سرکاری سکول کے پھٹے ٹاٹ پر بیٹھا ایک سہما ہوا بچہ سخت سردی میں کیا تعلیم حاصل کر سکتا ہے؟ مدرسے کا معصوم ذہن گھر گھر ایک ہی بالٹی میں مختلف سالن اور لوگوں کی بے حسی ڈلوا کر کیا سیکھ سکتا ہے؟ یونیورسٹی کا لڑکا جدید دنیا کے مضامین پڑھاتے پرانے ذہن کے لوگوں سے کیا سیکھ سکتا ہے؟ مہنگے سکولوں میں پڑھتا امیر بچہ معاشرے کی ضروریات سے مطابقت رکھتی سوچ کیسے سیکھ سکتا ہے؟
تعلیمی نظام پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف متوازی نظام چل رہے ہیں۔جیسے ایک سینما گھر میں مختلف فلمیں ایک ساتھ چلا دی گئی ہوں۔آپ کا دو جمع دو میرا چار نہیں بن رہا۔ میرا دو جمع دو آپکا۔ ایسا نہیں کہ اختلاف ہونا نہیں چاہیے مگر یہاں اختلاف تعمیری نوعیت کا یا علمی نہیں ہوتا محض تعصب یا نظریات کی بنیاد پر۔ یہاں اختلاف دراصل اُس سوچ کا ہے جو اوپر دیے گئے متوازی نظامِ تعلیم سے آیا۔
“قوم کو ایک پیج پر آنا چاہیے” کہنے والوں نے پیج بنا بنا کر کتابیں لکھ دیں۔ اب سب سمجھتے ہیں کہ اُنکا پڑھا پیج ہی وہی پیج ہے جس پر سب کو آنا چاہیے۔ قومیں کیسے بنتی ہیں۔ ایک پیج پر آ کر نہیں، ایک مقصد پر آ کر۔ یہاں دونوں میں فرق ہے۔ مقصد کا حصول کئی طریقوں سے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے تحت ہوتا ہے۔ جبکہ پیج پر آنا دراصل ہر ایک کو منوا کر کسی “خاص مقصد” پر آمادہ کرنا ہے۔ پہلا اختیاری ہے، دوسرا جبری ۔
مقصد کیسے آئے گا؟ ملکیت کے احساس سے؟ آپ کبھی گھر میں کوڑا پھینکتے ہیں ویسے ہی جیسے گلی محلوں میں پھینکتے ہیں؟ نہیں۔ کیونکہ گھر آپکی ملکیت ہے۔ ملکیت کا احساس کیسے آتا ہے؟ بنیادی تعلیم اور تربیت میں شہریت کے حقوق اور فرائض سمجھا کر۔
باہر کے ممالک میں یہ احساس آپکو نعروں اور جذبات میں وطن کے لیے لڑنے مرنے کے ارادوں سے نہیں سکھایا جاتا۔ ایک ذمہ دار شہری جو قانون کی پاسداری کرے، ٹریفک سگنل نہ توڑے، ماحول کا خیال کرے، دوسروں کی مدد کرے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سکولوں میں سکھایا جاتا ہے۔ بچوں کو محض سکول کی چار دیواری میں قید رکھ کر اُن میں سافٹ ویئر نہیں ڈالا جاتا۔ اُنہیں باہر لے جایا جاتا ہے ، دنیا میں۔ بس کا ٹکٹ کیسے خریدنا ہے؟ پبلک ٹرانسپورٹ کیسے استعمال کرنی ہے؟ کوڑا کرکٹ کہاں پھینکنا ہے ؟ اشارے پر کیسے رکنا ہے؟ فطرت کے قریب رہ کر اسکا خیال کیسے کرنا ہے۔ اس حوالے سے پارکوں میں لے جایا جاتا ہے۔ آؤٹ ڈور ایکٹیویٹیس کرائی جاتی ہیں۔ غرض یہ کہ مہذب معاشرے کا انسان بنا کر تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر گنگا اُلٹی بہتی ہے۔ بڑے سکولوں میں تعلیم دے کر انسان بنانے کی نہیں انجنیئر ، ڈاکٹر یا ڈگری حاصل کرنے والے روبوٹ بنائے جانے کی تربیت ہوتی ہیں۔
ایسے میں کونسی ملکیت کا احساس اُبھرے گا؟ اور جب یہ احساس نہیں ہو گا تو ایک مقصد کیسے حاصل ہو گا؟ جدھر دیکھیں گے چوں چوں کا مربہ بی ملے گا کہ نظامِ تعلیم ہی بے سمت ہے۔
تعلیمی نظام میں بہتری وقت کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا نظام درکار ہے جو جدید سائنسی اُصولوں، بچوں کی نفسیات اور سیکھنے کے عمل سے مطابقت رکھتا ہو۔ بچوں کو سکھانے سے پہلے اساتذہ کو سکھانا ضروری ہے۔ تعلیمی بجٹ بڑھانا ضروری ہے۔درسی کتابوں کو جدید اور نئی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ سائنسی اور معاشرتی مضامین کی ضرورت ہے۔ مقامی زبان میں یکساں تعلیم ضروری ہے۔ تعلیم کو کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی بیرونی اثرات سے پاک کرنا ضروری ہے۔ بنیادی تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ ضروری ہے۔ ورنہ ریاست کے ڈسے, اصل اور تعمیری سوچ سے محروم ڈاکٹر، انجنئیر، سائنسدان ، بیوروکریٹ ، جج، وکیل، صحافی، دانشور، غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں دولو شاہ کے چوہے پیدا ہوتے رہینگے۔ دو جمع دو چار کرنا سیکھیں۔ چاہے “ٹو پلس ٹو ہو” یا “دو دونی” ، یہ چار ہی ہوتا ہے۔ آپ بھولے ہیں، دنیا نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...