وار فِکشن ۔ 4
فرانسیسی افسانہ
دو دوست (Deux amis)
موپساں
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
( نوٹ ؛ میں آج کل ' وار فِکشن ' کے حوالے سے کچھ افسانے ترجمہ کر رہا ہوں ۔ ایسے میں مجھے موپساں کا خیال آیا ۔ اس نے بھی جوانی میں فرانکو ۔ پروشین جنگ میں حصہ لیا تھا اور اس کی کئی کہانیاں اسی جنگ کا پس منظر رکھتی ہیں ۔ میں نے اس کے ایسے کچھ افسانے دیکھے اور مجھے ' وار فِکشن ' کے حوالے سے درج ذیل افسانہ ترجمے کے لئے پسند آیا ۔ ' وار فِکشن ' کے حوالے سے یہاں پیش کیا گیا یہ چوتھا افسانہ ہے ۔ )
پیرس چاروں طرف سے محصور اور قحط کی لپیٹ میں تھا ۔ چھتوں پر چڑیاں اور زمین دوز نالیوں میں چوہے بھی کم ہو گئے تھے ۔ لوگ ہر وہ شے کھانے لگے جو وہ کھا سکتے تھے ۔
موسیو موریسوٹ ، جو پیشے کے لحاظ سے گھڑی ساز تھا اور ان حالات میں بیکار بھی ، ایک سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا ۔ یہ جنوری کی ایک روشن صبح تھی ۔ اس کے ہاتھ جیبوں میں جبکہ پیٹ خالی تھا ۔ اچانک اسے ایک چہرہ شناسا لگا ۔ ۔ ۔ یہ مچھلی کے شکار کا شوقین موسیو ساویج تھا ۔
جنگ چھڑنے سے پہلے موریسوٹ کا معمول تھا کہ وہ ہر اتوار کو کمر پر ٹین کا ایک ڈبہ لٹکائے اور ہاتھ میں بانس کی چھڑی لئے ’ ارگینٹئل‘ گاڑی پکڑتا ،’ کولومبس‘ پر اترتا اور پیدل چلتا ہوا ’ لائی میرینیٹ ‘ جا پہنچتا ۔ جیسے ہی وہ اپنے خوابوں میں بسی جگہ پر پہنچتا ، وہ مچھلی کا شکار شروع کر دیتا اور اس کا یہ شغل رات پڑنے تک جاری رہتا ۔
اسے ، ہر اتوار ، موسیو ساویج بھی وہیں نظر آتا ۔ موسیو ساویج ’ ریوناٹرے ڈیم دی لوریٹے‘ میں ایک درزی تھا ۔ وہ ایک خوش مزاج ، فربہ لیکن چھوٹے قد کاآدمی تھا اور مچھلی کے شکار کا شوق بھی رکھتا تھا ۔ وہ تقریباً آدھا دن ساتھ ساتھ گزارتے ۔ ان کے ہاتھوں میں بنسیاں ہوتیں ، پاﺅں پانی میں ڈوبے ہوتے ۔ یوں ان کے درمیان اچھی دوستی پیدا ہو گئی تھی ۔
کبھی وہ خاموش بیٹھے رہتے جبکہ کبھی خوب باتیں کرتے ؛ لیکن وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے کیونکہ ان کے جذبات اور پسند ناپسند ایک جیسی تھی ، جن کے اظہار کے لئے انہیں الفاظ کے سہارے کی ضرورت نہ تھی ۔
موسم بہار میں ، صبح دس بجے کے قریب ، سورج جب بہتے پانی پر ایک ہلکی دھند کا باعث بنتا اور نرمی سے ان دونوں بنسی بازوں کی کمروں کو گرمائش پہنچاتا تو کبھی کبھی موریسوٹ اپنے پاس بیٹھے ساویج سے کہتا ؛
” آہاہ ، یہ جگہ کتنی خوشگوار ہے ۔“
دوسرا اس کا جواب یوں دیتا ؛
” میں بھی اس سے زیادہ بہتر جگہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔“
اور یہی چند الفاظ ، ان کے درمیان تعریف اور سمجھ کے لئے کافی ہوتے ۔
موسم خزاں میں جب دن ڈھل جاتا ، سورج مغرب کی طرف آسمان پر خون جیسی چمک پھیلا دیتا اور قرمزی بادل سارے دریا پر لالی بکھیر دیتے تو درخت بھی اس میں نہا جاتے ، جن کے پتے سردیوں کے آغاز کی خنکی سے پہلے ہی مڑے ہوتے ۔ ایسے میں ان دونوں دوستوں کے چہرے بھی چمک اٹھتے اور موسیو ساویج کبھی کبھار مسکراتے ہوئے کہتا ؛
” کیا شاندار نظارہ ہے ۔“
اور موریسوٹ اپنی بنسی سے نظر ہٹائے بغیرجواب دیتا؛
” یہ سڑک کے نظارے سے کہیں بہتر ہے ۔ہے نا؟“
جیسے ہی ان دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا ، انہوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔ بدلے ہوئے حالات ان دونوں پر بھی بری طرح سے اثر انداز ہوئے تھے ۔
موسیو ساویج آہ بھرتے ہوئے بُڑبُڑایا ؛
” یہ بہت المناک وقت ہے !“
موریسوٹ نے بھی سوگ بھرے انداز میں سر ہلایا ۔
” اور ایسا موسم ! یہ سال کا پہلا سہانا دن ہے ۔“
اس روز آسمان ، سچ میں ، بادلوں کے بغیر روشن اور نیلا تھا ۔ وہ دونوں اداسی اور سوچ میں ڈوبے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔
” اور مچھلی کے شکار کی بات کریں تو ! “ ، موریسوٹ نے کہا ، ” ہم کتنااچھا وقت گزارا کرتے تھے ! “
” ہم ، نجانے کب ، پھر سے مچھلی پکڑنے کے قابل ہو سکیں گے ؟ “ ، موسیو ساویج نے کہا ۔
وہ ایک چھوٹے سے کیفے میں داخل ہوئے اور ’ ایبسنتھے‘ کا ایک ایک جام پیا اور سڑک کے کنارے بنی پٹری پر پھر سے چلنا شروع کر دیا ۔ موریسوٹ اچانک رک گیا ۔
” کیا ہم ایک ایک جام اور نہ پیئں ؟ “ ، اس نے کہا ۔
” اگر تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔“ ، موسیو ساویج نے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔
وہ ایک اور مئے خانے میں داخل ہوئے۔ اور جب وہ واپس باہر آئے تو خاصے ڈول رہے تھے ۔ ان کے خالی معدوں پر الکحل کا خاصا اثر ہوا تھا ۔ یہ ایک خوشگوار لطیف دن تھا اور ہوا نرمی سے ان کے چہروں سے ٹکڑا رہی تھی ۔
تازہ ہوا نے موسیو ساویج پرشراب کے اثر کو اور بھڑکایا ، وہ اچانک رکا اور کہنے لگا ؛
” فرض کرو کہ ہم وہاں جاتے ہیں ؟ “
” کہاں ؟ “
” مچھلی کا شکار کرنے “
” لیکن کہاں؟ “
” مطلب ؟ وہیں پرانی جگہ ۔ فرانسیسی چوکی کولومبس کے نزدیک ہے ۔ میں کرنل ڈومولن کو جانتا ہوں اور ہم باآسانی وہاں سے گزر سکتے ہیں ۔“
خواہش ، موریسوٹ پر حاوی ہوئی اوروہ اس کی شدت سے کانپا ۔
” بہت اچھا ۔ میں رضامند ہوں ۔“
وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے تاکہ اپنی اپنی بنسیاں اور ڈوریاں لا سکیں ۔
ایک گھنٹے بعد وہ بڑی سڑک پر ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ وہ اس گھر پر پہنچے جس میں کرنل نے رہائش اختیار کر رکھی تھی ۔ وہ ان کی عرض سن کر مسکرایا اور اجازت دے دی ۔ ’ پاس ورڈ ‘ حاصل کرنے کے بعد وہ پھر چلنا شروع ہو گئے ۔
جلد ہی چوکی پیچھے رہ گئی اور وہ ویران کولومبس سے گزرتے چلے گئے ۔ اب وہ ’ سین‘ کی سرحد کے پاس ایک چھوٹے ’ وائن یارڈ ‘ تھے ۔ اس وقت لگ بھگ گیارہ بج رہے تھے ۔
ان کے سامنے ’ ارگینٹئل‘ کا گاﺅں تھا ۔ اس میں بھی زندگی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔’ آرگیمنٹ ‘ اور ’ سینوئس ‘ کی بلندیاں منظر پر حاوی تھیں ۔ بڑا میدانی علاقہ ’ نینتری‘ تک پھیلا ہوا تھا ۔ یہ بھی خالی تھا ، ایسا خالی کہ سوائے پتھر ہوئی مٹی اور ننگے چیری کے درختوں کے سوا وہاں کچھ نہ تھا ۔
موسیو ساویج بلندیوں کی طرف دیکھتے ہوئے بُڑبُڑایا ؛
” پروُشین وہاں اوپر ہیں !“
ویران مضافاتی منظر نے دونوں دوستوں میں مبہم بے یقینی پید کر دی ۔
انہوں نے ’ پروُشین فوج‘ کو ابھی تک دیکھا نہ تھا لیکن انہوں نے اس کی موجودگی پیرس کے گرد و نواح میں محسوس ضرور کی تھی کیونکہ وہ کئی مہینوں سے فرانس کو روندتے ، لوٹ مار کرتے ، قتل و غارت کرتے ہوئے انہیں بھوکا رہنے پر مجبور کررہے تھے ۔ اس اجنبی اور فاتح قوم کے بارے میں ، ایک توہماتی خوف ، جس میں نفرت بھی ملی ہوئی تھی ، ان پر طاری تھا ۔
” فرض کرو ، ہم ان میں سے کسی کو ملتے ہیں ؟ “ ، موریسوٹ نے کہا ۔
” ہم انہیں کچھ مچھلیاں دے دیں گے “ ، موسیو ساویج نے پیرس کے باسیوں کی فراخ دلی اور خوش اخلاقی ، جسے کوئی مکمل طورختم نہیں کر سکتا ، کے ساتھ جواب دیا ۔
وہ ، لیکن ، پھر بھی ، اپنے ادرگرد پھیلی مکمل خاموشی سے ڈر کر کھلے مضافات میں آگے جانے سے ہچکچا رہے تھے ۔
بالآخر موسیو ساویج نے ہمت کرتے ہوئے کہا ؛
” چلو، ہم شروع کرتے ہیں ؛ بس ہمیں محتاط رہنا ہو گا ۔ “
اور وہ جھک کر چلتے ہوئے’ وائن یارڈز‘ میں انگوروں کی بیلوں کے سائے تلے چوکنے انداز میں آگے بڑھنے لگے ۔
دریا کے کنارے پہنچنے سے پہلے ننگی زمین کی ایک پٹی پار کرنا ابھی باقی تھی ۔ وہ اس پر بھاگے اور جیسے ہی وہ دریا کے کنارے پر پہنچے ، انہوں نے خود کو جنگلی گھاس کی اوٹ میں چھپا لیا ۔
موریسوٹ نے اپنا کان زمین کر لگایا تاکہ یہ یقین کر سکے کہ کہیں قدموں کی آواز تو نہیں آ رہی ۔ اسے کچھ سنائی نہ دیا ۔ وہ بالکل اکیلے تھے ۔
ان کا اعتماد بحال ہوا اور انہوں نے مچھلیوں کا شکار شروع کیا ۔ ان کے سامنے ویران ’ لائی میرینیٹ ‘ پھیلا ہوا تھا جس نے انہیں دریا کے دور والے کنارے سے اوجھل کر رکھا تھا ۔ وہاں موجود ایک چھوٹا ریستواں بھی یوں بند تھا جیسے سالوں سے ویران ہو ۔
موسیو ساویج نے پہلی مچھلی پکڑی اور دوسری موسیو موریسوٹ نے اور پھر تقریباً ہر لمحے ایک یا دوسرا اپنی ڈوری اوپر کرتا تو اس کے سرے پر ایک چھوٹی ، چمکیلی چاندی جیسی مچھلی پھڑپھڑا رہی ہوتی ؛ وہ عمدہ طریقے سے اور کامیابی سے مچھلیاں پکڑ رہے تھے ۔
وہ اپنے شکار کو اُس باریک جالی دار تھیلے میں ڈالتے جاتے جو ان کے قدموں میں پڑا ہوا تھا ؛ وہ مسرور تھے ۔ ۔ ۔ یہ خوشی ماضی کے اس خوش کُن وقت کی یاد دلا رہی تھی جس سے انہیں طویل عرصے سے محروم کر دیا گیا تھا ۔
سورج ان کی پشت پر اپنی شعاعیں ڈال رہا تھا ؛ انہوں نے نہ کچھ سنا اور نہ ہی کچھ سوچا ۔ وہ باقی ساری دنیا کو بھلا چکے تھے اور بس مچھلیاں پکڑ رہے تھے ۔
لیکن پھر اچانک ایک گونجدار آواز ایسے آئی جیسے زمین اندر سے پھٹ گئی ہو ، یہ ان کے نیچے کانپی ؛ توپوں کی گولہ باری شروع ہو گئی تھی ۔
موریسوٹ نے گردن گھمائی اور اپنے بائیں طرف دیکھا ۔ دریا کے کناروں سے پرے ’ مونٹ ویلیرین ' کا مضبوط قلعہ نظر آرہا تھا جس کی فصیل سے سفید دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے ۔ ایک کے بعد دوسرا مرغولہ اٹھا اور چند لمحوں بعد ہی نئے گولے نے ایک بار پھر زمین کو ہلا کر رکھ دیا ۔
اور بھی گولے داغے جاتے رہے ، منٹ منٹ بعد یہ توپیں گرجتیں اور گولے اگلتیں جن کے بعد دھویں کے نئے مرغولے نکل کر اس پرامن جنت میں اٹھتے رہے اور چٹانوں کے اوپر تیرتے رہے ۔
موسیو ساویج نے اپنے کندھوں کو جھٹکا دیا ۔
” وہ دوبارہ شروع ہو گئے ہیں ۔“ ، اس نے کہا ۔
موریسوٹ جو اپنی ڈوری ، جو اوپر نیچے ہو رہی تھی ، کو بے تابی سے دیکھ رہا تھا ، اچانک غصے میں آیا اور ایک پرامن آدمی کی سی بے صبری سے اس طرف متوجہ ہوا جہاں پاگل آدمی گولہ باری کر رہے تھے اور برہمی سے بولا ؛ ” یہ کون بیوقوف ہیں جو یوں ایک دوجے کو ہلاک کر رہے ہیں ! “
” یہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں “ ، موسیو ساویج نے جواب دیا ۔
اور موریسوٹ ، جس نے اسی وقت ایک ’ بلیک‘ مچھلی پکڑی تھی ، نے کہا ؛
” اگر سوچا جائے تو یہ سب ایسا ہی رہے گا جب تک ریاستیں موجود ہیں ! “
” ری۔ پبلک نے ابھی تک جنگ کا اعلان نہیں کیا ۔“ ، موسیو ساویج نے بات کاٹی ۔
موریسوٹ نے جواباً کہا ؛ ” بادشاہ کے وقتوں میں ہم بدیسیوں سے جنگ لڑتے تھے ، اب ری ۔ پبلک کے زمانے میں ہم خانہ جنگی کا بھی شکار ہیں ۔“
اوروہ دونوں سیاسی مسائل پر نرمی سے بات چیت کرنے لگے ۔ ان کی گفتگو ، در اصل ایسے پرامن شہریوں جیسی تھی جو اس ایک نکتے پر متفق ہوتے ہیں کہ وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتے ۔ اورمونٹ ویلیرین سے لگاتار گولہ باری ہوتی رہی ؛ جس سے فرانسیسیوں کے مکانات تباہ ہوتے رہے ، آدمیوں کی زندگیاں لوتھڑوں میں بدلتی رہیں ، ان کے سہانی زندگی کے خواب چکنا چور ہوتے رہے ؛ جن میں امید تھی ، جن میں متوقع خوشی تھی ۔ یہ انتہائی ظالمانہ طور پر اس سر زمین پر بیویوں ، بیٹیوں اورماﺅں کے دلوں میں نہ ختم ہونے والا الم اور اذیت بھرتے رہے ۔
” کیا یہی زندگی ہے ؟ “ ، موسیو ساویج نے کہا ۔
” بلکہ یہ کہنا چاہیے ، کیا یہی موت ہے ؟ “ ، موریسوٹ نے جواب دیا اور ہنسنے لگا ۔
لیکن ، اچانک وہ اپنے پیچھے قدموں کی آواز سن کرخطرہ محسوس کرکے کانپے اور مڑ کر دیکھا ۔ چار لمبے تڑنگے ، داڑھیوں والے آدمی جو وردی اور چپٹی ٹوپیوں میں ملبوس تھے ، اپنی بندوقیں ان پر تانے کھڑے تھے ۔
بنسیاں ، ان دونوں کے ہاتھوں کی گرفت سے نکل گئیں اور دریا میں بہتی ہوئی دور جانے لگیں ۔
چند ہی لمحوں میں انہیں پکڑکر باندھا گیا اور کشتی میں ڈال کر ’لائی میرینیٹ ‘ کے پار لے جایا گیا ۔
اور ایک مکان ، جو انہیں ویران لگا تھا ، کے پیچھے بیس جرمن فوجی موجود تھے ۔
ایک بڑی قد و قامت کا کھردرا سا آدمی کرسی میں بیٹھا مٹی کا بنا ایک لمبا پائپ پی رہا تھا ۔ اس نے ان سے شستہ فرانسیسی میں کہا ؛
” اچھا تو صاحبان ، کیا تم مچھلیاں پکڑنے کے حوالے سے خوش قسمت رہے ہو؟ “
اسی وقت ایک فوجی نے اس کے قدموں میں مچھلیوں سے بھرا وہ تھیلا رکھ دیا جسے وہ ساتھ لانا نہ بھولا تھا ۔ ’ پروشین ‘ مسکرایا ۔
” میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ برا شکار نہیں ہے “ ، اس نے تھیلے پر نظر ڈالی اور بولتا رہا، ” لیکن ہمیں کچھ اور بات بھی کرنا ہے ۔ میری بات دھیان سے سنو اور پریشان مت ہو ۔“
” تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میری نظر میں تم دو جاسوس ہو جنہیں مجھ پر اور میرے لوگوں کی حرکت پر نظر رکھنے کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ قدرتی بات ہے ، میں نے تمہیں پکڑنا ہی تھا اور مار بھی دینا ہے ۔ تم دکھاوے کے طور پر مچھلیاں پکڑ رہے تھے تاکہ تمہاری اصلیت پوشیدہ رہے ۔ اب تم میرے قبضے میں ہو اور تمہیں اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے ۔ جنگ اسی کو کہتے ہیں ۔“
” لیکن چوکی سے باہر آنے کے لئے تمہیں ’ پاس ورڈ ‘ دیا گیا ہو گا تاکہ تم لوگ واپسی پر اس کا استعمال کر سکو ۔ مجھے وہ ’ پاس ورڈ ‘ بتا دو تو میں تمہیں جانے دوں گا ۔“
دونوں دوست ساتھ ساتھ کھڑے تھے ۔ ان کے چہرے موت جیسے زرد تھے ۔ وہ ساکت تھے گو ان کے ہاتھ ان کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ۔ وہ خاموش تھے ۔
” کسی کو کبھی معلوم نہ ہو گا “ ، افسر بولتا رہا ، ” تم اطمینان سے اپنے گھروں تک پہنچ جاﺅ گے اور یہ راز تم دونوں کے ساتھ ہی غائب ہو جائے گا ۔ لیکن اگر تم انکاری رہو گے تو اس کامطلب موت اور فوری موت ہو گا ۔ دونوں میں سے کا ایک کا انتخاب کر لو! “
وہ ساکت کھڑے رہے اور لب نہ کھولے ۔
پروُشین ، اپنا بازو دریا کی طرف پھیلائے ،پر سکون طریقے سے بولتا رہا ؛
” ذرا سوچو ، پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں تم پاتال میں ہو گے ۔ صرف پانچ منٹوں میں ! میرا خیال ہے تم دونوں کے بال بچے اور رشتہ دار تو ہوں گے ہی ؟ “
پھر وہ تیزی سے اٹھا اور ان دونوں کے پاس آیا ، موریسوٹ کو بازو سے پکڑا اور اسے کچھ دور لے گیا اور سرگوشی کرتے ہوئے بولا؛
” جلدی! پاس ورڈ ، تمہارے دوست کو بھی پتہ نہیں چلے گا ۔ میں ایسے ظاہر کروں گا جیسے تم نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں ۔ “
موریسوٹ نے کوئی جواب نہ دیا ۔
تب پروُشین موسیو ساویج کو ایک طرف لے گیا اور اسے بھی وہی کہا جو وہ پہلے موریسوٹ کو کہہ چکا تھا ۔
موسیو ساویج نے بھی اسے کوئی جواب نہ دیا ۔
اب وہ پھر سے ساتھ ساتھ کھڑے تھے ۔
افسر نے حکم جاری کیا ؛ فوجیوں نے ان پر بندوقیں تان لیں ۔
سورج کی ایک شعاع ایک تڑپتی مچھلی پر پڑ رہی تھی جس سے وہ چاندی کی طرح چمکے جا رہی تھی ۔ اور موریسوٹ کا دل بیٹھ گیا ۔ خود پر ضبط کے باوجود اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھر گئیں ۔
” الوداع ، موسیو ساویج “، اس نے کہا ۔
” الوداع ، موسیو موریسوٹ “ ، ساویج نے جواب دیا ۔
انہوں نے آپس میں ہاتھ ملائے ۔ ضبط کے باوجود وہ سر سے پاﺅں تک کانپے ۔
افسر چلایا ؛ ” فائر! “
بیس گولیاں یک مشت چلیں ۔
موسیو ساویج تو فوری طور پر آگے کی طرف گر گیا ۔ موریسوٹ لمبا ہونے کے باعث ، ذرا سا لڑکھڑایا اور اپنے دوست پر یوں گرا کہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور اس کے سینے میں لگی گولی سے ، اس کے کوٹ میں ہوئے سوراخ سے خون نکل رہا تھا ۔
جرمن نے نیا حکم دیا ۔ اس کے آدمی ادھر ادھر بکھر گئے اور جب لوٹے تو وہ رسیاں اور بڑے پتھر ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے ۔ انہوں نے دونوں دوستوں کے پیروں کو ان سے باندھا اور پھر دریا کے کنارے لے گئے ۔ مونٹ ویلیرین کے قلعے کی فصیل ابھی بھی دھویں سے اٹی ہوئی تھی اور وہاں سے گولہ باری جاری تھی ۔
دو فوجیوں نے موریسوٹ کو سر اور پیروں سے پکڑا جبکہ دوسرے دو نے ساویج کو ۔ دونوں لاشیں فوجیوں کے مضبوط ہاتھوں میں جھولیں اور نیم دائرے کی شکل میں ہوا میں لہراتی ہوئی ، دور دریا کے گہرے پانی میں جا گریں ۔
پانی کا ایک بڑا چھینٹا ہوا میں اوپرکی طرف اٹھا ، جھاگ بنی ، بھنور بنا اور پھر دریا پرسکون ہو گیا ، صرف چند ہلکی لہروں نے اس کے کنارے کو چھوا ۔ خون کی چند دھاریاں ہی دریا کی سطح پر نظر آ سکیں ۔
افسر جو سارا عرصہ پرسکون رہا تھا ، مزاحیہ انداز میں مسکرایا اور بولا ؛ ” اب مچھلیوں کی باری ہے ۔“
پھر وہ مکان کی طرف چلنے لگا ۔ اچانک اس کی نظرگھاس پر پڑے مچھلیوں سے بھرے جالی دار تھیلے پر پڑی ، جسے وہ بھول چکا تھا ۔ اس نے اسے اٹھایا ، الٹ پلٹ کر دیکھا اور مسکرا کرزور سے آواز دی ؛
” ولیم ! “
اس کی آواز سن کر سفید ایپرن باندھے ایک فوجی اس کے پاس آیا ۔ اس نے دونوں مارے گئے دوستوں کی پکڑی ہوئی مچھلیوں کا تھیلا اسے تھمایا ۔
” میرے لئے یہ مچھلیاں فوری طور پر بھون کر لاﺅ، جب یہ زندہ ہوتی ہیں تو یہ بھُن کرزیادہ لذیذ ’ ڈِش ' بناتی ہیں ۔ “
اس نے کہا اور پائپ پینا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موپساں ( پورا نام ؛ Henri René Albert Guy de Maupassant ) کی یہ کہانی 1882ء میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ ’فرانکو ۔ پروشین ‘ جنگ ( جولائی 1870 ء تا مئی 1871ء) کے اُس پس منظر میں لکھی گئی جب پیرس محصور تھا ۔ یہ فرانس کی تیسری ’ ری ۔ پبلک‘ کا زمانہ تھا ۔
یاد رہے کہ بطور نوجوان اس نے فرانکو ۔ پروشین جنگ میں حصہ لیا تھا اور اس کی کئی کہانیوں کا محور یہی جنگ ہے ۔ ان کہانیوں میں اس کے زیادہ تر کردار جنگ سے متاثرہ شہری آبادی کے افراد ہیں ۔
موپساں 5 ، اگست 1850 ء کو پیدا ہوا اور 43 برس کی عمر میں 6 جولائی 1893 ء کو فوت ہوا ۔ اپنی عمر کے آخری سالوں میں نفسیاتی مریض بن گیا تھا اور مرنے سے لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلے اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔