(Last Updated On: )
انٹرنیٹ پہ پھیلی ہوئی بہت سی دیومالائی داستانوں میں سب سے دلچسپ اٹھارہویں صدی کے ایک امیر آدمی ایڈورڈ مورڈیک کی ہے جس کے سر کی پچھلی جانب بھی ایک چہرہ تھا ۔ کہانی میں یہ دوسرا چہرہ بھی نہ صرف ہنس بول سکتا تھا بلکہ رویا بھی کرتا تھا لیکن ایسا کبھی کسی کے سامنے نہیں ہوا ۔ وہ دوسرا چہرہ اندھیری راتوں میں صرف مورڈیک سے ہی باتیں کیا کرتا تھا اور اپنی شیطانی چالوں کا ذکر کیا کرتا تھا۔ مورڈریک جب بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر رویا کرتا تھا تو وہ شیطانی بد صورت چہرہ اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا مورڈیک نے اپنے اس دوسرے چہرہ سے جان چھڑانے کے لئے ڈاکٹروں کی منت سماجت کی اور تنگ آ کر بالآخر تیئس سال کی عمر میں خود کشی کر لی اور ایک نوٹ چھوڑا کہ اس کی موت کے بعد اس شیطانی چہرے کو ختم کر دیا جائے ورنہ وہ اس کو قبر میں بھی چین نہیں لینے دے گا ۔ مورڈریک ایک امیر، ذہین اور خوش شکل نوجوان تھا جو کہ ایک اعلی پائے کا موسیقار بھی تھا لیکن اس کی ان تمام خوبیوں کے ساتھ اس کے بھیانک چہرے کی موجودگی نے کہانی کو انتہا درجے کا سنسنی خیز کر دیا ۔
امریکہ میں یہ کہانی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس زمانے میں اس پر اتنا یقین کیا جاتا تھا کہ میڈیکل افسران نے بھی اس پر کسی شک و شبہے کا شکار ہوئے بنا اس پر فوری یقین کر لیا
اس کہانی کے ساتھ انٹر نیٹ پہ پھیلا ہوا ایک مومی مجسمہ بھی دکھایا جاتا ہے جس کو دو چہروں والے مورڈریک کے لئے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
لیکن حقیقت میں یہ تصویر ایک مزاحیہ آرٹ کا ٹکڑا ہے جیسے کہ کچھ خیالی جانوروں کی ایسی تصویریں شائقین کی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے لئے لگا دی جاتی ہیں ۔ اس مجسمے کو بنانے والے فنکار ایورٹ شنڈلر کا کہنا ہے کہ اس نے یہ شاہکار کچھ سال پہلے بنایا مگر اس کو کوئی پذیرائی نہیں مل سکی ۔ شینڈلر کا خیال ہے کہ ایسے دیومالائی کردار کو ایک صورت میں ڈھالنا ضروری تھا کیونکہ اس پر پہلے کسی فنکار نے کبھی کام نہیں کیا تھا یہ فن پارہ پیپر ماچی آرٹ پر اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ بالکل حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔ پیپر ماچی کاغذ کے ٹکڑوں یا کسی خاص مادے سے بنایا جانے والا آرٹ کا نمونہ ہوتا ہے یہ فرنچ زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب چبایا ہوا کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے ۔ لندن میں فرنچ آرٹسٹ یہ کام کیا کرتے تھے اور وہاں سے پوری دنیا میں یہ آرٹ بنایا اور پسند کیا جانے لگا۔
شنڈلر نے پلائی ماؤتھ سکول آف آرٹ سے مجسمہ سازی اور آرٹ میں گریجویشن کی اور اب مجسمہ سازی کو اپنے مشغلے کے طور پر اپنا رکھا ہے مستقبل میں وہ اسی فن کو اپنے مستقل کام کے طور پر اپنانا چاہتا ہے ۔ شنڈلر کے بنائے اس آرٹ کی تصویر پبلش ہوتے ہی اٹھہتر ہزار مرتبہ شیئر کی گئی ۔ انٹر نیٹ پہ ایسی کوئی چیز کسی تاریخی ویب سائٹ پر موجود نہیں تھی کیونکہ مورڈریک کا کردار حقیقی نہیں افسانوی ہے ۔
یہ کہانی اس وقت شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی جب 1896ء میں میڈیکل کی ایک کتاب اینامولیز اینڈ کیروسیٹیز آف میڈیسن Anomalies and Curiosities of Medicine
میں امریکی ڈاکٹر جارج گاولڈ اور والٹر پائل نے اس کو شائع کیا ۔ اگرچہ یہ دونوں ڈاکٹرز ماہر امراض چشم تھے اور باقاعدہ میڈیکل پریکٹس کیا کرتے تھے لیکن اس کہانی پر ان کو بھی شبہہ نہیں ہو سکا ۔ 2015ء میں The Museum of Hoaxes نامی ویبسائٹ پر ایک ریسرچر کو ایک تاریخی اخبار کا ٹکڑا مل گیا جس میں موجود میڈیکل کی کتاب سے دی گئی کہانی بالکل ویسی ہی تھی جو کہ دی بوسٹن سنڈے پوسٹ میں ایک سال قبل 8 دسمبر 1895ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کہانی کا مصنف چارلس لوٹن ہلڈرتھ جو کہ ایک شاعر اور سائنس فکشن لکھاری تھا اور اس کی کہانیاں حقیقت پر کم اور افسانونی کرداروں اور واقعات پر مبنی ہوا کرتی تھیں ۔ ۔
سائنس کے ساتھ اس کا تعلق اس طرح سے جوڑا جاتا ہے کہ 1895ء میں شائع ہونے والے آرٹیکل کا نام ‘جدید سائنس کے معجزات ‘تھا اور یہ آرٹیکل دراصل رائل سائنٹیفک سوسائٹی کی جانب سے پیش کردہ تھا جو کہ انسانی عجائب کی تصویریں میگزین کو مہیا کیا کرتے تھے اور برطانوی سائنسدانوں کا نام لگا کر جو عجیب الخلقت مخلوقات کی تصویریں شائع کی جاتی رہیں ان میں ایک دو چہروں والے شخص ایڈورڈ مورڈریک کی تصویر بھی شائع کی گئی تھی ۔ آرٹیکل میں ناقابل یقین بے ضابطہ انسانی مخلوقات کا ذکر کیا گیا تھا جیسا کہ مچھلی نما عورت ، انسانی مکڑی اور آدھا انسان آدھا کیکڑا جبکہ ان میں سے کسی کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ایسے افسانوی اور ناقابل یقین کرداروں پر لوگ فورا سے یقین کر لیتے ہیں ۔
رائل سوسائٹی آف لندن سائنسی علم کا ایک تاریخی ادارہ ہے لیکن رائل سائنٹیفک نامی کوئی بھی سوسائٹی پچھلی صدی میں موجود نہیں تھی جو لوگ برطانیہ میں رہتے ہیں ان کو تو معلوم تھا مگر امریکیوں کے لئے اس کہانی کے حقیقی ہونے اور اس پر یقین کرنے کے لئے یہ نام ایک ثبوت بن گیا ۔ اگرچہ اس وقت کے تمام اخباروں اور آرٹیکلز میں صرف غیر حقیقی خبریں نہیں ہوا کرتی تھیں لیکن حقیقت کے ساتھ کچھ افسانوی بھی چھپ جایا کرتا تھا جس کو عوام حقیقت ہی سمجھ کر یقین کر لیا کرتے تھے ۔
آجکل اس کہانی کو مشہور کرنے میں امریکی ٹی وی سیریز کا کردار اہم ہے جس کا نام امریکن ہارر سٹوری ہے اور اس میں مورڈریک کہ کہانی سے متاثر ہو کر پوری ایک ہارر سیریز لکھ دی گئی ہے جو کہ لوگوں میں بہت مقبول ہوئی ۔ آج کا انسان کسی بھی سنی سنائی بات پر یقین کرنے کی بجائے خود تحقیق کرنے اور سچ جاننے کی جستجو رکھتا ہے اور انٹر نیٹ پر علم و تحقیق کی وسیع دستیابی کی بدولت اس کے لئے یہ سب آسان بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر کئی غلط مواد آج بھی بلا تحقیق شیئر کرنے والے لوگ موجود ہیں جو کہ 2018ء میں مورڈریک کے سر کی تصویر کو بھی وائرل کرنے
کی وجہ بن گئے ہیں اور ماضی کی طرح یہ تصویر بھی حقیقی نہیں بلکہ خیالی ہے اور اگر ایڈورڈ مورڈریک حقیقت میں ہوتا تو وہ یقینا مومی مجسمہ یا پیپر ماچی تصویری آرٹ میں سے ہی کسی ایک جیسا دکھتا۔
کچھ غیر حقیقی داستانوں میں حقیقت کا کچھ رنگ بھی موجود ہوا کرتا ہے اس کہانی کی طرح یہ ایک میڈیکل کنڈیشن میں بھی ہوتا ہے جب پروٹین کی بے جا زیادتی سے رحم مادر میں ایک ایمبریو کے دو چہرے بن جایا کرتے ہیں اس خاص حالت کو میڈیکل کی زبان میں ‘ craniofacial duplication’ کہا جاتا ہے ۔ یہ انتہائی نایاب اور خطرناک حالت ہے جس میں فوری موت واقع ہو جایا کرتی ہے لیکن کچھ چھوٹے بچے اس حالت کے ساتھ کچھ عرصہ زندہ رہ جاتے ہیں۔ 2008ء میں انڈیا میں اسی جینیاتی کنڈیشن کے ساتھ لالی سنگھ نامی ایک بچی کی پیدائش ہوئی اگرچہ وہ زیادہ دیر جی تو نہ سکی لیکن اس کو مورڈریک کی طرح نفرت اور حقارت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے گاؤں کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ہندو دیوی درگا ماں کا روپ ہے جس کے کئی بازو اور سر ہوتے ہیں ۔ لالی نامی بچی جو کہ چند ماہ کی تھی اسکی موت کے بعد اس کے لئے ایک مندر بنا دیا گیا ۔
ایڈورڈ مورڈیک کی کہانی سنا کر لوگ ابھی تک دوسروں کو بیوقوف بناتے اور حیران کرتے رہتے ہیں اگرچہ ایسا آدمی تو حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا لیکن یہ کہانی شاید آنیوالے کئی سالوں اور صدیوں تک پڑھی اور سنائی جاتی رہے گی ۔