ساتھ لگی تصویر سیٹلائیٹ سے رات کے وقت لی گئی ہے اور کوریا کے پیننسولا کی ہے۔ اس کے دونوں حصوں میں روشنی کے حوالے سے فرق واضح ہے۔
یہ ایک ہی ملک ہوا کرتا تھا جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان سے آزادی حاصل کی۔ پھر دو حصوں میں بٹوارا اور کوریا کی خونی جنگ جو ڈھائی سال جاری رہے اور پچیس لاکھ جانیں لے گئی۔ 1953 میں جنگ بندی ہوئی اور اڑتیسویں عرض بلد پر ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ ایک طرف جنوبی کوریا، ایک طرف شمالی کوریا۔ ایک ہی طرح کے لوگ، ایک زبان، ایک ثقافت، ایک تاریخ، ایک معاشرت اور ایک جیسا معیارِ زندگی رکھنے والے لوگوں کو اڑتیسویں عرض بلد پر اس لکیر نے تقسیم کر دیا۔
ایک ملک میں اس وقت سے آج تک اکتالیس وزرائے اعظم آ چکے ہیں، مارشل لاء بھی لگے، چھ بار آئین بنا، حکومتوں کے تختے الٹے، کرپشن عام رہی اور اس کی وجہ سے وزرائے اعظم جیل بھیجے گئے۔ سیاسی لحاظ سے انتشار کا شکار اس ملک میں پچھلی صدی کے آخر میں پڑنے والے بدترین قحط نے زراعت کی کمر توڑ دی۔ یہ ملک اپنی خوراک کے لئے دوسروں پر تقریبا مکمل طور پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے صدر اور وزیرِ اعظم کو اپنے ملک سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ یہ ملک دنیا میں تجارت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس کی پہچان سام سنگ، ڈائیوو، ہنڈائی اور ایل جی جیسے ناموں سے ہے۔ یہ جنوبی کوریا ہے جو تصویر میں روشن ہے۔
دوسرے ملک میں سیاسی استحکام ہے۔ موجودہ صدر اس کی تاریخ کے صرف تیسرے صدر ہیں۔ خود کفالت کے سلوگن سے آغاز ہونے والے اس ملک نے اپنے رابطے دنیا سے توڑ لئے۔ یہاں پر انٹرنیٹ مکمل سنسر شدہ ہے۔ دوسرے ممالک سے ٹی وی، اخبار، ٹیلیفون سے رابطے نہیں ہیں۔ سیاسی حوالے سے خبروں میں رہنے والے اس ملک کے سربراہ کم جونگ اُن کو دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس ملک کی دنیا میں پہچان اپنے لیڈر اور اپنے ہتھیاروں اور سب سے کٹ کر رہنے والی پالیسی کے حوالے سے ہے۔ یہ شمالی کوریا ہے جو تصویر میں تاریک ہے۔
ایک ہی ملک کے دو حصے صرف 65 برس کے مختصر عرصے میں کس قدر مختلف ہو چکے ہیں، خلا سے لی گئی یہ اس کی تصویری صورت ہے۔ فرق تو سیٹلائیٹ نے بتا دیا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ سیٹلائیٹ کو نہیں پتہ۔