میں رویا اورٹوٹ کر رویا۔ میں نے سسکیاں لیں، میری ہچکی بندھ گئی، میری سفید داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، میری آنکھیں سُوج گئیں، میرے رخساروں پر تیز کٹیلے آنسوؤں سے گڑھے پڑ گئے جیسے میرے آنسوؤں میں نمک نہیں تھا،
تیزا ب تھا، شکیب جلالی نے یہ شعر میرے ہی لئے تو کہا تھا…ع
کیا کہوں دیدہء تر! یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
اس ملک کی باسٹھ سالہ تاریخ میں میں پہلا وزیر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ایک طرف میری وزارت کا وفاقی سیکرٹری کھڑا تھا جو مجھے چُپ کرانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف میرا پرائیویٹ سیکرٹری رومال سے میرے آنسو پونچھ رہا تھا۔ سامنے وزارت کے دوسرے افسر اور اہلکار درجہ بدرجہ کھڑے تھے اور سب پریشان تھے۔
’’سرکار! کچھ بتائیں تو! آخر کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ وفاقی سیکرٹری نے خالص افسرانہ لہجے میں، جسے چاپلوسی کا تڑکا لگا تھا، پوچھا میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو وفاقی سیکرٹری کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی اس نے اسے نیچا دکھاتے ہوئے میرے رخساروں پر رومال قدرے زور سے رگڑا اور پوچھا:
’’سر! کہیں آپ اس لئے تو نہیں رو رہے کہ قاف لیگ کے رکن اسمبلی جناب رضا حیات ہراج نے دھمکی دی ہے کہ وہ اگر ایک خط سامنے لے آئیں تو ایوان میں بیٹھے قائدین کو منہ چھپانے کیلئے جگہ نہیں ملے گی۔‘‘
سر! کہیں وہ خط آپ نے تو نہیں لکھا؟‘‘ اب وفاقی سیکرٹری نے پوچھا کہ آپ کہیں اس لئے تونہیں رو رہے کہ آخر رضا حیات ہراج وہ خط دکھا کیوں نہیں دیتے؟ انہیں دکھانے سے منع کیا ہے؟‘‘
میرے نائب قاصد نے آگے بڑھ کر کہا کہ ’’وزیر صاحب شاید اس لئے رو رہے ہیں کہ رضا حیات ہراج صاحب نے کہا کہ ان کی گردن اتنی نہ دبائی جائے کہ زبان نکل آئے۔ وزیر صاحب یقیناً وہ منظر تصور میں لا کر رو رہے ہیں جب زبان باہر نکلی ہوئی ہو۔‘‘
اب افسروں کی باری تھی ایک سیکشن افسر کا خیال تھا کہ میں وزیر پٹرولیم سید نوید قمر کی اس بات پر رو رہا ہوں کہ سوئی ناردرن نے اگر LUMS کو دس کروڑ روپے چندہ دیا ہے تو یہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ گویا نوید قمر کا فلسفہ یہ ہے کہ جرم پرانا ہو جائے تو دُھل جاتا ہے!
میں نے زور کی ایک دھاڑ اور ماری اور بھاں بھاں کر کے مزید رویا۔ ایک ڈپٹی سیکرٹری نے سب کو مخاطب کیا ’’بے وقوفو! وزیر صاحب نے نون لیگ کے رہنما حنیف عباسی کا یہ انکشاف پڑھا ہے کہ سندھ کے ایک ہزار سات سو سکولوں پر وڈیرے قابض ہیں۔ یقیناً ان کے رونے کی وجہ یہ انکشاف ہے۔ کون پتھر دل ہو گا جو اس شرم ناک بات پر آنسو نہیں بہائے گا۔
ایک جوائنٹ سیکرٹری نے دھکا دے کر ڈپٹی سیکرٹری کو آگے سے ہٹایا اور کہنے لگا کہ وزیر صاحب قومی اسمبلی کے ان اٹھارہ ارکان کی دیانتداری، شرافت اور حلال خوری پر رو رہے ہیں جو کرایہ ادا کئے بغیر گورنمنٹ ہوسٹل میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے ہزاروں لاکھوں روپے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو دینے ہیں اور نہیں دے رہے اور دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ چوہوں کی طرح دبک کر بیٹھا ہے اور کوئی ایکشن نہیں لے رہا۔ وزیر صاحب کو افسوس ہے کہ وہ اتنی ایماندار برداری سے تعلق رکھتے ہیں!
وزارت کا ایک ڈرائیور اٹھا اور اس نے تقریر کرنے کے انداز میں خدشہ ظاہر کیا کہ شاید وزیر صاحب اس لئے سسکیاں بھر رہے ہیں کہ جناب امین فہیم وزیر تجارت نے اپنے دور وزارت کے پہلے ہی سال تیس مہنگی
LUXURY
گاڑیاں خرید لیں جن پر چار کروڑ روپے خرچ ہوئے اور یہ وہی سال ہے جس کے دوران وفاقی وزیر خزانہ کے بیان کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ وزیر صاحب یقیناً جناب امین فہیم کی حب الوطنی اور دل سوزی و درد مندی پر رو رہے ہیں۔ اس سے پہلے جب جناب امین فہیم نے اپنی صاحبزادی کو مقابلے کا امتحان پاس کئے بغیر فارن سروس میں فائز کرایا اور بیرون ملک وہ بھی یورپ میں… تعینات کرایا اور یوں میرٹ پر احسان عظیم کیا اور اپنے انصاف پسند اور خداترس ہونے کا ثبوت دیا تب بھی وزیر صاحب بھُوں بُھوں کر کے روئے تھے۔‘‘
خرافات سُن سُن کر میں تنگ آ چکا تھا۔ میں نے روتے روتے گھگھپانے کی خوفناک آواز نکالی، ایک بار پھر ہچکی باندھی اور ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش کیا اور کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ملک کے عوام کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور ہم ہیں کہ عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ہم کتنے بے حس کتنے سنگ دل اور کتنے ظالم ہیں! یہ کہہ کر میں نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سب حاضرین کا ترا نکل گیا۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنا بیان جاری رکھا۔
’’محترمہ کے غم میں اور عوام کے درد میں دوسری وزارتوں نے بہت کچھ کیا ہے اور میری وزارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ یہ جمود، یہ بے عملی ناقابل برداشت ہے اور یہی میرے رونے کا سبب ہے!‘‘
وفاقی سیکرٹری سے لے کر نائب قاصد تک سب ہمہ تن گوش تھے اور سب کے چہروں پر ندامت کے آثار ہویدا تھے… کچھ افسروں نے تو باقاعدہ اپنے چہروں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے شروع کر دیئے۔ میں نے تقریر میں سوز پیدا کیا اور کہا کہ رونے پیٹنے سے کیا فائدہ! ہمیں چاہیے کہ میدان عمل میں آگے بڑھیں۔ دیکھو، ہر وزارت اخبارات میں نصف اور چوتھائی صفحے کے اشتہارات شائع کرا رہی ہے جن پر محترمہ شہید کی اور صدر زرداری اور وزیراعظم کی اور وزیر کی تصویر ہوتی ہے۔
وزارت صنعت نے گوجرانوالہ ٹول سنٹر کا لاکھوں، کروڑوں روپے کا اشتہار شائع کر کے ملک کو صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے وزیر نے بھی خوب خوب اشتہار بازی کی ہے۔ متروکہ املاک کے چیئرمین تو سب سے بازی لے گئے اور محترمہ فرزانہ راجہ بھی قوم کی اس خدمت میں پیچھے نہ رہیں۔ اس طرح عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا ہوا قومی خزانہ عوام ہی پر خرچ ہوا کیونکہ عوام ہی نے یہ اشتہارات پڑھے اور ان کے دل اور جگر ٹھنڈے ہوئے۔ بدبختو! تم بھی میری طرف سے اور میری وزارت کی طرف سے پورے صفحے کا اشتہار تمام قومی اور علاقائی اخبارات میں شائع کراؤ۔ اس پر نہ صرف صدر زرداری اور بے نظیر شہید اور وزیراعظم گیلانی کی تصویریں ہوں بلکہ محترمہ نصرت بھٹو، بلاول، ان کی دونوں بہنوں ان کی خالہ محترمہ اور دونوں شہید ماموؤں کی تصویریں بھی ہوں۔
وزیراعظم گیلانی صاحب کے بھی تمام قریبی رشتہ داروں کی تصویریں اس اشتہار میں ہوں۔ رہا، میں تو میری، میری گھر والی کی اور میرے بال بچوں کی تصویریں بھی ضرور ہوں۔ ہر ایک نے پارٹی کا جھنڈا پکڑا ہوا ہو اور عوام کی خدمت کرتا ہوا نظر آئے۔ اب اشتہار جاذب نظر ہو اور کئی رنگوں پر مشتمل ہوتا کہ وزارت کا پورے سال کا بجٹ اس پر قربان ہو جائے۔ یہ ملک اسی طرح ترقی کرے گا۔ محترمہ شہید کو نذرانہ پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے اور یہی وہ بہترین دو ہتھڑ ہے جو ہم اپنے سینوں پر نہیں بلکہ چہروں پر مار سکتے ہیں!‘‘