ایک سیاستدان، گلِ لالہ کے پھول، گھوڑے، مینڈک اور ہیضے کے جراثیم میں کیا چیز مشترک ہے؟
اس کا جواب جاننے کے لئے پہلے کچھ بات بائیولوجی کی۔
ڈی این اے کی ساخت کی دریافت بائیولوجی کا اہم سنگِ میل تھا۔ ڈی این اے کا ڈبل ہیلکس ایک چکردار سیڑھی کی طرح ہے۔ اپنا انگوٹھا اگر چھت کی طرف کریں تو ڈی این اے کی سیڑھی انگلیوں کی مخالف گھڑی وار سمت میں لپٹے گی۔ اس کی یہی ساخت اور یہی سمت ہر جاندار کے ہر خلیے میں ہوتی ہے۔ ہر دھاگے کی دو ریڑھ کی ہڈیاں، جو ایک دوسرے سے بیس کے جوڑوں سے ملی ہوئی ہیں جو ایک دوسرے میں اس طرح فٹ ہوتے ہیں جس طرح کسی معمے کے ٹکڑے مل جاتے ہیں۔ زاویہ میں کٹا ہوا “اے”، “ٹی” کے ساتھ۔ خمیدہ “سی”، “جی” کے ساتھ۔ واٹسن اور کرک نے جو اہم چیز دریافت کی تھی، وہ یہ کہ اس کی دونوں اطراف ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں۔ اور اس میں صرف ایک سائیڈ سے بھی مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی اس کے ایک نصف کا پتا ہو تو ہم اس کا دوسرا نصف معلوم کر سکتے ہیں۔
لیکن اس بائیولوجی سے بائیولوجی کا بڑا معمہ حل ہونے میں ذرا سی بھی پیشرفت نہیں ہو سکی تھی۔ ڈی این اے سے آخر پروٹین کیسے بنتی ہے۔ اس پراسس کو سمجھنے کیلئے سائنسدانوں کو ڈی این اے کی کیمیائی کزن آر این اے کی چھان بین کرنا پڑی تھی۔ یہ کزن ڈی این اے کی طرح ہی ہے لیکن اس میں دو کے بجائے ایک دھاگہ ہوتا ہے، اور “ٹی” کا حرف “یو” سے بدل جاتا ہے۔ بائیوکیمسٹ کی دلچسپی اس میں اس لئے ہوئی کہ جب خلیہ پروٹین بنانے لگتا ہے تو ان کی مقدار خلیے میں اچانک زیادہ ہو جاتی ہے۔، جب اس کا پیچھا کرنا شروع کیا تو اس کو پکڑنا بڑا مشکل رہا۔ بس جھلک دکھا کر غائب۔ اس کے لئے تجربات، انتظار، صبر اور کچھ برس لگے کہ یہ معلوم ہو کہ خلیے میں ہو کیا رہا ہے۔ ڈی این اے کے حروف سے پروٹین بننے کا سفر کیا ہے۔
خلیے کے نیوکلئیس میں ڈی این اے ہے۔ یہ کبھی اس سے باہر نہیں نکلتا، بلکہ اپنی کاپی آر این اے کی صورت میں بنا کر بھیجتا ہے۔ اس کے ایک دھاگے سے یہ کاپی بن جاتی ہے اور نیوکلئیس سے باہر نکل جاتی ہے۔ باہر آنے والے کو پیغام رساں آر این اے کہا جاتا ہے۔ اس سے اگلی باری پروٹین بنانے کی فیکٹری رائیبوزوم کی ہے۔
رائبوزوم اس پیغام رساں آر این اے کو ایک سرے سے پکڑ لیتی ہے اور اس کے ایک وقت میں اس کے تین حروف (ٹرپلٹ) لے لیتی ہے۔ اس وقت ایک آر این اے کی دوسری قسم ٹرانسفر آر این اے اس کے پاس آتی ہے۔ ہر ٹرانسفر آر این اے کے دو حصے ہیں۔ ایک آگے لگا ٹرپلٹ جو کسی بحری جہاز کے مستول کی طرح باہر نکلا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے امینو ایسڈ جو یہ کسی سامان کی طرح کھینچ کر لاتا ہے۔ کئی ٹرانسفر آر این اے رائیبوزوم کے چنے ہوئے ٹرپلٹ کے ساتھ جڑنے کی کوشش کریں گے لیکن صرف ایک ہی ایسا سکتا ہے جس کا کمبی نیشن اس کے ساتھ میچ کر جائے۔ جب یہ ہو جائے گا تو رائیبوزوم اس کا امینو ایسڈ پکڑ لے گا۔
اب ٹرانسفر آر این اے چلا جائے گا۔ پیغام رساں آر این اے کے اگلے تین حروف پڑھے جائیں گے، ان کے ساتھ والا نیا امینو ایسڈ میچ کیا جائے گا اور دوسرا امینو ایسڈ اتار لیا جائے گا اور جگہ پر لگ جائے گا۔ یہی دہراتے ہوئے امینو ایسڈ کی زنجیر بن جائے گی۔ یہ زنجیر پروٹین ہے۔ یہ پروٹین فولڈ ہو جاتی ہے۔ پروٹین کے یہ مالیکیول خلیوں میں کام کرنے والے گھوڑے ہیں۔ جسم کے اعضاء اور ٹشو کے سٹرکچر، فنکشن اور ریگولیشن ان سے ہوتی ہے۔ کسی بھی ٹرپلٹ کے ساتھ صرف اور صرف ایک امینو ایسڈ منسلک ہے۔ اس لئے انفارمیشن ڈی این اے سے آر این اے اور پھر پروٹین تک پرفیکٹ طریقے سے پہنچ جاتی ہے۔ 1958 میں فرانسس کرک نے ڈی این اے سے آر این اے اور آر این اے سے پروٹین بننے کو مالیکیولر بائیولوجی کا مرکزی ڈاگما قرار دیا۔
تو پھر ایک سیاستدان، گلِ لالہ کے پھول، گھوڑے، مینڈک اور ہیضے کے جراثیم میں کیا چیز مشترک ہے؟
ان سب میں ڈی این اے کی ساخت، اس سے پیغام رساں پروٹین بننے کا طریقہ، اس سے رائبوزوم تک جانا، ان میں سے انفارمیشن کو تین تین حروف کر کے پڑھنا، ان کا ترجمہ بیس امینو ایسڈ میں ہونا، اس سے پروٹین بننا۔ اس تمام عمل میں کسی بھی جاندار میں کوئی بھی فرق نہیں۔ یہ بالکل ایک ہی طرح چلتا ہے۔ ایک سیاستدان اور مینڈک کی صورت اور ساخت ایک ہی طرح کیوں نہیں؟ کیونکہ ڈی این اے کوڈ مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا ترجمہ کر کے بننے والے پروٹین مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امینو ایسڈ بیس ہی کیوں ہیں؟ ایک ٹرپلٹ کے ساتھ یہ 64 ہو سکتے تھے۔ جارج گامو، جن کی شہرت بگ بینگ اور ریڈیو ایکٹیویٹی پر کام کرنے کی وجہ سے ہے، انہوں نے اس کوڈ کا پتا لگانے کے لئے آر این اے ٹائی کلب بنایا۔ اس میں چوبیس بائیولوجسٹ اور فزسٹ تھے۔ رچرڈ فائنمین، کرِک اور واٹسن بھی اس کلب کا حصہ تھے۔ اس دور میں فزکس ایٹم بم بنانے کی وجہ سے موت کی سائنس سمجھی جا رہی تھی۔ بائیولوجی زندگی کی سائنس تھی۔ اس کی وجہ سے کئی فزسٹ بائیولوجی میں کام کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ کلب اس کوڈ کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ اس کلب نے طرح طرح کے کوڈ دیکھے، کوڈ جو اپنی مرمت کر سکیں، سیکورٹی کوڈ، ڈائمنڈ کوڈ، اما کوڈ، مثلث کوڈ، کوڈ جو زیادہ انفارمیشن رکھ سکیں۔
اس سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بیس امینو ایسڈ ہونے کی کوئی گہری وجہ نہیں تھی۔ یہ ڈیزائن زندگی کی ابتدا پر چار ارب سال قبل ایک بار سیٹ ہو گیا تھا تو ویسا ہی چلا آ رہا ہے۔ بائیولوجی کا یہ کی بورڈ اب بدل نہیں سکتا۔ اس کی اتنی ہی تعداد ہونے میں کوئی خاص گہرائی نہیں نکلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ اس کلب کے کئے گئے کام سے خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا لیکن کوئی بھی مایوسی جلد ختم ہو گئی۔ ڈی این اے اور آر این اے کی گتھی سلجھنے نے سائنسدانوں کو جینیات کی پرانی بحث طے کر دی۔ کیا جین انفارمیشن ہے یا جین کیمیکل ہے؟ اس کا جواب “دونوں” کی صورت میں مل گیا۔ ڈی این اے کوڈ 64 امینو ایسڈ کیوں نہیں استعمال کرتا؟ اس کا جواب بھی بائیوکرپٹوگرافر جانتے ہیں۔ فینسی کوڈ اچھے فیچر تو دیتے ہیں لیکن جتنا کوڈ فینسی ہو جائے، کسی غلطی سے اس کا ٹوٹ جانا اور بڑی خرابی پیدا کر دینا آسان ہو جاتا ہے۔ ڈی این اے کے کوڈ میں پائی جانے والی ریڈنڈنسی کی وجہ سے میوٹیشن ہو جانے کی وجہ سے جاندار کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سادہ لگنا اور زیادہ گہرائی نہ ہونا اس کی کامیابی کی ایک وجہ ہے۔ زمین پر چار ارب سال سے زندگی کی کھڑکی توڑ کامیابی اس کا واضح ثبوت ہے۔
اس سب عمل پر ایک مختصر ویڈیو دیکھنے کے لئے