔" یہ بولتے وقت اُسکی آواز سَرگوشی تھی، کانپتی ہوی لرزتی سَرگوشی " شششش کسی کو نہیں بتانا۔" اور میں بھونچکا رہ گیا ۔۔۔ اُسکی زیرِ لب باتیں جو ہر لحظہ اور بھی زیرِ لب ہوتی گئیں " میرے اصلی بابا اس دنیا میں نہیں اور اب میری ماما بھی نہیں۔۔۔ میرا کوئ نہیں ہے کوئ نہیں، ہر ایک مجھے اکیلا چھوڑ جاتا ہے، مجھے اللہ نہیں پسند ، کیوںکہ ماما نے کہا تھا اللہ کی مرضی تھی جو میرے بابا چلے گۓ دنیا سے اور اب اللہ نے ماما کو بھی چھین لیا، تم بھی چلے جاؤ گے کیا ؟ مر جاؤ گے؟ نہیں اُسنے اتنے زور سے مجھے بھینچا تھا کہ میری سانس رُکنے لگی تھی ۔۔ "میری ماما بہت بیمار تھیں اور اُنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے بابا بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور بابا جانی بھی بہت پیار کرتے ہیں ، لیکن مجھے باباجانی اچھے نہیں لگتے" ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک دن اُسنے بتایا ۔۔ " پتا ہے بابا جانی دوسری ماما لانے والے ہیں، میری ماما سے پہلے بابا کی ایک اور وائف تھیں اور میرا ایک اسٹیپ بھائ بھی ہے ۔۔۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، ماما سے شادی کےبعد بابا جانی نے بھیا کو ہاسٹل بھیج دیا، اور اب نئ ماما کے آنے پہ مجھے بھی تو نہیں ؟ " ۔۔ اور اس وقت اس کے سینے سے لگے مجھے اسکی گھبرائ، بےترتیب سانسیں اور اسکی ہاتھوں کی کپکپاہٹ محسوس ہورہی تھی، "تم جانتے ہو اسٹپ ماما بہت بری ہوتی ہیں میں نے ساری فئیری ٹیلز میں یہی پڑھا ہے اور جب ماما، بابا اور بھیا سب اسٹیپ ہو تو۔۔۔ تمہیں پتہ ہے اسٹیپ کیا ہوتے ہیں ؟؟" ۔ اورمعاً وہ مجھ سے لپٹ گئ، پھر اُسکی سرگوشی اور گہری ہوگئ " مجھے تمہارے ساتھ بھاگنا ہے، اِن سب سے دور" ۔۔ اور یہ بات میرے رگوں میں رینگ گئ ، سُر سُراتی ہوئ ۔۔۔۔ اور میں مضطرب ہوگیا نگاہیں آوارہ ہوگئیں، روزانہ اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینا شروع کیا ، جنگلہ کتنی دور ہے، گارڈ کس وقت چاۓ پیتے ہیں ، بابا جانی کی گاڑی کس وقت جاتی اور آتی ہے، میں جنگلے کو پار کرسکتا ہوں یا نہیں وہ بھی روشنی کے ساتھ ، وغیرہ اب میرے دن بھی بےچین گزرنے لگے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر میں سوچنے بیٹھ جاتا ۔۔ میں اس کو لے کہ کہاں جاؤں گا، کسی گارڈ کی گولی کا نشانہ، نہیں نہیں میں روشنی نہیں بجھا سکتا۔۔۔ اوردفعتاً اِس احساس سے میں نے خوشی اور غم کا راز پالیا کہ خوشی ہمارا ساتھ ہے، اورغم اُس سے جدائ اور لمحے میں میری اُداسی اور مایوسی کافور ہوگئ جیسے میری ڈوبتی ناؤ کو پتوار مل گئ ہو ۔۔ میں کہیں نہیں جاؤ گا، یہیں ساتھ رہوں گا ساری زندگی، روشنی کی حفاظت کے لیے۔۔۔۔
میری زندگی اب سمٹ کر آواز بن چکی تھی، آواز کی جھیل اور ہچکولے کھاتا میں ۔۔ اور میرے کان پھیلتے گۓ، انوکھی سی حِس اُن میں پیدا ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ اگرچہ کے میرا دل چاہتا وہ میرے ساتھ دوڑے، بھاگے، اُچھلے، کودے، ہنسے، کھیلے ، قہقہے لگاۓ، لیکن وہ اِتنی پژمردہ، بُجھی بُجھی رہتی ، بچی کے جسم میں مقید ایک سنجیدہ لڑکی تھی۔۔ میں اُسے اِس قید سے آزاد کروں گا ۔۔۔ اور میں ایک نۓ جوش اور عزم کے ساتھ روز کی نئ تگ ودو شروع کر دی، اُسکے ساتھ کھیلنے کی کوششیں ، اسکے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کی کوشش ۔۔۔
آج وہ بہت روئ، میں اُسکی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اور اُسکے آنسو مجھے بھگوتے اور جلاتے رہے، " تم جانتے ہو اگلے ہفتے بابا جانی کی شادی ہے اور بھیا ہاسٹل سے یہاں آرہا ہے ، میں کیا کروں؟ بتاؤ نا میں کیا کروں مجھے نفرت ہے بھیا سے، نفرت پتہ ہے کیا ہوتی ہے ؟ ایک مدھم مگر گہری آہ نکلی ایک سِسکاری کے ساتھ ۔۔ " تم نے کسی سے نفرت کی ہے؟ نہیں نا تو تم کیسےسمجھ پاؤ گے" ۔۔۔۔۔ اسنے میرا چہرہ اپنے نرم ملائم ہاتھوں میں تھام کر کہا ۔۔ اور میں نے اپنا چہرہ اُسکی گود میں چھپا لیا اور پھر صرف ہماری سانسیں اور اُسکی کرب بھری سِسکیوں کی دِھیمی دِھیمی ہچکیاں ۔۔ میں سُوچنے لگا آخر اِس کی زندگی اتنی نفرتوں میں ڈوبی کیوں ہے؟، اتنا خوف، ہر لمحے گھبراہٹ ۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے عہد کیا میں اُسکے ساتھ رہوں گا اُسکے ڈر، اُسکے خوف میں اُسکے ساتھ ۔۔۔۔
اُس رات کوٹھڑی کُھلی اور میں سُوتے سے چونک کر اُٹھ گیا ، روشنی کی روشنی سے پوری کوٹھری جَگمگا اُٹھی۔۔ وہ یوں دبے پاؤں آئ اور میری حیرت کو لپٹا لیا ۔۔۔ میری زندگی کی حسین رات ، خوشبو میں لپٹی، نرم گرم جسم، گھبرائ اُلجھی دھڑکنیں، اور ہم دونوں لپٹ کرلیٹ گۓ۔۔۔ " آج سے تین دنوں بعد بابا جانی کی شادی ہے، کیا ہوگا؟ مجھے خوف آرہا ہے"۔۔ میں اُس کے بے حد قریب ہوگیا، گُھس گیا اور اُسنے بھی بھینچ لیا اور اُسکی سانسوں کی دھمک دھیرے دھیرے ترتیب میں آتی محسوس ہونے لگی اور پھر پرسکون ۔۔۔ آج مجھے اپنی کوٹھڑی جنت لگی، اور ہم دونوں سو گۓ ۔۔۔ صبح ایک دھماکے سے کوٹھڑی کا دروازہ کھلا، ڈھیروں خشمگیں آنکھیں، دو تین گارڈز اوربابا جانی ۔۔۔ روشنی کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی مجھے لپٹا کہ رونے لگی، میں سَکتے میں کبھی اُسے اور کبھی بابا جانی کی قہر اُگلتی نظروں کو دیکھنے لگا، اُنہوں نے ایک جھٹکے سے مجھے روشنی سے الگ کیا ایک زور کی جوتے کی ٹھوکر سے میں اتنی دور گیا کہ اچھلتی، مچلتی، چیختی، چلاتی روشنی تک کوشش کے باوجود نہیں پہنچ پایا اور دوبارہ دھماکہ سے دروازہ بند ہوگیا ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ سزا ملی ، ہم دونوں کو سزا ملی دو دنوں تک میں کوٹھڑی میں مقید رہا، نفرتوں کے اُبلتے بُلبُلوں کی مانند پھٹتا اور بنتا رہا ، ایک گھٹن، مایوسی، ویرانی اور تنہائ آرے کی مانند مجھے کاٹتی رہی ۔۔ اور آخر کار تیسرے دن مجھے لان میں لے جایا گیا، باباجانی اور روشنی کے پاس ، ہم دونوں ایک دوسرے کے جانب دیوانہ وار بھاگے اور لپٹ گۓ اور مجھے لگا ساری کائنات سمٹ کر میری جھولی میں آگئ تھی۔۔ " تھینک یو باباجانی تھینک یو، آپ بہت اچھے ہیں، بہت اچھے" وہ مجھے لپٹاۓ بولےجارہی تھی ۔۔۔ باباجانی نے اُسے کھینچ کے اپنے باہوں میں بھر لیا لیکن روشنی نے ایک ہاتھ سے مجھے جکڑا ہوا تھا ، اور مجھے روشنی کی تنی ہوئ نسوں اور پھڑپھڑاتی رگوں سے اُسکی گھبراہٹ کا اندازہ ہورہا تھا ۔۔۔ "مجھے یقین ہے تم دوبارہ ایسی کوئ حرکت نہیں کرو گی" انہوں نے اُسے چومتے ہوۓ کہا اور مجھ پر زہر آلود نگاہ کرتے چلے گۓ ۔۔ "آئ ہیٹ ہو باباجانی" وہ بڑبڑائ ۔۔۔۔ اور پھر میں اُسکی آواز کی لذت کے نشے میں ڈولنے لگا ۔۔۔ اور دھیمے دھیمے وہ اپنے اندر جمع شدہ نفرتوں کی لہریں میرے اندر منتقل کرتی گئ جو میرے خون کے ساتھ رگوں میں دوڑنے لگیں ، مجھے بھی بابا جانی سے نفرت ہوگئ تھی ، اور اَن دیکھے بھیا سے بھی۔۔
آج پورا بنگلہ سج رہا تھا بابا جانی کی شادی تھی اور مجھے کوٹھڑی سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی تھی ، میں روشنی کے لیۓ تڑپ رہا تھا، ہر آہٹ پہ لگتا اب کوٹھڑی کُھلے گی، لیکن نہیں پورا دن اضطراب میں کٹ گیا ، شور ہنگامہ گانے کی آوازیں برچھیاں بن کر مجھے کچوکے لگاتی رہیں۔۔۔ اور میں دروازہ تکتے تکتے سُو گیا۔۔۔ صبح کوٹھڑی کُھلی اور میں خوشی خوشی اپنی روشنی کی طرف بھاگا ۔۔۔صبح کی نرم بھیگی گھاس پہ ہم لیٹے تھے، میں اُسکی سرگوشی میں مگن تھا اُسکے مہندی میں رچے ہاتھ مجھ سے کھیل رہے تھے اور میں اُس رنگین جالے میں گھرتا جا رہا تھا ۔۔ آنکھیں بند کیۓآواز کے نشے میں چور تھا کہ اچانک، ہاتھ رُک گیا آواز کانپ گئی ، "بھیا" ۔۔ میں اُٹھ بیٹھا ۔۔ " اُہو تو یہ ہے تمہارا دوست" بھیا نے جوتے سے مجھے زور کا ٹھڈا مارا، مجھے تکلیف چوٹ کی نہیں ہوئ بلکہ میں گلابی رنگت کو ہلدی سا ہوتے دیکھ رہا تھا ۔۔ " مجھے بھی تو گود میں لٹاؤ " ۔۔ ایک اور اُس سے بھی زیادہ زور کی ٹھوکر سے میں دور جا پڑا اور بھیا دھپ سے گھاس پہ بیٹھا اور روشنی کی گود میں تقریباً گر پڑا، روشنی نے کوئ آواز نہیں نکالی بس پیچھے ہوکر نکلنے کی کوشش کرنے لگی، مگر بھیا اُسکے گود میں سر رکھ چکا تھا اور اُسنے اُسکی لٹوں کو مٹھی میں جکڑ کر اُسکا چہرہ اپنے قریب کھینچ لیا، روشنی کی گُھٹی گُھٹی چیخ نکلی اور پھر اُسکا منہ بند ہوچکا تھا اور وہ اُسکے چُنگل سے نکلنے کو ہاتھ مار رہی تھی ۔۔ میرے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں ، خون میں بھڑوں کے چھتے کی سی بھنبھناہٹ شروع ہوگئ ،آنکھیں اُبل گئیں ،نسیں تن گئیں، رگیں پھڑپھڑانے لگیں ۔۔ روشنی رو رہی تھی اور بھیا ہنس رہا تھا ۔۔ میں نے ایک چھلانگ لگائ اور بھیا پہ سوار ہوگیا اور اُسے بھنبھوڑنے لگا ، " نہیں نہیں ٹومی" روشنی کی ہچکیاں بندھی ہوئ تھیں " کتے " بھیا مقابلے پہ اُتر آیا ۔۔۔ "گارڈ، بچاؤ" بھیا چیخا ۔۔ "ٹومی چھوڑو، بس کرو، نہیں نہیں" ۔۔ میں رُکا، میرے جبڑے سے بھیا کا خون رس رہا تھا، پنجوں میں بھیا کے چہرے کے گوشت تھے ۔۔ میں نے اپنی روشنی کا بدلا لے لیا، میں فاتحانہ انداز میں روشنی کی جانب لپکا ۔۔ لیکن ۔۔۔ میں حیران رہ گیا۔۔ روشنی کی آنکھیں خوف سے اُبلی پڑ رہی تھیں، وہ مجھے یوں دیکھ رہی تھی جیسے میں کوئ بھوت ہوں ، جیسے جیسے میں قریب آرہا تھا وہ الٹے قدموں پیچھے جا رہی تھی ۔۔۔ "یہ کیا ہوا" میں پریشان ہوگیا ۔۔ میری روشنی مجھ سے کیوں ڈر رہی، کیوں؟ "روشنی میں تم پر کوئ آنچ نہیں آنے دوں گا، میں تمہارا محافظ ہوں ، میرے پاس آجاؤ، جلدی" ۔۔۔بھیا کی دلخراش چیخیں گونج رہی تھیں، بابا جانی اور گارڈز بھاگتے ہوۓ آرہے تھے اور اُسی لمحے روشنی نے ایک چیخ ماری اور پلٹ کر بھاگی اور بابا جانی سے لپٹ گئ ۔۔ میں رُک گیا ۔۔۔ "یہ کیا ہوا" میں حیران تھا۔۔ روشنی باباجانی کی باہوں میں لپٹی زور زور سے رو رہی تھی اور گارڈز نے مجھے پکڑ لیا، میں نے کوئ مزاحمت بھی نہیں کی۔۔۔ گارڈز مجھے کھینچتے لیے جارہے تھے اور میری نظر روشنی پہ تھی ، وہ بابا جانی کے سینے میں منہ چھپاۓ رو رہی تھی ۔۔ "ایک نظر دیکھ لو روشنی، میں نے تم پہ بری نظرڈالنے والے کو سبق دے دیا ہے" ۔۔۔ میری آواز میرے حلق میں پھنس کر غرغراہٹ بن گئ تھی ۔۔ بھیا خون میں لت پت تڑپ رہا تھا ۔۔۔اور۔۔۔۔۔ پھر میں اور کوٹھڑی کا اندھیرا تھا ۔۔۔
لمحات گزرتے جا رہے تھے، وقت کیا احساس ختم ہوگیا تھا، میں ششدر تھا، کیا ہوگیا تھا روشنی کو، وہ مجھ سے کیوں ڈر گئ میں تو اُسکا محافظ تھا ۔۔۔ اور کوٹھڑی کا دروازہ کُھلا ، بابا جانی بندوق لیے کھڑے تھے، میری متلاشی نظر اُن سے پرے روشنی کو ڈھونڈ رہی تھی اور مجھے پتا بھی نہیں چلا ۔ بس ایک دھماکا اور ایک دھکا سا لگا ۔۔۔ آخری سانس کب لی، کیسے لی یاد نہیں۔۔ موت کے بعد احساسات ختم ہو جاتے، لیکن میں کیوں محسوس کر رہا ہوں۔۔ موت کا درد نہیں، درد اس بات کا تھا کہ اب میں اُسے کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا ۔۔ نہیں میں ابھی مرنا نہیں چاہتا، مجھے روح واپس چاہیے اپنے جسم میں، میں اُوپر نہیں جاؤں گا۔۔ میری موت جسمانی ہے، میری روح بھٹکتی رہے گی، میرا مقصدِ حیات پورا جو نہیں ہوا تھا ۔۔۔ میں پکارنا چاہتا تھا آؤ میری جوانمرگی کی کتھا سنو میری مدد کرو۔۔ لیکن کیسے ۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1723277181272315/