’’دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے باپ میں‘‘
وہ پاکستان کی نہیں
بانی پاکستان کی بیٹی تھی
اور اس نے اس ملک سے کچھ نہیں مانگا
نہ صدارت
نہ وزارت
نہ سفارت
کچھ بھی نہیں!
اس نے اس ملک سے کچھ نہیں لیا
نہ کوٹھی
نہ بنگلا
نہ فارم ہاؤس
ایک فلیٹ بھی نہیں!
اس نے اس ملک سے کبھی نہیں پوچھا
اس کا پاپا کس طرح مرگیا؟
اس کی پوپھی کو کس نے قتل کیا؟
اس کے خاندان کا خون کیوں ہوا؟
اس نے کبھی کوئی بیان نہیں دیا
اس نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی
اس نے کچھ کلیم نہیں کیا
سبز حلالی کفن بھی نہیں!
وہ خاموش خاتون
اپنے والد کی طرح خودار تھی
وہ عورت جو اپنے باپ کی طرح
بہت باوقار تھی
وہ عورت اب اس دنیا میں نہیں
اور اس ملک میں اس کے نام پر
کوئی گھر؛ کوئی گلی اور کوئی کرکٹ گراؤنڈ بھی نہیں
اس عورت کا تذکرہ کسی درسی کتاب میں نہیں
وہ امیر اسٹائل کی فقیر عورت
صدا دیے بغیر چلی گئی
اورساحل سمندر کی اداس ہوا نے ٹہر کر
پاکستان کا پرچم سرنگوں کردیا
آج رات شبنم اس کی یاد میں روئے گی
اور کل صبح مذار قائد کے گنبذ پر
اوس کے الفظ میں لکھی ہوگی یہ تحریر
’’دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے باپ میں‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔