ایک آزاد بین الاقوامی ادارے کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کرہء ارض پر مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو گئی ہے تاہم کچھ اور ذرائع اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور بھارت، چین، نائیجریا، تنزانیہ اور کچھ اور ممالک مسلمانوں کی تعداد اصل سے کم ظاہر کرتے ہیں!
یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی اپنی جگہ دونوں رپورٹیں درست ہوں اور وہ ادارہ جو مسلمانوں کی آبادی کو ایک ارب ساٹھ کروڑ بتا رہا ہے، خوف کا شکار ہو۔ دو ارب کی تعداد میں سے اگر آپ اُن مسلمانوں کو باہر نکال دیں جو سُنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی وغیرہ ہیں تو ہو سکتا ہے۔ دو ارب کے اعداد ایک ارب ساٹھ ستر کروڑ تک آ جائیں۔ اس لیے کہ یہ سارے گروہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے ان میں سے اکثر، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اگر ان کا موقف تسلیم نہ کیا جائے تو تشدد پر بھی اُتر آ تے ہیں ۔ ان گروہوں کو نکال کر جو تعداد باقی بچتی ہے اُس میں سے تحریکِ طالبان پاکستان کے تازہ ترین موقف کی رُو سے اُن مسلمانوں کو بھی نکالنا پڑے گا جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور اُنہیں بھی جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، اس موقف کا اظہار تحریکِ طالبان پاکستان نے حال ہی میں اُس وقت کیا ہے جب عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر وزیرستان میں ایک لاکھ لوگوں کے ہمراہ مارچ کرنے کا اعلان کیا ۔ جو تعداد اب بچ گئی ہے اس میں سے میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی نکالنا پڑے گا کیونکہ جس صحافی یا کالم نگار کی رائے بھی مسلمان قارئین کو پسند نہیں آتی، وہ ایک لمحہ تامل کئے بغیر اُسے یہودی، کافر، قادیانی یا غیر مسلم قرار دے دیتے ہیں، اب مشکل یہ ہے کہ یہ سارے لوگ اگر مسلمانوں میں سے خارج کر دیے جائیں تو جو تعداد باقی بچتی ہے وہ نہ جانے بچتی بھی ہے یا نہیں!
بہرطور، یہ تعداد دو ارب ہے یا پونے دو ارب، یہ حقیقت ہے کہ یہ انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ اس سیارے کی کی کل آبادی کا یہ کم از کم ایک تہائی حصہ ہے۔ اگر آپ ان دو یا پونے دو ارب مسلمانوں کے حالات پر غور کریں اور ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کریں تو آپ چند عجیب و غریب نتائج پر پہنچتے ہیں۔
پہلا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عسکری حوالے سے طاقتور ہیں نہ اقتصادی لحاظ سے، لیکن اس کے باوجود غیر مسلم طاقتیں ان سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ اگر آپ دنیا کے عیسائی، یہودی، ہندو اور بُدھ اکٹھے کر لیں تو وہ مسلمانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں اور ان کی عسکری اور اقتصادی قوت بھی ہزاروں گُنا نہیں، تو سینکڑوں گُنا ضرور زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہ سارے گروہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں، ان گروہوں کا یہ خیال ہے، یا کم از کم وہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ مسلمان اُن کے ممالک پر یعنی دوسرے لفظوں میں پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا نتیجہ جس پر آپ پہنچتے ہیں یہ ہے کہ دنیا کے یہ سارے مسلمان، خواہ جو زبان بھی بولتے ہیں اور جس ملک میں بھی رہتے ہیں، اپنے مذہب کے بارے میں بے حد حسّاس ہیں کسی صورت میں بھی وہ اپنے مذہب کی، اپنی آسمانی کتاب کی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مسلمان اپنی جان قربان کر سکتے ہیں، اپنے بچوں کو بھی قربان کر سکتے ہیں، اپنا مال یہاں تک کہ اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں لیکن اپنے مذہب پر، قرآن کے احترام پر اور اپنے پیغمبر کی شان پر ایک انچ کیا، ایک ذرّہ کیا ، ذرّے کے ہزارویں حصے کے برابر بھی لچک دکھا سکتے ہیں نہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔
تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی عزت پر جان مال، آبرو، اولاد قربان کر دینے والا مسلمانوں کا یہ دو ارب کا جمّ غفیر، اسلام اور اسلامی تعلیمات کی سب سے زیادہ مخالفت خود کرتا ہے۔ آپ کو اس نتیجہ پر یقین نہ آئے تو آپ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے۔
مسلمانوں کے رسول نے انہیں حکم دیا تھا کہ ”علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے“ لیکن اس وقت ناخواندگی میں مسلمان دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ رسول کریم کے حکم کی واضح نافرمانی میں یہ اپنی عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
ان کی آسمانی کتاب میں درجنوں بار حکم دیا گیا ہے کہ کائنات پر غور کرو۔ چاند اور سورج کے آنے جانے اور ہَوائوں کے چلنے پر تدبر کرو لیکن اس کے باوجود کائنات کے بارے میں مسلمانوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سارا کام غیر مسلم کر رہے ہیں۔
ان کے رسول نے فرمایا تھا کہ مجھے علم الابدان (یعنی میڈیکل سائنس) اور علم الادیان (مذاہب کا علم) پسند ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے بادشاہ، صدر، وزیر اور امرا سب علاج کے لیے امریکہ اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں، بائی پاس سے لے کر پنسلین تک، ہیپاٹائٹس کے انجکشن سے لے کر ٹی بی کے علاج تک ….گذشتہ پانچ سو برس کے دوران مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
ان کے رسول کا واضح ارشاد تھا کہ بیماری کی صورت میں کوالیفائیڈ (یعنی اہل) طبیب کے پاس جا ئو۔ اس کی مخالفت میں مسلمان ہر عطائی، ہر تعویذ فروش، ہر جعلی پیر اور ہر فراڈ کرنے والے کے پاس جاتے ہیں اور جوق در جوق جاتے ہیں۔
ان کی مقدس کتاب میں بیسیوں بار حکم دیا گیا ہے کہ امانتوں اور عہد کا خیال رکھو لیکن عہد شکنی میں اس وقت مسلمانوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نوّے فیصد مسلمان وعدہ نہیں ایفا کرتے، آپ ایک ہزار مسلمانوں سے وعدہ لیں کہ وہ آپ کے پاس شام پانچ بجے پہنچ جائیں گے، شاید سو بھی یہ وعدہ پورا نہ کریں اور شاید پچاس بھی معذرت نہ کریں اس لیے کہ ان کے نزدیک وعدہ شکنی کوئی بُرائی نہیں۔ آپ مکان بنا کر دیکھ لیں، بچے کی شادی کی تقریب برپا کر کے دیکھ لیں، تجارتی مال کا آرڈر دے کر دیکھ لیں، عملی زندگی میں مسلمان عہد شکنی میں بے شرمی کی حد تک پست ترین سطح پر اُترے ہوئے ہیں۔
ان کے پیغمبر نے فرمایا تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس وقت مسلمان ملکوں میں ملاوٹ سب سے زیادہ ہے۔ جو ملک اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتا ہے اس میں لائف سیونگ ادویات سے لے کر معصوم بچوں کے دودھ تک، خوراک سے لے کر تعمیراتی سامان تک، ہر شے میں ملاوٹ ہے اور المیہ یہ ہے کہ تاجر حضرات کی اکثریت ”مذہبی“ ہونے کا اظہار بھی کرتی ہے اور دعویٰ بھی۔
ان کے رسول نے حکم دیا تھا کہ غیب کا حال پوچھنا بھی منع ہے لیکن مسلمان ہر اُس شخص سے مستقبل کا حال پوچھتے پھرتے ہیں جو قرآن کی ایک آیت بھی درست نہیں پڑھ سکتا اور اُس کے بے ریش ہونے کو خوبی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
چوتھا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان، بدقسمتی سے عزتِ نفس سے بھی محروم ہو گئے ہیں، پچاس اسلامی ممالک کو چھوڑ کر آباد ہونے کے لیے یہ گروہ در گروہ اُن ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں جنہیں یہ کافر قرار دیتے ہیں۔ غیر مسلم، ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں اور ان غیر مسلم حکومتوں سے مساجد کی تعمیر سے لے کر بیروزگاری الائونس تک، ہر سہولت لے رہے ہیں یہاں تک کہ متشرع حضرات کی ایک کثیر تعداد، سوشل سیکورٹی (یعنی بے روزگاری الائونس) لے کر تبلیغ کے کام میں مصروف ہے!