ترجمہ: سفیراللہ خان
میں اسلام میں فرقہ وارانہ تفریق کی بات نہیں کر رہا کہ وہ تو یوں بھی دو سے کہیں زیادہ ہیں۔ فرقہ واریت صرف ہمارے ہی مذہب سےمخصوص نہیں،تقریباً ہر مذہب اورعقیدے میں فرقے موجود ہیں۔
کسی ایک فرقہ کے لوگوں میں بھی مکمل ہم آہنگی نہیں ہوتی کیونکہ اُ ن میں بھی کئی طرح کے اختلافات ہو سکتے ہیں جیسے کہ معاشی لحاظ سے، نسلی اعتبار سے، زبان اور ثقافت کے لحاظ سے، ان سب کا لوگوں کے رویوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ سب چیزیں مل کرانسان کو وہ بناتی ہیں جو وہ ہے۔
جب کوئی شخص تاریخ کے حوالے سے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی بات کرتا ہے تو کیا وہ ایک متحد اور مکمل طور پر ہم آہنگ لوگوں کے ایک گروہ کی بات کر رہا ہے جن میں کوئی اختلاف نہیں، کوئی فرق نہیں؟میرا خیال ہے کہ پینسٹھ برس پہلے آج ہی کے دن اپنے اختتام کو پہنچنے والے دور کے مسلمانوں کے سیاسی خیالات اور مقاصد میں اختلاف کو نظر انداز کرنا بہت بڑی حماقت ہوگی۔
آج اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اُس وقت کے مسلمانوں کی گروہ بندیاں کیا تھیں اور نوآزاد ریاست پاکستان نے اُن کی سیاسی خواہشات کے ساتھ کیا سلوک کیا تو شاید یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔
تقسیمِ ہند سے پہلے کے مسلمانوں میں کئی طرح کی گروہ بندیاں تھیں۔ فی الحال میں اُن کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کروں گا اور بجائے اس کے کہ دونوں گروہوں کی علمی لحاظ سے جامع تعریف کرنے میں خود کو کھپاؤں، میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے دونوں گروہوں میں سے ایک ایک فرد کو بطور مثال پیش کروں گا۔
عبدالغفار خان سن ۱۸۹۰ء میں موجودہ ضلع چارسدہ کے چھوٹے سے قصبے اتمان زئی کے دیہی مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک اسکول کھولا۔ انہیں شدت سے احساس تھا کہ اگر اُن کے لوگوں نے تعلیم حاصل نہ کی تو اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا ۔لمبے قد کا یہ نوجوان بہت پختہ ارادے کا مالک ثابت ہوا۔ وہ ایک سادہ سا پیغام لیے میلوں پیدل چلتا ہوا گاؤں گاؤں جاتا اور وہ پیغام تھا ‘تعلیم حاصل کرو اور لڑائی جھگڑوں سے دُور رہو۔
وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے جو پنج وقتہ نماز پابندی سے ادا کرتے تھے اور ساتھی پختونوں کو تحریک دینے کے لیے پیغمبرِاسلام کے اقوال اور اسلامی تاریخ کے حوالے دیا کرتے تھے۔ لوگ جوق در جوق اُن کی جماعت میں شامل ہو تے گئے۔ مبہم سی پسندیدگی بتدریج عقیدت میں بدل گئی۔
اپنی زندگی کے چوتھے عشرے میں انہوں نے خدائی خدمت گار کے نام سے ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اُس وقت تک انہیں بادشاہ خان یا باچا خان کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ اس تحریک نے اُس دور کی دیگر تحریکوں کی طرح اپنے رضا کاروں کو سرخ رنگ کی وردی پہنائی اور انہیں فوجی دستوں کے انداز میں منظم کیا۔
اِن دستوں کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ’وہ پیغمبرانہ ہتھیاروں یعنی صبر کی طاقت اور دیانت داری سے لیس ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ اعزاز باچا خان ہی کو نصیب ہوا کہ انہوں نے پختونوں کو ہتھیاروں سے بے نیاز کر دیا حالانکہ اُن کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ وہ بہت لڑاکا مزاج اور جھگڑالُو طبیعت کے تھے۔
اس تحریک کے رضاکار سرخ پوش کہلاتے تھے۔ وہ برطانوی راج کے خلاف تھے اور اپنی حاکمیت چاہتے تھے۔ گوروں کے لیے اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی صوبے کی خاص اہمیت تھی۔ یہ علاقہ برطانیہ اور افغان حکومت، جس کے ساتھ برطانیہ کے دوستانہ مراسم نہ تھے، کے درمیان ایک دیوار کے حیثیت رکھتا تھا۔ دوسری طرف دیوار کے اُس پار روسی بھی موجود تھے جن کو انگریز اپنا خاص دشمن سمجھتے تھے اور اُن کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔
سن۱۹۱۷ء کا بالشویک انقلاب سامراج کے لیے بطور چیلنج ابھر کر سامنے آیا۔ اُن کے دلوں میں انگریزوں کے استحصال کا شکار قوموں کے لیے اک نرم گوشہ ہونا فطری سی بات تھی۔ روسی انقلاب کا رنگ بھی سرخ تھا۔ پشاور کی وادی میں سرخ رنگ کی قمیص انگریز کو خوف زدہ کر دینے کے لیے کافی تھی۔
۱۹۳۰ء میں قصہ خوانی بازار میں انگریزی فوج نے خدائی خدمت گاروں کے پُرامن احتجاجی جلوس پر فائر کھول دیا اور سیکڑوں کو شہید کر دیا۔ تحریک کے پیروکار اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ڈٹے رہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اپنے عروج کے دور میں تحریک کے کارکنوں کی تعداد ایک لاکھ تک چلی گئی تھی۔
جب برطانوی راج نے مقامی سیاسی قوتوں کوحکومت میں شریک کرنے اور محدود نوعیت کے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو تحریک نے ہندوستانی قومی کانگریس کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ تحریک نے تمام انتخابات میں باقاعدہ حصہ لیا۔ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے انتخابات میں کامیاب ہوئی اور صوبے میں حکومتیں بنائیں۔ چونکہ انگریز اُن سے نفرت کرتے تھے اس لیے وہ ان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔انہوں نے کئی بار باچا خان کو طویل دورانیے کے لیے جیل میں قید رکھا مگر اُس پختون مڈل کلاس کو سیاست سے باہر نہ کر سکے جن کو باچا خان سیاست میں لائے تھے۔
پختون مسلمان کانگریس کے ساتھ اچھے انداز میں اپنا سیاسی سفر طے کر رہے تھے ۔ اس کی وجہ محض یہ نہیں تھی کہ دونوں پارٹیوں کے سربراہان میں ذاتی دوستی تھی ۔ کانگریس پارٹی چھوٹی قومیتوں کی سیاست میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور انہیں موقع فراہم کرتی تھی کہ دوسری قومیتوں کے ساتھ میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کو سمجھیں۔
چھوٹی قومیتوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں وہ اُن کے مذہب کو نہیں دیکھتی تھی۔ دوسری طرف باچا خان کا اعتماد اور ہندو اکثریت سے بے خوفی کی وجہ اُن کا پختون پس منظر نہیں تھا بلکہ انہوں نے یہ خود اعتمادی انتخابات میں بار بار حاصل ہونے والی کامیابیوں سے حاصل کی تھی۔ اُن کا حلقہ انتخاب بہت بڑا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں ہندو بھی تھے مگر پختون مسلمان، پختون ہندوؤں کو اپنے مذہب یا سیاست کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے تھے۔
اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مسلم لیگ باچا خان کے علاقے میں ہندوؤں کی بالادستی کا خوف پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اُن کے ساتھیوں نے سن اُنیسو چھیالس۱۹۴۶ کے انتخابات واضح اکثریت سے جیتے۔ انہوں نےمذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کی مگر تقسیم ہو گئی۔ اُن کی جمہوری طور پر منتخب حکومت آزادی کے محض آٹھ روز بعد اُس وقت ختم کر دی گئی جب جناح گورنر جنرل اور لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان باچا خان سے پانچ برس چھوٹے تھے۔ وہ سن اٹھارہ سو پچانوے میں ایک ایسے مسلمان جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے جس کی جاگیر پنجاب کی مشرقی سرحد یعنی موجودہ ہریانہ سے لے کر اُتر پردیش تک پھیلی ہوئی تھی۔ اُن کے خاندان کے گوروں کے ساتھ بہت دوستانہ مراسم تھے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اُن کے خاندان کو جاگیریں ملنے اور گوروں سے رسم و راہ بڑھانے کا موقع تب ملا جب سن اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں اُن کے دادا نے انگریزوں کی مدد کی۔ اُن کے والد کو بھی بہت سے القابات و خطابات سے نوازا گیا تھا۔
لیاقت علی خان نے علی گڑھ سے تعلیم پائی ، پھر آکسفورڈ چلے گئے۔ سن ۱۹۲۳ء میں لندن سے واپسی پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۲۶ء میں انہوں نے پہلا انتخاب یو پی اسمبلی میں مظفرنگر کے حلقے سےمسلمانوں کے لیے مختص سیٹ پر لڑا اور آسانی سے جیت گئے۔ وہ اسمبلی میں ایک اچھے مقرر کے طور پر ابھرے جو زیادہ تر مسلمان جاگیرداروں کے مسائل اُٹھاتے تھے جواُس صوبے میں اقلیت میں تھے۔
جلد ہی وہ مسلم لیگ کے ہراول دستے کے اہم رکن بن گئے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نوابزادہ صاحب ہی تھے جنہوں نے ہارے ہوئے محمد علی جناح کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ لندن سے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس آئیں اور مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کی تحریک کی رہنمائی کریں۔ ۱۹۳۶ء میں لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔
پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی نے انہیں ۱۹۳۶ء کے انتخابات کے لیے اپنے ہی حلقے سے انتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں اپنا یہ حلقہ بہت عزیز تھا ۔چنانچہ مسلم لیگ کے ایک اہم عہدے دار ہونے کے باوجود انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے یہ انتخاب لڑا جس کی وجہ سے انہیں پارٹی کے دیگر ارکان کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
۱۹۴۶ء کے انتخابات میں انہوں نے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے اُتر پردیش میں واقع میرٹھ کی مسلمان سیٹ کے لیے انتخاب لڑا۔ اس انتخاب میں جیتنے کے نتیجے میں وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے رکن ہونے کے اہل ٹھہرے اور آزادی کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔
اُن کے پاس خارجہ امور، کامن ویلتھ سے تعلقات اور دفاع جیسے محکموں کا اضافی چارج بھی تھا۔ وہ طویل عرصے تک پاکستان کے سب سے طویل مدت تک خدمات انجام دینے والے وزیراعظم بھی رہے۔ یہ اعزاز حال ہی میں چند ہفتوں کی طوالت کے ساتھ یوسف رضا گیلانی نے حاصل کر لیا ہے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کے پاس کئی ایسے فیصلے کرنے کا اعزاز بھی ہے جن کے پاکستان پر بہت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ سے اتحاد کا فیصلہ انہی کا تھا۔ انہوں نے کمیونسٹوں کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک کوشش ناکام بنائی، جنرل ایوب کو فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی دی اور ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر ایک جنگ بھی لڑی۔اُ ن کی حکومت وقتی ضرورتوں کے مطابق بنائے گئے قوانین بنا کر کام چلاتی رہی کیوں کہ وہ ملک میں ایک آئین کے لئے اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
وجوہات بہت سادہ تھیں: وہ نہ تو بادشاہت کے لیے کوئی جواز ڈھونڈ پائے اور نہ ہی کوئی خلیفہ مقرر کر پائے۔ جمہوریت آئین کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ میرٹھ ہندوستان میں رہ گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بااختیار وزیر اعظم جن کو طویل ترین مدت تک وزیر اعظم رہنے کا اعزز بھی حاصل تھا، کے پاس انتخاب لڑنے کے لیے کوئی حلقہ ہی نہیں تھا۔ ایک پکے جمہوریت پسند اور متحرک رکن پارلیمان کو بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ جمہوری نظام میں اُن کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔
اس کے برعکس باچا خان کا سیاسی مقام مکمل طور پر محفوظ تھا۔ جمہوری طور پر یہ ممکن نہیں تھا کہ اُنہیں اُن کے حلقے سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے۔ ان کے پاس ووٹر تھے، رضاکار تھے اور جاں نثار کارکنوں کے دستے تھے۔ چنانچہ عارضی قوتوں نے کھیل کے اصول بدلنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
محمد علی جناح کی وفات کے چھ ماہ بعد ہی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے آئین ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پیش کر دی جس کے تحت فیصلہ ہوا کہ نئی ریاست کا مذہب اسلام ہوگا۔ مذہب کو ہماری لسّانی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ بِھڑا دیا گیا اورعقیدے کو سیاسی مفاد کا دشمن بنا دیا گیا۔ وہ لوگ جو اپنی ثقافت سے محبت کرتے تھے، اپنی زبان کا دفاع کر تے تھے اور اپنے سیاسی اور جمہوری حقوق مانگتے تھےوہ سب کافر اور غدار قرار پائے کیوں کہ وہ برصغیر میں قائم اسلام کے قلعے کے خلاف سازش کے مرتکب قرار پائے تھے۔ ملک کی نظریاتی سرحدیں انتخابی حلقوں کی حدود سے زیادہ اہم ہو گئیں اور جمہوریت کے اصول چند مخصوص علما کی بیان کردہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہوگئے۔
باچا خان جنہوں نے بے تحاشا محنت کے بعد عوام کے ایک وسیع حلقے میں مقبولیت حاصل کی تھی، ہمارے سرکاری گزٹ میں ملک دشمن غدار قرار پائے۔ سرخ پوشوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا گیا۔ سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور انتخابات میں دھاندلیاں کی گئیں۔
سارے ملک کو ایک حلقہ انتخاب اور فرد کی مذہبی ساکھ کو واحد اہلیت قرار دے کر لیاقت علی خان نے اپنے طبقے کے لیے ایک حلقہ انتخاب بنانے کی کوشش کی تھی۔ ایک ایسے طبقے کے لیے جو ہندوستان کے مسلمان اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے آنے والے سیاسی عدم تحفظ کا شکار مسلمان جاگیرداروں پر مشتمل تھا۔
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکے۔ ایک عشرے کے اندر ہی اُن کے اپنے رچائے ہوئے اس کھیل میں فوج نے انہیں چِت کردیا۔ انہیں بتا دیا گیا کہ وہ اسلام کے قلعے کی حفاظت کے لائق نہیں۔ فوج نے ملک کو اسلام کے نام پر متحد رکھنے کی ذمہ داری خود سنبھال لی اور اِسے اُن سازشیوں سے محفوظ رکھنے کا بھی بیڑا اُٹھا لیا جن کی ملک کے عوام میں جڑیں بہت مضبوط تھیں۔
فوج کو یہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ ملکی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں جس سوچ کو فروغ دیا جا رہا تھا، اُسے بدلا جائے۔ بلکہ معلوم یہ ہوا کہ یہ سوچ ملک میں جمہوری نظام کو روکنے یا اُس کو خراب کرنے کے لیے فوج کی اپنی حکمتِ عملی کے عین مطابق تھی اور آنے والے عشروں میں فوج کی براہِ راست یا پس منظر میں رہ کر حکمرانی کے لیے ضروری سہارا بھی تھی۔یہ سوچ آج بھی اپنی تمام ترجولانیوں کے ساتھ قائم و دائم ہے اور باچا خان کو ایک عظیم قومی ہیرو کے طور پر ماننے سے انکار پر مُصر بھی ہے۔