دو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائی، جن کے والد کمپیوٹرسائنس میں پی ایچ ڈی ہیں، کی شادی کا کارڈ سامنے ہے….!
دلہنوں کا نام درج نہیں، ہم سوچ رہے ہیں کہ ان دونوں مخنچوؤں کی کیا آپس میں شادی ہورہی ہے؟
جب عورت کا وجود اس قدر غیر اہم ہے کہ اس کا نام شادی کارڈ پر درج کرنا ہی بے حیائی سمجھی جائے تو پھر یہ لوگ اپنی زندگی سے عورت کا وجود خارج ہی کیوں نہیں کر دیتے….؟
شادی کارڈ کوئی اخبار تو ہے نہیں کہ سارے زمانے کو بیٹی یا بہو کا نام پتہ چل جائے گا…. شادی کی تقریب کا کارڈ قریبی عزیزوں اور دوستوں کو ہی دیا جاتا ہے۔
اس میں نام درج نہ کر کے ایسے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنی ازلی جہالت کا ثبوت پیش کردیتے ہیں۔
بہت برس پہلے کی بات ہے، فیس بک یا کسی اور نیٹ فورم پر جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بحث چل رہی تھی، ہم نے وہاں اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو تربیت دی جائے کہ انہیں خدانخواستہ ایسے کسی موقع پر اپنا دفاع کس طرح کرنا چاہیے۔
وہیں ہم نے کچھ اسکیچز بھی شیئر کیے جس میں بتایا گیا تھا، کہ مردوں کا سب سے نازک مقام دونوں ٹانگوں کے بیچ ہے، اگر جوتے یا سینڈل کی نوک سے لات رسید کی جائے تو فوطے (testicles) زخمی ہوجائیں گے، اگر پیر پھنسے ہوئے ہیں تو گھٹنے سے ضرب لگائی جائے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر ہاتھ میں چابی ہونے کی صورت میں اس کی نوک گھسا دی جائے۔ کچھ نہ ہو تو پھر انگلی سے یہ کام لیا جائے اور فوطوں کو پھاڑ دیا جائے۔
ہمیں حیرت ہوئی کہ اس فورم پر بیشتر پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیمیافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں نے ہم پر لعنت ملامت شروع کردی۔
ایک صاحب نے تو مذہب پرستوں کی عادت کے مطابق اپنے جانتے میں ذاتی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم اپنی بیٹی یا بہن کے ساتھ یہ ساری بات کرسکتے ہو؟
ہم نے نہایت اعتماد سے کہا کہ ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے، لیکن جب بڑی ہوگی تو ہم اس کو یہ تربیت ضرور دیں گے۔
اس جواب کے بعد ہمیں اس مختصر سی امت مسلّمہ نے متفقہ طور پر قادیانی قرار دے دیا، جب کہ الحمدللہ ہم قادیانیوں کو بھی اتنا ہی گدھا سمجھتے ہیں، جتنا کہ کسی بھی مذہب پرست کو۔
جب مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا شرمناک واقعہ منظرعام پر آیا اور اس کے بعد اس نے اپنے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی جدوجہد شروع کی اور پھر اس کی جرأت پر دنیا بھر میں اس کی پذیرائی کی تو مذہب پرستوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا، کہ اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا، وہ لوگوں کے سامنے کیسے آجاتی ہے؟
ہمارے سامنے یہ بات ہوئی تو ہم نے پوچھا کہ کیا وہ مرجائے؟
سب نے آئیں بائیں شائیں کی، لیکن ان کی آئیں بائیں شائیں سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ جس خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی جائے تو پھر اس کو خودکشی کرلینی چاہیے۔
گھروں میں ماں باپ جب اپنی بیٹیوں کے چہرے کو اس کی اندامِ نہانی سمجھیں گے، یا اس کے وجود کو جنسی عضو اور اس وجود کو سیاہ لبادے میں گم کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے بیٹوں کے ذہن میں دنیا بھر کی خواتین کے متعلق یہی سوچ پروان چڑھے گی۔
اسکول میں سائنس کا مضمون پڑھانے والی خواتین ٹیچرز بچیوں کو ان کے بالوں کو ڈھانپنے پر اس قدر زور دیتی ہیں، جیسے کہ سر کے بال نہ ہوں، زیرناف بال ہوں۔
یہ ہم معاشرے کے جس طبقے کی تصویر پیش کررہے ہیں، وہ نہایت تعلیم یافتہ، مہذب اور خوشحال ہے۔
اس طبقے کے بہت سے لوگ آج کل فوج کے خلاف بھی بڑھ بڑھ کر بولنے لگے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم کچھ کہتے تھے تو یہی لوگ اچھل کود شروع کردیتے تھے۔
چلیے نواز شریف کی جدوجہد رنگ لاتی ہے اور فوج کے ساتھ میگناکارٹا کی طرز کا کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، جس کے بغیر جمہوریت کا ارتقاء ممکن نہیں ہوگا۔ تو کیا اس صورت میں معاشرہ سدھار کی طرف چل پڑے گا؟
شاید نہیں!
اس لیے کہ جب تک آئین، نصابِ تعلیم، انصاف، معیشت اور زندگی کے دیگر شعبوں سے مذہب کو علیحدہ نہ کیا گیا، جمہوریت ایک لعنت کی صورت اختیار کر جائے گی۔
اس لیے کہ جمہوریت کے ذریعے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں ملوث دہشت گرد اسمبلی میں پہنچیں گے، اہم وزارتوں کے قلمدان سنبھالیں گے۔ پھر سوچیے کہ معاشرے کی صورتحال کس قدر بھیانک ہوجائے گی۔
آج یونیورسٹی کے اساتذہ پروفیشنل مضامین کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو تلقین کرتے ہیں کہ خواتین کے لیے گھر کے بھانڈے برتن اور انڈے بچے کرنا ان کی آخرت کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
معاف کیجیے گا…. ہمیں تو ڈر ہے کہ آئین سے مذہب کو کھرچ کر نکالے بغیر اور اسے سیکولر بنائے بغیر یہ جمہوریت اگلے دس برسوں میں ہمارے شہروں کو الف لیلہ کا بغداد بنا دے گی۔
اس وقت یہ صورتحال ہے کہ کراچی سے املی کھٹی چٹخارے والی مسلم لیگ نے جن امیدواروں کو الیکشن میں کھڑا کیا ہے، وہ چہرے مہرے سے جن ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی تصویریں بچپن میں ہماری چار آنہ لائبریری کی کہانیوں کے سروورق پر چھپتی تھیں۔
این اے 242 سے کھٹی مسلم لیگ نے جسے نامزد کیا ہے، ان کی ریش مبارک دو شاخہ ہے۔ اس طرز کی ریش شیخ چلی کی باتصویر کہانیوں میں دکھائی دیتی تھی۔
چنانچہ بھائیو اور اپنے بھائیوں کی بہنو…. یہ الیکشن تو کیا آنے والے باقی تمام الیکشن کا ہم بائیکاٹ کریں گے، اس وقت تک جب تک کہ آئین کو سیکولر نہیں بنادیا جاتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“