دو انواع آپس میں جنسی ملاپ کے ذریعے افزائش نسل کیوں نہیں کر سکتیں ؟
—–
اسکی پہلی رکاوٹ تو جسم کی ساخت اور حجم کا فرق ہے ، مثلا ایک چوہا اور ہاتھی آپس میں افزائش نسل نہیں کر سکتے ،
دوسری رکاوٹ مادہ کے بدن کی کیمیائی ساخت ہے جس میں مرد کے جنسی خلیوں (سپرمز ) نے زندہ بھی رہنا ہے ، آگے بڑھ کر مادہ کے جنسی خلیے (اووا ) تک بھی پہنچنا ہے اور اس سے ملاپ بھی کرنا ہے ، اگر یہ کیمیائی ساخت مرد کے جنسی خلیوں کیلیے موزوں نہ ہو تو جنسی عمل کے بعد یہ خلیے مادہ کے بدن میں مر جایئں گے اور اووا سے ملاپ نہیں کر پایئں گے یوں بچہ نہیں بن پاۓ گا ،
لیکن فرض کریں آپ ان دونوں رکاوٹوں پر قابو پا لیتے ہیں ، یعنی مادہ اور نر دونوں سے ایک ایک جنسی خلیہ لیتے ہیں اور انھیں ٹیسٹ ٹیوب میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں ، یہاں تیسری رکاوٹ آ جاتی ہے جو جینیاتی ہے ، اس کیلیے نیچے پنسلوں والی تصویر دیکھیں ،
یاد کریں کہ مادہ اور نر دونوں کے جنسی خلیوں میں آدھے آدھے کروموسوم ہوتے ہیں (دایئں طرف کی سب پنسلیں نر کی، بایئں طرف کی مادہ کی )،
دونوں خلیے ملتے ہیں تو پورے کروموسومز کا سیٹ بنتا ہے (سب پنسلیں )، اب ہر کروموسوم ڈی این اے پر مشتمل ہے ، ڈی این اے کے مختلف حصوں (جینز ) نے بدن میں مختلف کام کرنے ہیں (ہر پنسل ایک جین ہے ) ،
کچھ کام زندہ رہنے کیلیے ضروری نہیں ہیں مثلا بالوں کا رنگ (مثلا پیلے رنگ کی پنسلوں کا کام )، کچھ بہت ضروری ہیں مثلا دل کے والو بنانا (سرخ رنگ کی پنسلوں کا کام ) ،
(اگلے جملے کو دو بار پڑھ لیں ) ''خلوی ملاپ کے دوران کروموسومز کے سیٹ میں ایک جیسے کام والے حصوں کو آمنے سامنے ہونا چاہیے ''''
، یعنی مادہ کے کروموسومز کا دل کے والو بنانے والا حصہ اور نر کے کروموسومز کا دل کے والو بنانے والا حصہ آمنے سامنے ہوں (دونوں طرف کی سرخ رنگ کی پنسلیں آمنے سامنے ہوں )،
اگر دو غیر ضروری حصے (مثلا بالوں کی رنگت والے ) آمنے سامنے نہ ہوں تو کوئی بات نہیں ، اگر ضروری حصے (مثلا دل کے والو بنانے والے ) آمنے سامنے نہ ہوں تو بچہ نہیں بن پاۓ گا ،
اسلیے اگر دو انواع میں کروموسومز کی تعداد نہ بھی ملتی ہو تو نایاب کیسز میں انکا جنسی عمل کے ذریے افزائش نسل کرنا ممکن ہے اگر ضروری کام والی جینز (مثلا سرخ پنسلیں ) آمنے سامنے ہوں ، اسکی کچھ مثالیں یا ہائبرڈ ، خچر (گھوڑے اور گدھے کا ملاپ ) ، لائیگر (شیر اور چیتا )، زونکی (زیبرا اور گدھا ) اور پودوں میں بہت سی مثالیں ہیں ،
(یہاں کچھ دلچسپ سوال اٹھتے ہیں، اگر کسی نے پوچھے تو ضرور راۓ دوں گی ) ، آداب
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“