فرانسیسی ادب سے افسانہ (دو دوست)
افسانہ نگار: گائے ڈی موپساں
پیرس شدید قحط کی لپیٹ میں تھا۔ حتیٰ کہ چھتوں پر چڑیاں اور گٹروں میں چوہے نظر آنا بند ہو گئے… لوگوں کے ہاتھ جوشے لگتی، اُسے چٹ کر جاتے۔
ایک دن گھڑی ساز، مونیور موریسوٹ چہل قدمی کرنے نکلا ہاتھ پتلون کی جیبوں میں تھے۔ اچانک اس کی ملاقات ایک شناسا سے ہوگئی۔
جنگ چھڑنے سے قبل وہ ہر اتوار دریائے رائن مچھلیاں پکڑنے جاتا تھا۔ ایک ہاتھ میں بنسی و کانٹا ہوتا، دوسرے میں ٹن کا ڈبا۔ وہ اپنی پسندیدہ جگہ پہنچتے ہی مچھلیاں پکڑنے لگتا اور رات گئے تک پکڑتا رہتا۔
اسی جگہ اس کی مونیور سیوج سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ پست قامت، خوش باش شخص کپڑے کا تاجر تھا اور اسی کے مانند مچھلیاں پکڑنے کا شوقین! چنانچہ ان کے مابین دوستی کا نرم گرم رشتہ پیدا ہوگیا۔ وہ دونوں پانی میں بنسیاں ڈالے گھنٹوں پہلو بہ پہلو بیٹھے رہتے۔
ان کے درمیان بہت کم گفتگو ہوتی۔ کبھی کبھی ہی لمبی بات کرتے۔ دراصل ملتی جلتی دلچسپیوں اور جذبات کے باعث وہ ایک دوسرے کا مزاج خوب سمجھ گئے تھے۔ ایسی حالت میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں رہتی۔
موسم بہار میں صبح دس بجے جلد سورج نکلنے کے باعث پانی میں ہلکی ہلکی دھند پھیل جاتی اور دھوپ جوشیلے بنسی بازوں کی کمر کو گرمائش پہنچاتی۔ تب موریسوٹ اپنے پڑوسی سے گویا ہوتا:
’’واہ! کیا سہانا سماں ہیــــ؟‘‘
جواب ملتا ’’اس سے بہتر منظر میرے تصور میں نہیں سما سکتا ۔‘‘
یہ مختصر جملے انھیں مطمئن کرنے اور ایک دوسرے کو سراہنے کے لیے کافی ہوتے۔
موسم خزاں میں دن ڈھلے آسمان پر چمکتا آفتاب دہکتی آگ کا گولا بن جاتا۔ فضا میں منڈلاتے بادل تب سورج کی شعاعوں میں دمکنے لگتے اور پتے بھی عجب رنگ دکھاتے جو سردی کا استقبال کرنے کو تیار ہوتے۔ دریا کنارے چھایا یہ سماں بھی دونوں دوستوں کو مبہوت کردیتا۔ تب مونیور سیوج بول اُٹھتا:
’’واہ! کیا شاندار منظر ہے؟‘‘
موریسوٹ جواب دیتا’’ایسا سماں قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔‘‘
جیسے ہی ان کی نظریں ملیں، وہ رک گئے اور پھر بڑے تپاک سے ملے۔ گو انھیں یہ احساس بھی رہا کہ وہ تباہ حال حالات میں مل رہے ہیں۔
مونیورسیوج نے سرد آہ بھری اور بڑ بڑایا:’’بڑا بُرا وقت ہے۔‘‘
موریسوٹ نے اثبات میں سر ہلایا اور گویا ہوا: ’’مگر سال کے پہلے دن موسم بڑا خوشگوار ہے۔‘‘
وہ پھرپہلو بہ پہلو چلنے لگے۔ چال ڈھال پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
مونیورسیوج آہ بھر کہ بولا:’’ ہم نے اکٹھے بڑا حسین وقت گزارا ہے۔ نجانے اب ہم کب مچھلیاں پکڑ سکیں گے۔‘‘
ماضی کی خوشگوار یادیں تازہ کرتے دونوں دوست ایک کیفے میں جاگھسے۔ کافی پی کر نکلے، توخود کو تروتازہ محسوس کرنے لگے۔ سرد ہوا نے مونیورسیوج کے جذبے کو مہمیز دی۔ وہ بولا ’’کیوں نہ ہم مچھلیاں پکڑنے چلیں؟‘‘
’’کہاں ؟‘‘
’’ارے جہاں پہلے پکڑتے تھے۔ دریائے رائن جانے والے راستے پہ ہی فوجی چوکی کا کمانڈر، کرنل ڈومیلن میرا واقف کار ہے۔ میں اس سے اجازت لے لوں گا۔ ‘‘سیوج نے بتایا۔
یہ سن کر موریسوٹ جیسے پھر جی اٹھا۔ کہنے لگا ’’بہت خوب! تو پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘
وہ اپنا اپنا سامان لانے جدا ہوگئے۔ ایک گھنٹے بعد وہ دریائے رائن کی سمت رواں دواں تھے۔ فوجی چوکی پہنچے، تو کرنل ڈوملین کی سمت رواں دواں تھے۔ فوجی چوکی پہنچے، تو کرنل ڈومیلن نے انھیں خوش آمدید کہا۔ فرمائش سننے پر مسکرایا اور آگے جانے کی اجازت دے دی۔ واپسی کے لیے پاس ورڈ بھی بتا دیا گیا۔
جلد وہ دریائے رائن کے کنارے اپنی مخصوص جگہ جاپہنچے۔ وہاں سے دریا پار کولمین نامی گائوں نظر آتا تھا۔ پہلے گائوں میں چہل پہل رہتی۔ مرغیاں دانہ چگتیں، تو مویشی گھاس چرتے۔ مگر ان کے وہاں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ گائوں کے سبھی باسی بھاگ کر پیرس چلے آئے تھے۔
گائوں کے پیچھے گھاس کے میدانوں کا وسیع سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ ان میں جابجا چھوٹے بڑے ٹیلے بھی موجود تھے۔ مونیورسیوج نے انہی میدانوں کی سمت اشارہ کرکے بتایا’’جرمن فوج نے وہاں اپنے ٹھکانے بنائے ہیں۔‘‘
ویران گائوں دیکھ کر دونوں دوستوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ دل ہی دل میں جرمنوں کو کوسنے لگے۔ گو انھوں نے اب تک جرمن فوجیوں کو نہیں دیکھا تھا، مگر وہ کئی ماہ سے ان کے مظالم سہ رہے تھے… جرمنوں نے پہلے فرانسیسیوں کا قتلِ عام کیا، پھر لوٹ مار کی اور اب پیرس کے محاصرے سے انھیں بھوک و پیاس میں مبتلا کر رکھا تھا۔ فرانسیسی اب اس اجنبی و فاتح قوم کو دہشت و نفرت کی ملی جلی نظروں سے دیکھتے۔ موریسوٹ نے دریافت کیا ’’اگر ہمارا ان سے ٹاکرا ہوگیا تو؟‘‘
’’تو ہم انھیں مچھلی کی دعوت دے ڈالیں گے۔ ‘‘ سیوج مزاح کی چاشنی بھرے لہجے میں بولا۔
تاہم چاروں سمت پھیلی ویرانی اور خاموشی نے انھیں کھلے عام مچھلیاں پکڑنے سے باز رکھا۔ چناںچہ انھوں نے ایسی جگہ تلاش کرلی جو جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ انھوں نے وہاں بیٹھ کر ماحول کا جائزہ لیا، ہر طرف بدستور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ان کا اعتماد بحال ہوا اور وہ دل جمعی سے مچھلیاں پکڑنے لگے۔
عرصے سے کوئی بنسی باز نہیں آیا تھا، اسی واسطے دریا میں مچھلیوں کی کثرت تھی۔ وہ وقفے وقفے سے مچھلیاں پکڑنے لگے۔ انھوں نے پہلے کبھی اتنی جلد ڈھیر سارا شکار نہیں پکڑا تھا۔
صبح کے بارہ بج گئے۔ شمسی شعاعیں ان کی کمر کو گرمائش پہنچانے لگیں۔ رفتہ رفتہ ان کا وجود خوشی و مسرت سے بھر گیا۔ انھیں اپنی من پسند تفریح واپس مل گئی جسے پانے کی خاطر وہ تڑپ رہے تھے۔
رفتہ رفتہ عالم بے خودی میں ان کی توجہ مچھلیاں پکڑنے پر مرکوز ہوگئی۔ وہ دنیا کو فراموش کربیٹھے اور اپنے حال میں مست ہوئے۔ لیکن اچانک ایک زوردار دھماکے نے انھیں ہلا کر رکھ دیا اور وہ امن و محبت سے بھری اپنی دنیا سے نکل آئے۔
انھوں نے ارد گرد نظر دوڑائی، دور ایک ٹیلے سے سفید دھواں اُٹھ رہا تھا۔ وہیں سے ایک جرمن توپ نے فرانسیسی فوج کی پوزیشنوں پر گولا پھینکا تھا۔ جلدہی پے در پے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اب جرمن توپیں تمام فرانسیسیوں کے گھروں پر بھی گرجنے برسنے لگیں۔
مونیورسیوج نے کاندھے اچکائے اور بولا ’’وہ پھر شروع ہوگئے۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ موریسوٹ بے چینی سے اپنی بنسی کو دیکھتا رہا۔ پھر اس امن پسند شخص کا دل ان پاگلوں کے لیے غصے سے بھر گیا جو دیوانہ وار بم باری کررہے تھے۔ وہ تلخ لہجے میں بولا ’’ ایک دوسرے کو مارنے والے یہ انسان واقعی پاگل ہیں۔‘‘
’’جانوروں سے بھی بد تر!‘‘ سیوج نے تبصرہ کیا۔
موریسوٹ بولا ’’جب تک ہماری حکومتیں قائم ہیں، حالات یہی رہیں گے۔‘‘
ہاں، اگر عوامی حکومت ہوتی، تو جنگ کی نوبت نہ آتی۔‘‘
’’مگر عوامی حکومت ہو، تو ہم پر خانہ جنگی نازل ہوتی ہے اور بادشاہ ہو، تو غیر ملکی جنگیں!‘‘
وہ پھر امن پسند شہریوں کی طرح مبنی بر حقیقت گفتگو کرنے لگے۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ وہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ اس دوران جرمن توپوں کی بم باری جاری رہی۔ وہ انسانوں کی جانیں سرمہ بناتی رہیں، کئی حسین خواب مٹی میں جاملے، اُمیدیں خاک اور خوشیاں شعلوں کی نذر ہوئیں۔ غیر ملکی دیس میں انھوں نے ان گنت بیویوں، بیٹیوں اور مائوں کو لامتناہی دکھ و اندوہ سے دوچار کردیا۔
مونیور سیوج آہ بھر کر بولا:’’یہی زندگی ہے۔‘‘
موریسوٹ مسکرا کر کہنے لگا ’’نہیں، یہ کہو، یہی موت ہے۔‘‘
اسی لمحے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر وہڑبڑا گئے۔ گھوم کر دیکھا، تو چار لمبے چوڑے آدمیوں کو خود پر بندوقیں تانے پایا۔ دونوں دوستوں کے ہاتھوں سے بنسیاں چھوٹیں اور پانی میں گم ہوگئیں۔
چند منٹ میں جرمن فوجیوں نے ان کی مشکیں کسیں، اپنی کشتی میں پھینکا اور دریا پار پہنچ گئے۔ تب دونوں دوستوں پر منکشف ہوا کہ وہ جس گائوں کو اجاڑ سمجھ رہے تھے، اس کی پشت پر جرمن پڑائو ڈالے بیٹھے تھے۔ وہاں ایک دیوہیکل انسان آرام کرسی پر اطمینان سے بیٹھا پائپ پی رہا تھا۔ اسی نے انھیں شاندار فرانسیسی میں مخاطب کیا:
’’ہاں دوستو! کتنی مچھلیاں پکڑ لیں؟‘‘
ایک جرمن فوجی مچھلیوں سے بھرا تھیلا اٹھانا نہیں بھولا تھا۔ اب وہ اس نے اپنے کمانڈر کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ موٹا تازہ تھیلا دیکھ کر دیو ہیکل آدمی مسکرایا اور بولا ’’تم نے شکار خوب کھیلا۔ لیکن میں تمھیں کچھ اور بھی بتانا چاہتا ہوں، خوفزدہ مت ہونا۔ میری نظروں میں تم جاسوس ہو جو ہماری جاسوسی کے لیے بھیجے گئے۔ تم مچھلیاں پکڑنے والوں کے بھیس میں یہاں آئے مگر ہمارے ہتھے چڑھ گئے۔ لہٰذا اب میں چاہوں تو، تمھیں گولی مار دوں۔ جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
’’لیکن ایک بات تمھیں بچا سکتی ہے۔ فرانسیسی کمانڈر نے تمھیں آگے پیچھے جانے کی خاطر ایک پاس ورڈ بتایا ہوگا۔ وہ پاس ورڈ مجھے بتائو اورآزاد ہو جائو۔‘‘
دونوں دوست چپ چاپ پہلو بہ پہلو کھڑے رہے۔ ان کا رنگ زرد اور جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔
کمانڈر بات جاری رکھتے ہوئے بولا ’’کسی کو کبھی کچھ پتا نہیں چلے گا۔ تم باحفاظت اپنے گھر پہنچ جائوگے اور یہ راز تمھارے ساتھ غائب ہوجائے گا۔ لیکن تم نے انکار کیا، تو خود کو مردہ سمجھو۔ اب انتخاب کرلو۔‘‘
دونوں خاموش کھڑے رہے، لب بالکل نہیں ہلائے۔ جرمن افسر جلدی میں نہ تھا۔ اس نے دریا کی سمت اشارہ کیا اور پُر سکون لہجے میں بولا ’’ذرا سوچو! محض پانچ منٹ بعد تم دریا کی تہہ میں ہوگے، صرف پانچ منٹ میں!! مجھے یقین ہے، تمھارے بال بچے، تو ہوں گے؟‘‘
جرمن توپیں مسلسل فرانسیسیوں پر گولے پھینک رہی تھیں۔ ان کی دھمک سے وقتاً فوقتاً زمین تھرا اٹھتی۔
دونوں دوستوں کے ہونٹ بدستور سلے رہے۔ یہ دیکھ کر افسر نے جرمن میں اپنے فوجیوں کو کچھ حکم دیا۔ پھر اس نے اپنی کرسی پیچھے کرلی تاکہ قیدیوں سے پرے ہٹ جائے۔ تب درجن فوجی ہاتھوں میں بندوقیں لیے بڑھے اور صف بنا ایستادہ ہوگئے۔
دیوہیکل پھر دونوں دوستوں کی طرف مڑا اور گویا ہوا میں تمھیں سوچنے کے لیے ایک منٹ دیتا ہوں، ایک سیکنڈکم نہ ایک زیادہ!
یہ کہہ کر اچانک وہ اُٹھا، دونوں فرانسیسیوں کے پاس پہنچا، مونیور موریسوٹ کو بازو سے پکڑا، کچھ دور لے گیا اور سرگوشی کرتے ہوئے بولاجلدی سے پاس ورڈ بتائو۔ تمھارے دوست کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ میں نہ جاننے کی اداکاری کروں گا۔
موریسوٹ نے ایک لفظ نہ کہا۔
جرمن افسر یہ دیکھ کر مونیورسیوج کے قریب پہنچا، اُسے بھی کچھ دور لے گیا اور آہستہ آواز میں وہی سوال دہرایا۔
سیوج نے کوئی جواب نہ دیا۔
جلد ہی وہ پھر شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔
افسر نے حکم جاری کیا، فوجیوں نے بندوقیں سیدھی کرلیں۔ اسی لمحے موریسوٹ کی نگاہیں چند فٹ دور پڑے مچھلیوں والے تھیلے پہ جا بڑیں۔ چمکتی دھوپ میں مچھلیاں چاندی کے مانند دمک رہی تھیں۔ موریسوٹ کا دل بیٹھ گیا۔ ضبط کے باوجود آنکیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔
’’خدا حافظ مونیور سیوج!‘‘
’’خدا حافظ مونیور موریسوٹ!‘‘ جواب ملا۔
تب انھوں نے ہاتھ ملائے۔ ان کے بدن سر تا پائوں لرز رہے تھے۔
کمانڈر چلایا ’’فائر‘‘
بارہ بندوقوں سے بیک وقت گولیاں برآمد ہوئیں۔ مونیور سیوج اُن واحد میں منہ کے بل آگے گرپڑا۔ مونیور موریسوٹ کچھ لمبا تھا، وہ پہلے لہرایا پھر اپنے دوست کے پہلو میں گر پڑا۔ اس کے سینے سے ابلتے خون نے کوٹ کی رنگت سرخ کر ڈالی۔
افسر نے نئی ہدایات دیں۔ جرمن فوجی منتشر ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہ رسیاں اور پتھر اٹھائے نمودار ہوئے۔ پتھر دونوں دوستوں کے پیروں سے باندھ کر انھیں دریا کنارے تک گھسیٹا گیا۔
جرمن توپوں کی بم باری جاری تھی۔ بموں سے دھوئیں اور اٹھتے گرد و غبار نے پیرس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
دو فوجیوں نے ڈندا ڈولی کے انداز میں مورسیوٹ کو بازوئوں اور ٹانگوں سے پکڑا۔ سیوج کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انھیں دریا کی نذر کردیا گیا۔
پانی میں چھپاکا ہوا، کچھ بلبلوں نے جنم لیا اور پھر سطح آب پر سکون چھا گیا۔ بس خون کے چند قطرے بیتنے والا ماجرا بیان کرتے رہ گئے۔
کمانڈر پر سارے عرصے اطمینان چھایا رہا تھا۔ وہ تلخ ہنسی ہنستے ہوئے مذاقاً بولا ’’اب مچھلیوں کی باری ہے۔‘‘
وہ پھر اپنے خیمے کی سمت چل پڑا۔ اچانک اس کی نظر مچھلیوں سے بھرے تھیلے پر پڑی جسے فراموش کیا جاچکا تھا۔ اس نے اُسے اٹھایا، دیکھا بھالا، مسکرایا اور پکارا:
’’ولہم!‘‘
سفید ایپرن میں ملبوس ایک جوان نمودار ہوا۔ کمانڈر نے اُسے دونوں دوستوں کا شکار تھمایا اور بولا: ’’ انھیں ابھی تل کر لائو۔ تازہ مچھلی کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پائپ پیتا خیمے کی طرف بڑھ گیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“