سر زمینِ اولیا ملتان اس جہان تگ و دو میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اور نا ہی ملتان کا حوالہ صرف گرد ،گرما اور گورستان ہے۔بلکہ ملتان کی مٹی میں جذبہ حریت، یہاں کے پانی میں عزم وہمت اور یہاں کی سخت آب وہوا میں مٹی سے محبت کی ٹھنڈک اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف نفرت کی لُو بھی شامل ہے۔ وادی سندھ کا تہذیبی و ثقافتی مسکن ملتان نے ہر عہد میں ایک نئے بحران کا سامنا کیا مگر کبھی ملتان کی رونقیں ماند نہیں ہوئیں۔اسی لیئے ملتان کے لیئے سرائیکی کی کہاوت ہے کہ "جئیں نہ ڈٹھا ملتان، نہ او ہندو نہ او مسلمان" اسی طرح ہندی ادب میں ملتان سے متعلق ایک کہاوت ہے کہ "آگرہ اگر،دلی مگر،ملتان سب کا پدر"۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے اپنی کتاب کشف المعجوب میں لاہور کو یکے اس مضافاتِ ملتان کہا۔
جس طرح دلی بار بار اجڑ کر دوبارہ آباد ہوئی تو یہی کچھ ملتان کے ساتھ بھی ہوا۔ملتان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا وجود قبل از تاریخ دومالائی دور سے بھی پہلے کا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملتان اور قلعہ ملتان کی تاریخ کم وبیش پانچ ہزار سال پرانی ہے ۔ملتان کو 1200 قبل مسیح میں دارشکوہ نے فتح کرکے تباہ کردیا۔327 قبل مسیح میں سکندراعظم کی فوجوں نے گجرات اور جہلم فتح کرنے کے بعد ملتان کا رخ کیا ۔ملتان کے لیئے گھمسان کی لڑائی ہوئی اور آدھی دنیا کا فاتح سکندر ملتان کی لڑائی میں پہلی بار کمر میں تیر لگنے سے زخمی ہو گیا اور مقدونیہ واپسی کے سفر میں سکندر اعظم کا یہ زخم جان لیوا ثابت ہوا۔اس کے بعد 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے ملتان کو فتح کیا۔997 عیسوی میں محمود غزنوی نے ملتان کو فتح کیا۔ اس کے بعد ملتان ہر بیرونی حملہ آور کا پہلا میدان جنگ رہا یا پھر برصغیر کا وہ دروازہ کہہ لیں جس پر ہر بیرونی حملہ آور نے آ کر دستک دی ہے۔
1707 میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد عملی طور پر مغلوں کا زوال شروع ہو گیا۔محلاتی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں اور شاہی خاندان کا ہر فرد دہلی کے تخت پر بیٹھنے کے لیئے سازشیں کرنے لگا جس سے مغل حکومت کمزور ہوتی گئی ایسے میں سکھوں کا فتنہ شروع ہوا۔لاہور کے تین حکمرانوں جس میں گوجرسنجھ، لہنا سنگھ اور سوبھاسنگھ شامل تھے کے مظالم سے تنگ آ کر اہل پنجاب اور بالخصوص اہل لاہور نے رنجیت سنگھ کو لاہور پر قبضے کی دعوت دی ۔یہاں سے پنجاب میں تباہی وبربادی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔1799 میں لاہور پر قبضہ کے بعد رنجیت سنگھ نے ملتان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی ۔1738 میں ملتان میں زاہد خان سدوزئی کو نواب مقرر کیا گیا۔1748 میں نواب زاہد خان کی وفات ہوئی تو 1757میں مرہٹوں نے ملتان پر قبضہ کرلیا۔ احمد شاہ ابدالی نے یہ قبضہ ختم کرا کے نواب زاہد کے بیٹے نواب شجاع خان کو ملتان کا نواب مقرر کر دیا۔ شجاع آباد کا شہر نواب شجاع خان کے نام پر بسایا گیا ہے۔1773 میں نواب شجاع کی وفات کے بعد تیمور شاہ نے نواب شجاع کے بیٹے مظفر خان کو نواب رکن الدولہ کا خطاب دے کر 1779 میں ملتان کا نواب مقرر کر دیا۔ افغان حکومت کی طرف سے نواب مظفر خان سدوزئی ملتان کا آخری نواب تھا۔ نواب مظفر خان نے حفاظتی نقطہ نگاہ سے مظفرگڑھ کا قلعہ تعمیر کروایا اور اس کے چار دروازے جس میں مشرقی طرف ملتانی دروازہ ،مغربی سمت قندھاری دروازہ، شمالی جانب پشاوری دروازہ اور جنوبی سمت بہاولپوری دروازہ بنائے گئے۔ بعد ازاں یہ علاقہ مظفر گڑھ کے نام سے مشہور ہوا۔نواب مظفر خان نے ملتان اور مظفرگڑھ کی زمینوں کی آبپاشی کے لیے نہری نظام قائم کیا۔مسافروں کے لیے سرائے تعمیر کرائیں اور طلبا کے لیے وظائف مقرر کیئے۔
1818 تک نواب مظفر خان ملتان کا حاکم رہا اور اس دوران اُس نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔نواب مظفر کے عہد میں سکھوں نے ملتان پر سات حملے کیے جس میں 1802۔1804۔1807۔1810۔1812۔1817 تک سکھ ملتان پر متواتر حملے کرتے رہے تاہم ہر بار ناکام ہوے ۔1818 فروری میں رنجیت سنگھ نے اپنی فوج ملتان روانہ کی اور اپنی مشہور زمانہ توپ زمزمہ بھی فوج کے ساتھ ملتان بھیجی۔سکھ فوج نے ملتان کا محاصرہ کر لیا۔چار ماہ تک جاری رہنے والے محاصرے میں ملتان کے لیے راشن اور پانی کی فراہمی بند کردی گئی ۔جون کی جھلسا دینے والی گرمی شروع ہوئی تو جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا۔سکھ فوج کی طرف سے نواب مظفر کو پیغام بھیجا گیا کہ شہر حوالے کردو تو جان کی امان مل جائے گی نواب مظفر نے جواب دیا کہ جان کی امان نہیں ایمان کی امان چاہتا ہوں شہر کی چابیاں حوالے نہیں کروں گا۔2 جون کو نواب مظفر بیٹوں اور ایک بیٹی اور جانثاروں کے ہمراہ سکھ فوج کے مقابلے کو نکلے۔ نواب مظفر کے تین بیٹے اور ایک بیٹی اس جنگ میں شہید کردئیے گئے۔باقی بچ جانے والے بیٹوں اور جانثاروں کو قیدی بنا کر تخت لاہور روانہ کردیا گیا۔ سکھوں نے ملتان فتح کر کے ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔یہاں کی عورتوں نے کنووں میں چھلانگ لگا کر اپنی عصمت تو بچا لی مگر زندگی کی بازی ہاردی۔ان کنووں کو اجتماعی قبریں بنا کر بند کردیا گیا۔
2 جون کا دن سرائیکی وسیب میں سقوطِ ملتان کی یاد میں یوم ساہ کے طورپر منایا جاتا ہے ۔سرائیکی وسیب کے اس عظیم شہر پر 1818 میں ہونے والا قبضہ 203 سال بعد بھی قائم ودائم ہے۔یہاں کے حکمران تبدیل ہوئے ہیں جبکہ طرز حکمرانی بدستور وہی ہے۔سکھوں کے دور سے سرائیکی وسیب کو تخت لاہور کے ماتحت کر دیا گیا۔دو سو دو سال سے تخت لاہور کی غلامی میں اپنی شناخت نا ملنے پر سرائیکی وسیب یوم سیاہ نا منائے،احتجاج نا کرئے تو اور کیا کرئے۔2 جون محض سقوط ملتان کا دن نہیں بلکہ اپنی مٹی سے وفا اور اپنی پہچان سرائیکی صوبے کے حصول اور تخت لاہور سے نجات کے بنیادی حق کی تجدید کا دن بھی ہے۔