اکٹر رِک سٹراس مین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں ایک خاص قسم کا کیمیائی مادہ ہوتاہے جو خاص خاص مواقع پر خارج ہوکر دماغ میں شامل ہوتاہے جس سے انسان اپنے سامنے موجود دنیا کی بجائے کسی اور دنیا کی سیر کو چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رِک سٹراس مین کے بقول یہ کیمیائی مادہ جب نیند میں خارج ہوتاہے تو انسان خواب دیکھتاہے اور اگر جاگتے ہوئے خارج ہونے لگے تو انسان جاگتی آنکھوں کے ساتھ کسی اور دنیا میں چلا جاتاہے یا کسی اور قسم کی فرضی اور تخیّلاتی مخلوقات سے بات چیت کرنے لگتاہے، یعنی ہلوسی نیشن کا شکار ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر رک سٹراس مین کا یہ بھی خیال ہے کہ جب انسانی دماغ کو چوٹ لگ جائے یا کسی وجہ سے اُسے کوئی نقصان پہنچ رہا ہو تو یہ کیمیائی مادہ زیادہ تیزی کے ساتھ خارج ہوتاہے اور ایسی کیفیات میں بھی انسان عجیب و غریب دنیاؤں میں جاپہنچتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ غالباً یہی وجہ ہے جس کی بنا پر لوگ مرتے وقت اپنے مُردہ رشتہ داروں یا فرشتوں کو دیکھتے ہیں یا قبر، جنت دوزخ وغیرہ کے مناظر دیکھنے لگ جاتے ہیں۔
یہ کیمیائی مادہ دراصل ایک مالیکیول کی وجہ سے ہے جو انسانی جسم میں پایا جاتاہے۔ اس مالیکیول کا مختصر نام ڈی ایم ٹی ہے جو ’’ڈائ میتھائیل ٹرِپٹامِین‘‘ کا مخفف ہے۔ ڈی ایم ٹی ایک ایسا مالیکیول ہے جس کے زیرِ اثر کوئی بھی شخص تین ڈائمینشنز (3D)سے زیادہ ڈائمیننشنز کے علاوہ ایسی عجیب و غریب دنیا ؤں کا مشاہدہ کرسکتاہے جن میں فزکس کے سارے قوانین توڑے موڑے جاسکتے ہیں۔ ڈی ایم ٹی کے زیرِ اثر شخص یہ دعویٰ بھی کرتاہے کہ اُس نے مافوق الفطرت ہستیوں یہاں تک کہ خلائی مخلوق یعنی ایلیَنز کے ساتھ بھی رابطہ کیا ہے۔ ڈی ایم ٹی کے زیرِ اثر کوئی بھی شخص مذہبی یا صوفیانہ واردات سے گزرنے کا دعویٰ بھی کرسکتاہے اور یہ دعویٰ بھی کرسکتاہے کہ اُس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ ڈی ایم ٹی کا ایک ٹرِپ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ اور کم سے کم آدھے منٹ کا ہوسکتاہےلیکن ڈی ایم ٹی کے زیراثر شخص سے پوچھا جائے تو وہ بتاتاہے کہ وہ کئی کئی گھنٹوں بلکہ کئی کئی دنوں کے لیے سیر پر چلا گیا تھا یعنی ڈی ایم ٹی کے تجربہ کے دوران زیرِ اثر شخص کے ساتھ فرضی ٹائم ڈائیلیشن واقع ہوتاہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ تاریخ ِ انسانی میں ڈی ایم ٹی سے زیادہ طاقتور ’’سائیکے ڈیلِک‘‘ آج تک دریافت نہیں ہوا۔ چونکہ ڈی ایم ٹی ہمارے جسموں میں پیدا ہوتا ہے اس لیے مغربی ممالک کے عامۃ الناس اسے ’’ رُوح کا مالیکیول‘‘ (Spirit Molecule) بھی کہتے ہیں۔ اِس کے باوجود کہ ڈ ی ایم ٹی انسانی جسم کے اندر پیدا ہوتاہے ، پھر بھی کئی ممالک میں ڈی ایم ٹی کا استعمال ’’ممنوعہ ڈرگز‘‘ کے ذیل میں آتاہے یعنی انسان اپنے ہی جسم سے یہ مادہ نکال کر اپنے آپ کو ہی انجکشن نہیں لگاسکتا کیونکہ ڈی ایم ٹی کا استعمال ممنوع ہے۔
نظریۂ ارتقأ کے ماہرین جب اِس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ انسان کو شعور سب سے پہلے کب ملا ہوگا تو جہاں دیگر کئی نظریات پائے جاتے ہیں وہاں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ شروع دور کے انسانوں میں ڈی ایم ٹی سے پیدا ہونے والے ہَلوسی نیشنز (Hallucinations) نے موجودہ شکل کے شعور کی تخلیق کی ہوگی۔ یہ شعور جو ابنِ سینا کے بقول بیک وقت، قوتِ مدرکہ، قوتِ متفکرہ، قوتِ متخیلہ، قوتِ حافظہ اور قوتِ وہمیہ کا مجموعہ ہے ابتداً ایک کیمیائی مادے کی وجہ سے وجود میں آیا ہوگا۔
یعنی لگ بھگ انسانی ارتقأ کے چھ ملین سال بعد بالآخر جب انسان ماڈرن مین کے طور پر اپنے مشترک اجداد سے الگ ہونا شروع ہوا تو ایک نہایت ہی غیرمعمولی مظہرِ فطرت بھی رُونما ہونا شروع ہوگیا۔ اس واقعہ کو ابھی ایک لاکھ سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ ایسا عجیب و غرب مظہر تھا کہ ارتقائے حیات کی اربوں سالہ تاریخ میں اس کی مثال موجود نہیں ۔ اور یہ مظہرِ فطرت تھا، ’’شعورکا ظہور‘‘۔ اعداد و شمار کو مزید محدود کیا جائے تو یہ دور فی الاصل آج سے چالیس ہزار سال پہلے شروع ہوا، جب انسان ایک ایسی مخلوق بننا شروع ہوئے جو علامات کا استعمال کرتی تھی۔ اس عظیم ترین تبدیلی کو ارتقائے انسانی کے سب سے اہم پہلُو کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ قدیم غاروں میں انسانوں کی ابتدائی آرٹ کے علاوہ چٹانوں میں کھودے گئے مجسمے، کَتبے اور دیگر فنون سے اندازہ لگایا جاتاہے کہ شعور کے ظہور کا دور کب شروع ہوا اور کیسے شروع ہوا۔
گزشتہ تیس سالوں میں مشہور آرکیالوجسٹ پروفیسر ڈیوڈ لوئس ولیم (David Lewis Wiilaim) اور کئی دیگر ماہرین نے متعدد بارایک حیران کن خیال کا اظہار کیا ہےجو فی زمانہ کسی علمی نظریہ کی سی صورت اختیار کرچکاہے۔اِن ماہرین کاخیال ہے کہ انسانوں میں ’’شعورکے ظہور‘‘ کا یہ عجیب و غریب واقعہ غالباً ’’تخیّل پیدا کرنے والے، تخیّل تراش پودوں‘‘ کے استعمال سے پیش آیا ہوگا۔ توہم و تخیّل پیدا کرنے والے پودوں کو انگریزی میں ’’وژنری پلانٹس‘‘ کہتے ہیں۔ ان ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’شامن اِزم‘‘ کی ابتدأ بھی انہی پودوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یاد رہے کہ شامن اِزم تاریخ اِنسانی کا سب سے پرانا مذہب ہے اور اس سے پرانا کوئی مذہب آرکیالجسٹوں کو ابھی تک نہیں مل سکا۔ شامن ازم قدیم غاروں کے زمانے سے انسانوں کے ساتھ ہے اور اس مذہب کے ماننے والے بدرُوحوں، جنات، بھوت پریت، پریوں اور مرے ہوئے لوگوں کی رُوحوں سے رابطے پہ ایمان رکھتے ہیں۔ایک شامن وہ ماہر کاہن یا مذہبی پیشوا ہوتاہے جو مُردوں کی رُوحوں کے ساتھ بات یا جنات اور بھوت پریت کے ساتھ رابطہ کرسکتاہے۔ پروفیسر ڈیوڈ لوئس ولیم اور دیگر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ شامن اِزم کی ابتدا ٔ بھی یقیناً ’’وژنری پلانٹس‘‘ کی بدولت ممکن ہوئی ہوگی۔
David Lewis Wiilaim
اگر ہم غاروں کے زمانے کی آرٹ کا نہایت گہری نظر سے مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بلاشبہ وہ آرٹ شعور کی ایک بدلی ہوئی حالت کا نتیجہ تھی۔ ایک ایسی بدلی ہوئی حالت جو انسانی ڈی این اے کے قریبی ترین رشتہ دار یعنی چمپانزی میں موجود نہیں ہے۔ایسے پودے جو انسان کی قوتِ متخیّلہ اور وہمیہ کو زیادہ فعّال کردیتے ہیں اور انسان عجیب و غریب دنیاؤں کی سیرکرنے لگتے ہیں ابتدائی انسان کی متخیّلہ کو فعال کرنے کا باعث ہوئے اور غاروں میں رہنے والے انسانوں نے ابتدائی آرٹ کے نمونے تخلیق کیے۔ اِن پودوں میں ’’مگس کھمبی (Amanita Muscaria Mushroom)‘‘ اور’’طلسمی کھمبی‘‘ (Psilocybin Mushroom) سرفہرست ہیں۔ جبکہ کھمبیوں کی ہی لگ بھگ دوسوقسمیں ایسی ہیں جو ’’تخیّل تراش پودوں‘‘ کی فہرست میں آتی ہیں۔ اِن تمام پودوں کو میڈیکل کی زبان میں ’’سائیکے ڈے لِک‘‘ کہاجاتاہے۔
ایمازون کا جنگل جو شما ل مغربی برازیل کے ایک بڑے علاقہ سمیت، پیرو اورجنوبی امریکہ کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے، دنیا کا سب سے بڑا بارانی جنگل ہے۔ایمازون میں آج بھی بے شمار قدیم امریکی قبائل آباد ہیں اور ان کا مذہب آج بھی شامن اِزم ہی ہے۔ یہ لوگ اپنے خاص مذہبی تہواروں میں یا خاص مذہبی مقاصد کے لیے ایک مشروب پیتے ہیں، جس کا نام ہے، ’’آیا واسکا‘‘(Ayahuasca) ۔آیا واسکا جس پودے سے بنایا جاتاہے اس میں ’’ڈائ میتھائیل ٹرِپٹامِین‘‘ یعنی ڈی ایم ٹی کا مالیکیول قدرتی طور پر موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، تھوڑا تعارف ’’ڈائ میتھائیل ٹرپٹامِین مالیکیول‘‘ کا بھی ہوجائے۔
این، این -ڈائ میتھائل ٹرِپٹا مِین (N