وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو نرسوں کا ”حُور“ نظر آنے کی خبر کے بعد ہمارے وطن عزیز میں حوروں کے بارے میں ایک دلچسپ بحث چھڑ گٸی ہے . بدترین مہنگاٸی کے اس دور میں ہنسنا اور مسکرانا کسی معجزے یا کسی کمال سے کم نہیں ہے. ایسے حالات میں جناب وزیر اعظم کی جانب سے اپنے عوام کو مسکراہٹ فراہم کرنا ایک بہترین تحفہ ہے . ہم مسلمان ویسے بھی اگر کسی کو کچھ دینے کی سکت یا حیثیت نہ رکھ سکیں تو ایسی صورت میں کسی کو مسکرانے کا سامان فراہم کریں تو یہ ایک بہترین تحفہ ہے . عمران خان کو تو ویسے بھی خطرات اور مشکلات سے کھیلنے میں مزا آتا ہے اس لیٸے وہ عوام کو ہمیشہ یہ تلقین کرتے رہتے ہیں کہ خواہ حالات کچھ بھی اور کیسے بھی ہوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے . خان صاحب کی کابینہ میں ویسے تو بہت سے وزرا بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر ان میں شیخ رشید ، شہریار آفریدی ، فیصل واوڈا کا تو کوٸی جواب ہی نہیں یہ لوگ گفتار اور کردار کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں . یہ اپنے نام اور کام کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اور ان کی شیریں گفتگو کا تو جواب ہی نہیں یہ جو کچھ فرماتے ہیں ان کے وہ جملے اور فقرے ضرب المثل بن جاتے ہیں .
شہریار آفریدی کا پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران کلمہ پڑھ کر یہ کہنا کہ ”مجھے اللّٰہ کو جان دینی ہے“ ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے . پریشان حال عوام شہریار آفریدی کا یہ جملہ دہرا کر اپنے آپ میں فرحت اور تازگی اور ایمان کی پختگی محسوس کرتے ہیں . شہریار آفریدی کا یہ جملہ ابھی تک اپنا تاثر اور عوام میں مقبولیت ختم نہیں کر سکا ہے کہ انہوں نے ایک اور ”تاریخی جملہ“ کہہ کر ایک نٸی بحث چھیڑ دی ہے. انہوں نے فرمایا ہے کہ وزیراعظم صاحب چرس اور آفیم کی فیکٹریاں قاٸم کر کے ملک سے منشیات کے منفی استعمال کو ختم کرکے ان سے مثبت نتاٸج اور اثرات حاصل کرنا چاہتے ہیں . ان کے اس فقرے کی سوشل میڈیا میں تو دھوم مچ گٸی ہے . فیصل واوڈا نے ایک نیوز چینل کے ٹاک شو میں ”بُوٹ“ لاکر اور ٹیبل پر رکھ کر بوٹ کی اہمیت اور فضیلت بیان فرما کر اور اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی شان میں تعریف اور توصیف کلمات کر کے ایک دلچسپ مثال قاٸم کر دی ہے . شیخ رشید کے ارشادات تو ویسے بھی بے شمار ، بے مثل اور برمحل ہوتے ہیں. اس کے علاوہ وہ ایک ماہر نجوم کی طرح پیشنگوٸیاں بھی کرتے رہتے ہیں جس کی گونج ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں بھی سناٸی دینے لگی ہے . سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے ان کے بارے میں ریمارکس میں کہا کہ ایک وزیر صاحب اپنے محکمے پر توجہ دینے کی بجاٸے پیشگوٸیاں کرتے رہتے ہیں . شیخ رشید صاحب نے تو آٹے کے بحران کے بارے میں بھی عجیب اور دلچسپ منطق پیش کرتے ہوٸے فرمایا کہ لوگ نومبر اور دسمبر میں روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں اس لیٸے آٹے کا بحران پیدا ہوا ان کے اس استدلال کو صحافی مذاق سمجھ کر مسکرانے لگے تو شیخ صاحب نے ان کے خیال کی سختی کے ساتھ ترید کرتے ہوٸے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہوں . وزرا ، مشیران اور خصوصی معاونین کی بہت سی دلچسپ باتیں ہیں جن کو میڈیا اور عوام مزے لے لے کر بیان کرتے رہتے ہیں مگر اپوزیشن کے کچھ رہنما وزیراعظم صاحب اور ان کے وزرا وغیرہ سے بغض اور حسد کے باعث اشتعال انگیز بیانات دے کر اپنے حسد کی آگ“ کو بھڑکانے کی ناکام ”کوشش“ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان داغ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ” وزیراعظم کو تو حُوریں نظر آتی ہیں مگر عوام کو موت کے فرشتے نظر آتے ہیں . اب خدا جانے مریم صاحبہ نے یہ کس نیت اور کس ارادے سے کہا ہے لیکن بقول کسے ”جو بھی کہا لاجواب “ کہا ہے کے مترادف ہے . 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارے ملک میں ایک ہی جماعت مسلم لیگ ن کی دو ہم نام خواتین مریم نواز صاحبہ اور مریم اورنگزیب صاحبہ بہت سرگرم اور فعال نظر آٸیں اور ان دونوں محترماٶں نے حکومت کے خلاف محاذ کھول کر مورچے سنبھال لیٸے . مریم نواز نے تو حکومت کے خلاف باقاعدہ بڑے بڑے جلسے اور جلوس کا انعقاد شروع کر رکھا جس کا پیمرا نے نوٹس لیتے ہوٸے ان کے جلسوں کو نیوز چینلز پر دکھانے پر پابندی عاٸد کر دی .
کبھی شوہر حضرات کو اپنی چیہتی بیویوں کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ شاید ان کو ایکدوسرے سے علیحدہ کیا جا سکے جس طرح آصف علی زرداری کو محترمہ بینظیر بھٹو علیحدہ کرنے کی کوششیں کی گٸیں مگر وہ تمام تر مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہے تا آنکہ موت کے فرشتے نے ان کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور شاید ایسے ہی اب مریم نواز اور ان کے شوہر کے درمیان بھی دراڑیں ڈالنے کیلیٸے مختلف طریقے آزماۓ جانے لگے یہی کچھ سوچ کر ایک صحافی نے کیپٹن صفدر سے سوال کیا کہ کیا آپ دوسری شادی تو نہیں کرنا چاہتے جس پر انہوں نے فوراً جواب دیا کہ نہیں نہیں میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کیوں کہ میری اہلیہ مریم صاحبہ میرے لیٸے جنت کی حُور ہیں . مریم نواز کو تو ان کے خاوند نے حور قرار دے دیا لیکن مریم اورنگزیب کے بارے میں ہم نے حور کا خطاب نہیں سنا ہے . ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر مرد کسی نہ کسی محبوب ہوتا ہے اور ہر عورت کسی نہ کسی کی محبوبہ ہوتی ہے یہ اور بات ہے کہ کسی مرد کو پانے کیلیٸے ہزاروں لاکھوں خواتین دل میں تمنا رکھتی ہیں تو کسی عورت کو پانے کیلیٸے ہزاروں اور لاکھوں مرد دل میں حسرت لیٸے پھرتے ہیں لیکن ہر ایک کی خواہش اور مرادیں پوری ہونا ممکن نہیں ہے ایسے خوش قسمت اور خوش نصیب بہت کم بلکہ لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں .
عشق اور رومانس سے صحافی حضرات بھی مبرا نہیں ہیں وہ بھی سینے میں کسی کیلیٸے بےترتیب دھڑکنے والا دل رکھتے ہیں. جس طرح ایک صحافی نے اپنے دور کی مقبول ترین گلوکارہ ناہید اختر کا انٹرویو کرتے ہوٸے اپنا دل دے بیٹھا تھا اور جواب میں ناہید اختر بھی اپنے دل کو قابو نہ رکھ سکی اور دونوں ہمیشہ کیلیٸے شادی کر کے ایک ہو گٸے یہاں تک کہ ناہید اختر نے گلوکاری اور صحافی نے اپنی صحافت چھوڑ دی . اس کے برعکس ہمارے عہد کے نامور صحافی اور دانشور سہیل وڑاٸچ نے وزیر اعظم کی مشیر براۓ اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کو اپنی لیلیٰ قرار دیتے ہوٸے اپنے ایک کالم میں ان سے ہونے والی عشقیہ واردات کی داستانِ غم سناٸی ہے کہ آج تک فردوس صاحبہ کی جانب سے ان کو مثبت جواب نہیں ملا ہے لیکن سہیل وڑاٸچ عاشقِ صادق ہیں وہ ابھی تک ثابت قدم اور پُر امید اور مایوس نہیں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بیشک فردوس صاحبہ مجھ سے نہ ملیں بس صرف اتنا کریں کہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیں تو میں اس کو ”ہاں“ سمجھوں گا اور میرے دل کی مراد پوری ہو جاۓ گی . سہیل وڑاٸچ کی طرح میری بھی ایک داستانِ الم ہے . میں ماضی کی مقبول گلوکارہ مہناز صاحبہ کو دل دے بیٹھا یہ بات تو ”کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا“ یا ”من کجا توکجا“ والی تھی لیکن کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گیا. میری خوش قسمتی ہے کہ میرا ان سے ٹیلیفون پر رابطہ ہو گیا اور وہ مجھ ناچیز پر رحم کھا کر مجھ سے باتیں کرتی تھی راتوں کو اکثر پی ٹی سی ایل کے فون پر ہماری گفتگو ہوتی رہتی تھی خدا جانے ان کے دل کا کیا معاملہ تھا جو میں ان سے نہ پوچھ سکا کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتیں . ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ سید زادی ہیں اور اہلِ تشعی ہیں . وہ اکثر رات کو امام بارگاہوں میں جا کر عبادت کرتی تھیں. پھر یوں ہوا کہ وہ اپنے بھاٸی کی طرف امریکہ جا رہی تھیں کہ بحرین کی ایٸر پورٹ پر ان کی اچانک طبیعت خراب ہو گٸی اور خالقِ حقیقی سے جا ملیں ان کی موت کی خبر سن کر مجھ ناچیز کے دل پر جو گزری وہ لفظوں میں بیاں نہیں ہو سکتا. بات نکلی دو مریم صاحبان کے موضوع پر اور کہاں سے کہاں پہنچ گٸی . اب حور والی مریم تو خاموشی کا روزہ رکھ چکی ہیں لیکن مریم اورنگزیب اب بھی پوری قوت کے ساتھ گرجتی رہتی ہیں اور فردوس عاشق بھی اپنی ذمیداریاں بھرپور طریقے سے نبھا رہی ہیں