دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
جمیل الدین عالی نے کہا تھا اگر سبط علی صبا نے صرف یہی شعر کہا ہوتا تووہ اردو ادب میں زندہ رہنے کا حق دار تھا، اور ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ اتنا بیدار ، خود نگر، باشعور اور انتہا درجے کا حساس شاعر اگر چند برس اور زندہ رہ جاتا تواردو غزل کچھہ زیادہ پُر مایہ اور باثروت ہوجاتی۔ اس کے باوجود آئندہ صدیوں تک اس کے بے لاگ کھرے اور سچے فن کا نقش نہیں مٹے گا۔
سید سبط علی صبا 38 برس پہلے 14؍ مئی 1980ء کوصرف ساڑھے چوالیس برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے ۔۔ وہ 11نومبر 1935ء کو کوٹلی لوہاراں ،ضلع سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم رڑکی(بھارت) اور سیالکوٹ سے حاصل کی۔ پہلے پاک فوج اور پھر پاکستان آرڈیننس فیکٹریز، واہ کینٹ میں ملازم رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ’’طشت مراد‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ 1986ء میں چھپا۔ حالانکہ انہوں نے خود مجموعۂ کلام کا نام ’’ ابرِ سنگ‘‘ طے کیا تھا۔ اس نام سے بعد میں شائع بھی ہوا۔
ان کے کچھہ اشعار
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
جلتے جلتے بجھہ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو
لبوں پہ پھول کھلیں اور زبان سب کو ملے
وہ گھر بناؤں کہ جس میں امان سب کو ملے
لہو میں ڈوب کے تلوار میرے گھر پہنچی
وہ سر بلند ہوں دستار میرے گھر پہنچی
حریص آنکھیں شکار کی جستجو میں ہر اک کو گھورتی ہیں
سنبھل کے چلنا غریب جائی، ہوس کا کیچڑ جگہ جگہ ہے
وہ مجھہ سے نامۂ اعمال مانگتا ہے
خود اتفاق نہیں جس کو اپنی رائے پر
مرے رفیق تماشا سمجھہ کے ہنستے رہے
گلی میں گھیر لیا لشکرِ سگاں نے مجھے
تم اپنے بچوں کو آدمیت کے خوں سے رنگیں نصاب دو گے
تو آنے والی عظیم کل کے حضور میں کیا جواب دو گے
جوسوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لیے اوڑھنی نہیں ملتی
اس شہر سے شور سگاں کیوں نہیں اٹھتا؟
آباد جو مکاں ہیں تو دھواں کیوں نہیں اٹھتا؟
شہرت کی کمیں گاہوں میں قد ماپنے والو
تم سے کبھی غیرت کا نشاں کیوں نہیں اٹھتا؟
اس نے پر کاٹ کے جب بابِ قفس کھول دیا
مجھہ کو اڑنے کے بہت یاد زمانے آئے
تنگ آکے ہم جو بیچنے نکلےوفا صبا
بازار نے خلوص کے بھاؤ گرادئیے
شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھہ نہ ملا
زندگی آ تجھے لے جاؤ کسی گاؤ ں میں
میں فرازِ چرخ سے تارا ہوں اک ٹوٹا ہوا
اس جہاں کی پستیوں میں کھو گیا تو کیا ہوا
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھہ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں
سوچتا ہوں حدت خوں کی کمی اچھی نہیں
گوش بر آواز ہیں کمرے کی دیواریں صباؔ
تخلیئے میں خود سے اچھی بات بھی اچھی نہیں
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگان صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کے سجا لیے
میزان عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے
ہر مرحلہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھہ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے
لب اظہار پہ جب حرف گواہی آئے
آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے
وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے
میرے ہی عہد میں سورج کی تمازت جاگے
برف کا شہر چٹخنے کی صدا ہی آئے
اتنی پر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے
رہ رو منزل مقتل ہوں مرے ساتھہ صباؔ
جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے
آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
لمحوں کی تیز دوڑ میں میں بھی شریک تھا
میں تھک کے رک گیا تو مری عمر گھٹ گئی
اس زندگی کی جنگ میں ہر اک محاذ پر
میرے مقابلے میں مری ذات ڈٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نئے ہم سفرتلاش کریں
ہمارے ہاتھہ میں بیساکھیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوفِ صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“