(Last Updated On: )
اکتوبر 2021ء جاتے جاتے حال مست دریش و جہاں گرد سیلانی دِتُو گھومی کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔نوے سالہ دِتُو گھومی کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی مگر نگری نگری پھرنے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے اس سیاح سے وابستہ یادوں کی باز گشت ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی ۔ کارِ فرہاد میں دلچسپی لینے والا اور سب کو دعا دینے والا اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔معاشرتی زندگی میں جاں کاہ حالات کا سامناکرنے والے مجبوروں سے کھلواڑ کرنے اور ناٹک رچاکر ٹھگی کرنے والوں کے مکر کاپردہ فاش کرنے والاجری مصلح چل بسا ۔گلزار ہست و بُود میں جھاڑ جھنکار اور خس و خاشاک کو راستے سے ہٹاکر اپنے جذبات و احساسات کا انسانی تجربات کے ساتھ انسلاک کر کے انھیں مثبت انداز میں دیکھ کر زندگی کی حقیقی معنویت اُجاگر کرنے والا مہذب چار ہ گراب ماضی کا حصہ بن گیاہے۔ شاہراہِ حیات اور رہ گزرِ خیال میں مظلوموںکے شانہ بہ شانہ رہنے والے مزاج آشنا احباب رفتہ رفتہ وقت کی گرد باد میں بِکھرتے جا رہے ہیں۔ ہماری قسمت کا یہ المیہ ہے کہ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے اُن کی یادیں رفتہ رفتہ اجل کے کوہِ گراں کے نیچے دب جاتی ہیں اور فراموشی سد سکندری بن کر رفتگان اور پس ماندگان کے درمیان حائل ہو جاتی ہے ۔ جانے والے کبھی واپس نہیں آتے مگر اُن کی یادیں ہمیں عذاب ِ در بدری کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں ۔ دِتُو گھومی جہاں بھی جاتا وہاں اپنی داستان چھوڑ آتا اور اس مقام کی یادوں کو آپ بیتی کی صور ت میں بیان کر تاتھا۔ جھنگ کے شمال مغرب میںدریائے جہلم کے کنارے واقع گاؤں لانگ جنوبی میں جنم لینے والے اس محنت کش کی زندگی کی کہانی حسرتوں اور حیرتوں کی طولانی تمہید بن گئی ۔سال 1965ء میں دِتُو گھومی نے اپنی جنم بھومی لانگ جنوبی سے نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ دِتُو گھومی نے جب اپنے آبائی وطن سے قصدِ سفر کیا تو صر صر ِشام فراق سے اُس کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو گیا۔اپنے تہی دامن میں گرداب اور خالی ہاتھ میں عصا اور جیبوں میں حباب سمیٹ کر وہ دِل تھام کر گھر سے نکلا۔ ساجھووال کے خود رو جنگل کے لکڑ ہاروں کے قلب و جگر کے صحرا کے نخوتی اور مُورکھ وطیراُس کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے ۔ اب تو صر ف اُس کا قلب و ذہن ہی اُس کے مشیر تھے جن کی مشاورت سے دِتُو گھومی نے آدھی وال جھنگ شہر کے نواح میں واقع کچی آبادی محلہ مصطفیٰ آباد میں چھے مرلہ کا ایک رہائشی قطعۂ اراضی خریدا ۔ یہاں اپنا ایک چھوٹا سا کچامکان تعمیر کرایا اور اس میں رہائش اختیار کر لی۔اس سہم ناک شہر کی بے تپاک اور طلسمی سر زمین کے شرر بار مکینوں کا انداز نرالا تھا کوئی نہیں جانتاتھا کہ خزاں کے موسم میں اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے ۔دریائے جہلم کے کنارے سے وفا کا جو پودا وہ اپنے ساتھ لایا وہ دریائے چناب کے نئے ماحول اور جھنگ شہر کے موسم میں پروان نہ چڑھ سکا ۔اُس کی شادی وٹے سٹے سے ہوئی تھی، وٹے سٹے کی یہ شادی جن حیلہ ساز ،تلخ گو اور سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے باعث ناکام ہو گئی اُن میں کہرام ٹھگ ،اس کی بیوی بختاوری ، رمضو اُٹھائی گیرا،نائکہ تفسہہ اور رذیل طوائف مصبہا بنو شامل ہیں۔ان ننگ انسانیت درندوں کے مکر کی چالوں کے نتیجے میں دو ہنستے بستے گھرانے ویران ہو گئے ۔اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن علاحدگی کے نتیجے میں دِتُو گھومی کی اہلیہ جیونی اپنے ایک کم سِن بیٹے اور بیٹی کو چھوڑ کر اپنے میکے روانہ ہو گئی اورچند ماہ بعدبھٹہ خشت کے قریب شیرو سے شادی کر کے نیاگھر بسا لیا ۔ یہ شیرو اور جیونی دونوں کی دوسری شادی تھی مگر دِتُو گھومی اپنی پہلی شادی کی ناکامی کے بعد خیمہ گہِ ہجرو فرا ق میں زندگی بھر تنہا اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتا رہا۔بے خواب آ نکھوں کی بستی میں اپنے خوابوں کے حسین تاج محل کی بنیاد رکھنے اور نشاطِ طبیعت کی آرزوکرتے کرتے وہ بے بنیاد اندیشوں کی زد میں آ گیا۔ شام ِ ملالِ مہجوری میں اپنی سانسیں گِن گِن کر وقت گزارنے والا یہ صابر و شاکر درویش سرابوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اُمید اور دِید کے در کیا بند ہوئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے خوابوں کے زیاں نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ۔ تنہائی کے بھیس میں اجل کا عفریت اس کے گھر کے در و دیوار پر منڈلانے لگا۔ افلاسِ یقیں کے مایوس کُن ماحول میں جنسِ گماں کی گرانی کو دیکھ کر دِتُو گھومی نے تنہائیوں اور غموں سے سمجھوتہ کر لیا اور اپنے دوبچوں کی پرورش پر توجہ مرکوز کر دی ۔خلوت اور خاموشی کو پسند کرنے والا دِتُو گھومی سدا اپنی سوچوں میںگُم رہتا اور اپنی ذات کا در وَا کرنے پر آمادہ نہ ہوتاتھا۔ وہ ہمیشہ اس بات کی جانب توجہ دلاتاکہ ایک راست گو عدو بھی برادرانِ یوسف ،آستین کے سانپوں اور بروٹس قماش کے مفاد پرستوں سے کہیں بہترہے۔اس کا کہنا تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے خود غرضی ،مفاد پرستی، حرص اور ہوس کے رجحان کے باعث انسان دغا بازی اور عیاری کی دلدل میں دھنستا چلا جارہاہے اور وفا کے متلاشی سادہ لوح انسانوں کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں۔
جب دِتو گھومی کا بیٹا مُکھاجوان ہوا تو اُس کے بڑے بھائی آحمی نے اپنی نوجوان بیٹی زوبی کے ساتھ اپنے بھتیجے مُکھا کی شادی کر دی اور مُکھاکی بہن کو اپنی بہو بنا لیا۔ نجوم فلک اورگردشِ ایام بھی اس گھرانے کے تعاقب میں رہی ۔بُری صحبت ایسا زہر ہے جو زندگی کی اقدار عالیہ ،درخشاں روایات اور ارفع اخلاقیات کو ختم کر دیتا ہے ۔سیاہی وال سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور ٹھگوںعادی دروغ گو لٹیروں، سفہا اور اجلاف و ارذال جن میں نائکہ تفسہہ،مصبہا بنو ،سموں ،شگن اور صباحت نے زوبی کو ورغلایااور اسے سبز باغ دکھا کر اور جُھوٹی قسمیں کھا کر اپنا گھر چھوڑ کر ایک نیا گھر بسانے پر آمادہ کر لیا۔دتو گھومی کی بہو کو ایک اوباش نو جوان کے حوالے کرنے کے سلسلے میں نائکہ تفسہہ اور طوائف مصبہا بنو نے گھٹیا عیاش نوجوان لڑکے سے وہ پانچ تولے سونا بٹور لیا جو اُس نے اپنی ماں کی تجوری سے چُرایا تھا۔ متلون مزاج اور خوب سے خوب تر کی متلاشی زوبی سازشی عناصر کی برائی سے آ لودہ ر یشہ دوانیوں کی زد میں آ گئی اور اپنی ایک شیر خوار بیٹے کو چھوڑ کر مامتاکا گلا گھونٹ کر اپنے آ شنا کے ساتھ ان جانی مسافت کی جانب چل نکلی ۔نو جوان زوبی اس لیے فریب کاروں کی چنگل میں پھنس گئی کہ اس نے سبز باغ دیکھ کر ان کی اصلیت پر یقین کر لیا تھا۔ ریگ ِ ساحل کے مانند ملائم محسوس ہونے والی عادی دروغ گو ،فریب کار اور دوپٹہ بدل سہیلیوں نے زوبی کو اس انداز میں ورغلایا کہ وہ اپنے گھر گلشن کو چھوڑ کر سرابوں کی جستجو میں نکل پڑی ۔ وہم و گماں کے سیلِ رواں میں زندگی کے تلخ حقائق خس و خاشاک کے مانند بہہ گئے ۔ اس جہاں کا زر و مال،کارِ جہاں ،زیست اور رشتہ و پیوند سب فریبِ سُود و زیاں ہے مگر اکثر لوگ اس فریب کی تہہ تک نہیں پہنچتے۔ زوبی جب اس گھرانے کے افرادکے ہاتھوں کی لکیروں سے نکلی تو ہر طرف مایوسی اور محرومی کا عفریت منڈلانے لگا۔ اپنے ویران گھر کی فضائے درد میں دتو گھومی خزاں خزاں ہو کر رہ گیا۔دتو گھومی کے گھر کی دیواروں پر ویرانی اور اُداسی پھر سے بال کھولے گریہ و زاری کرنے لگی ۔سفلہ ،کینہ پرور اور شقی القلب بہتان طرازوںنے اپنے گھٹیا مقاصد کی تکمیل کی خاطر نوشتہ ٔ تقدیر میں تحریف کو وتیرہ بنا لیا۔ ہٹ دھرمی کا شکار لوگ جب سرابوں پر یقین کرنے لگیں تو کئی صوابدیدی فیصلے بھی تحریف و ترمیم کی زد میں آ جاتے ہیں اورمستقبل کے عذابوںسے گلو خلاصی کے امکانات رفتہ رفتہ معدوم ہو نے لگتے ہیں۔ اپنی بیوی کی علاحدگی اور بہو کے فرار سے دتو گھومی اپنی زندگی سے بیزا ر ہو گیا۔ وہ اس بات پر گہرے کرب میں مبتلا ہو گیا کہ اسے مکمل انہدام کے قریب پہنچانے والے درندے بھی منافقت سے کام لیتے ہوئے اس کے ساتھ خلوص اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ دتو گھومی فریب سوُ د و زیاں کے سب احوال سے آ گاہ تھاوہ اکثر یہ بات دہراتا کہ آستین کے سانپ اخلاقی اقدار کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ جب دتو گھومی قریۂ درد میں صر صرِ وقت کی زد میں آ گیاتو اُس کا بڑا بھائی آحمی آڑے آیا اور اس نے اپنی منجھلی بیٹی سوری کا بیاہ اپنے بھتیجے مُکھا سے کر دیا۔مُکھا کی دوسر ی شادی ہوئی تو دتو گھومی کی جان میں جان آئی اور وہ خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے بعد طلوعِ صبح بہاراں کے بارے میں پُر اُمید رہنے لگا۔فطرت لالے کی حنابندی میں پیہم مصرو ف رہتی ہے ۔ دتو گھومی نے اپنے افرادِ خانہ سے کبھی جھگڑا نہ کیا بل کہ اُس کی خانہ ویرانی کے ذمہ دار اُس کی آ نکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹکتے تھے اور وہ اُن کے شر سے بچنے کی تدابیر سوچتارہتا تھا۔دتو گھومی کے بیٹے کا گھر دوسری مر تبہ بس گیا اور دوسری بہو کی صورت میں آنے والی اُس کی بھتیجی نے گھر کو خوب سنوارا اور جگر کا خون دے دے کر اپنے بھانجے ( زوبی کے بیٹے ) اور اپنی اس شادی سے اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔دغابازی ،دُزدی اور ٹھگی میں دلچسپی رکھنے والے بروٹس قماش محسن کُشوں کے لیے دتو گھومی کی آبادی کی خبر قلب و روح کی بربادی ثابت ہوئی ۔
دِتُو گھومی اپنی خود ی کی نگہبانی کرنے والا ایک ایسا درویش منش محنت کش تھا جس کے قدموں میں سلطانی تھی ۔ دُکھی انسانیت سے بے لوث محبت کو شعار بنانے والے اِس محسن کی دائمی مفارقت نے اس کے سیکڑوں عقیدت مندوں کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا۔ نقد پورہ جھنگ کے فاقہ کش لوگ جوریگِ ساحل کے مانند بے آ ب و گیاہ ریگستان میںبکھرے پڑے تھے وہ اکثر دِتُو گھومی کے بارے میں سوچتے کہ یہ ابر کرم کتنی کٹھن اور طویل مسافت طے کر اُن کی تشنگی دُور کرنے کی خاطر یہاں پہنچا۔کورونا کی عالمی وبا کے دنوں میں وہ اکثر کہا کرتا تھاکہ وہ ہشت پا جو رمجانی ٹھگ جیسے آدم خور، نائکہ قفسہ اور رذیل طوائف مصبہا بنو جیسی چڑیلوںکے عفونت زدہ اجسام میں پنہاں ہے وہ ہر عالمی وبا سے زیادہ خطرناک ہے ۔ دِتُو گھومی کا کہنا تھا کہ آستین کے سانپ اور بروٹس قماش مُحسن کُش قریۂ جاںکو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔ مصبہا بنوجیسی تیامت کے پیمان ِ وفا پر انحصار کرنے والوں کو وقت گرفتہ لوگوں کی بے حسی راتوں کو پارہ پارہ اور ایام کو پرزے پرزے کر کے دنیا کے آ ئینہ خانے میں تماشا بنا دیتی ہے ۔ دِتُو گھومی کی اکثر پیشین گوئیوں کا تعلق پیرا سائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات سے ہوتا تھا۔ جسم و جاں کی نیلامی کے بعد اپنی لاش کا سودا کرنے والوں اور زاغ و زغن سے وابستہ شگونوںکے بارے میں وہ جو خاص رائے رکھتاتھاوہ جو ن ایلیا کے اس شعر میں پیش کیے گئے خیالات سے گہری مماثلت رکھتی ہے :
پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پُر سہ دیتی تھی
آنگن میں اِک اَوندھے گھڑے پر بس اِک کوّا زندہ تھا
دِتُو گھومی کی دائمی مفارقت کی صور ت میں اجل کے بے رحم ہاتھوں نے گلشنِ دست کاری و حرفت سے ایسا پھول توڑلیا ہے جس کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قلزم کرب کی غواصی کر کے صبرو شکر کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرنے والا فقیراپنی باری بھر کر چل دیا اور بے حِس دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔اپنی طویل زندگی میں دِتُو گھومی نے اپنے زمانے سماجی ،تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی زندگی کو سدا پیشِ نظر رکھا۔ وہ درویش منش محنت کش رخصت ہو گیا جو زندگی بھر کاسۂ عجز تھامے مظلوم اور دُکھی انسانیت کے لیے خلوص، وفا اور ایثار کی صدا لگاتا رہا ۔معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور اطراف و جوانب کے حالات پر نظر ڈالیں تو دُور دُور تک کوئی ایسا چارہ گر دکھائی نہیںدیتاجس میںاِس خلا کو پُر کرنا تو بہت دُور کی بات ہے دِتُو گھومی جیسی قناعت و استغنا کی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی دے ۔سوچتا ہوں کس کس کی دائمی مفارقت پر آہ و فغاں کی جائے اور کس جگر گوشے کے سانحۂ ارتحال پر جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے آنسو بہائے جائیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے اتنے تابندہ ستارے ڈُوب گئے کہ اب ہر طرف سفاک ظلمتیں مسلط ہو گئی ہیں۔دِتُو گھومی کی جدائی میں دیدۂ گریاں اس طرح اُمڈ آئی ہے جیسے قریۂ جاں میں کہیں دریا اُبلنے لگے ہیں ۔اُس منکسر المزاج محنت کش کی از خو دگذشتگی سے وابستہ یادوں کے نگارخانے پرنظر ڈالتاہوں تو جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے تکلم کے سبھی سلسلے اُسی تک پہنچتے ہیں اور فضاؤں میں اُس کی یادیں پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔دِتُو گھومی کو محض ایک محنت کش اور تنہا شخص سمجھنا درست نہیں وہ تومو قع و محل کی مناسبت سے اپنی ذات کو اس طرح ڈھا ل لیتا تھا کہ اس کے قریبی احباب اش اش کر اُٹھتے تھے ۔
تقدیر کے ماروںکے زخموں پر مرہم رکھنے والے درد آشنا چارہ گر بالعموم ذہن وذکاوت کے بجائے قلب و جگر پر انحصار کرتے ہیں۔ دِتُو گھومی سے مِل کر زندگی سے محبت کے جذبات کونمو ملتی تھی ۔بادی النظر میںانسانی فہم و فراست زندگی کے خارجی پہلو اور سُود و زیاں کے اندیشے تک محدود ہے جب کہ فرد کی داخلی اقلیم کے تمام پہلو قلب و جگر کی دسترس میں ہیں۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں مفاد پرست عناصر مرغان ِباد نما کے مانند ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا روّیہ بدل لیتے ہیں ۔ ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ معاشرتی زندگی میںدرد مندی اور خلو ص کا رشتہ سب سے مستحکم رشتہ ہے ۔اس رشتے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ دُکھی انسانیت کو مصائب و آلا م میں مبتلا دیکھ کردِل و جگرمیںرنجِ ، کرب اوردرد کی ایک ایسی متلاطم لہر سی اُٹھتی ہے جو سوچ کے تمام پہلوؤں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے ۔ ابتلا اور آزمائش کی ان گھڑیوں میںدِل جو ایک قطرۂ خون میں بدل جاتاہے اُسے اَ شکِ رواں کی لہر بہا لے جاتی ہے ۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں قلب ِ حزیں غرقابِ غم اور نڈھال ہو جاتاہے اور انسان دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگتاہے کہ قریۂ جاں سے قزاق ِاجل نے جو پھول توڑا ہے،اُس کا مداوا کیسے ممکن ہے ۔
دِتُو گھومی کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا مصطفی آباد کی ماجرا خیز بستی کے درد آشنا مکین سلطان کے ساتھ اس کے قریبی مراسم تھے ۔جھنگ شہر کے محلہ مستریاں والا کے مکین اور بُھور بازارکے چھابڑی والے کہرام ٹھگ کے بارے میں وہ سب حقائق سے آگاہ تھا۔نو عمر لڑکے کہرام ٹھگ کے طمانچے کھا کر نکلتے تو اُن کے نازک رخساروں کی سُرخی اس رذیل ٹھگ کی سفاکی کااظہار کرتی تھی ۔ جب دِتُو گھومی کو معلوم ہوا کہ کہرام ٹھگ کے نوجوان لڑکوں کے ساتھ اسی قسم کے قریبی تعلقات تھے جیسے علاؤلدین خلجی کے اپنے زر خرید غلام ملک کافور کے ساتھ تھے تو اُس نے کہرام ٹھگ سے اپنے روابط منقطع کر لیے ۔دِتُو گھومی کا خیال تھا کہ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے جگر فگاروںکے زخموں پر مرہم رکھنے والے سلطان جیسے دریش منش درد آشنا چارہ گر ذہن وذکاوت کے بجائے قلب و جگر پر انحصار کرتے ہیں۔سلطان جیسے چارہ گر یہ سمجھتے ہیںکہ حیات ِ جاوداں کا راز ستیزہی میں پنہاں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہوائے جور و ستم میں بھی رُخ ِ وفا کو بجھنے نہیں دیتے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جبر کا ہر انداز مسترد کر دیتے ہیں ۔ بادی النظر میںانسانی فہم و فراست زندگی کے خارجی پہلو اور سُود و زیاں کے اندیشے تک محدود ہے جب کہ فرد کی داخلی اقلیم کے تمام پہلو بالعموم قلب حزیں اور جگر کی دسترس میں رہتے ہیں۔مصائب و آلام اور ابتلا و آزمائش کی تمازت نے صابر و شاکر درویش سلطان کو اس طرح کندن بنا دیاتھا کہ وہ اپنی حقیقت سے آ شنا ہو کر معرفت کے مراحل طے کر کے آئینہ ٔ ایام میں اپنی ہر ادا دیکھنے کی صلاحیت سے متمتع ہو گیا۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں مفاد پرست عناصر مرغان ِباد نما کے مانند ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا روّیہ بدل لیتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی میںدرد مندی اور خلو ص کا رشتہ سب سے مستحکم رشتہ ہے ۔ درد کے اس انتہائی معتبر رشتے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ دُکھی انسانیت کو مصائب و آلا م میں مبتلا دیکھ کردِل و جگرمیںرنجِ ، کرب اوردرد کی ایک ایسی متلاطم لہر سی اُٹھتی ہے جو میزان ِ صبح و شام کے متعلق سوچ کے تمام پہلوؤں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے ۔ آزمائش ،مصائب و آلام کی ان صبر آزماگھڑیوں میںدِل جو ایک قطرۂ خون میں بدل جاتاہے اُسے اَ شکِ رواں کی لہر بہا لے جاتی ہے ۔ سفینۂ دِل جو بحرِ غم میں ہچکولے کھا رہا ہوتاہے شامِ الم ڈھلتی ہے تو درد کی ہوا کے تیز بگولے اُسے گرداب کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں قلب ِ حزیں غرقابِ غم اور نڈھال ہو جاتاہے اور انسان دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگتاہے کہ قریۂ جاں سے قزاق ِاجل نے جو پھول توڑا ہے،اُس کے نتیجے میں جو مصیبت ،ذہنی انتشار اور قلبی پریشانی لاحق ہو گئی ہے اُس کا مداوا کیسے ممکن ہے ۔جب کوئی اُمید بر نہ آئے اور تسکین کی کوئی صورت نظر نہ آ ئے تو عقل جسے محض چراغ ِ راہ کی حیثیت حاصل ہے ،سے آگے نکلنا پڑتاہے اور دِل و جگر کی مسحور کن اثر آفرینی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے کیونکہ انھیں منزل کی حیثیت حاصل ہے۔ دِتُو گھومی کو اس بات پر ناز تھا کہ اُس کے محسن اور صلاح کارسلطان نے حوصلے ،اُمید اور صبر کا دامن تھام کر اپنی طویل زندگی میں خدمت ِ خلق کے متعدد کام کیے۔ سال 1995ء میں سلطان نے اپنی زرعی زمین کی فصل کی برداشت کے سلسلے میں گولاڑچی جانے کا فیصلہ کیا ۔کہرام ٹھگ کے اجرتی بد معاش شکاری کتوں کی طرح ساتھ روانہ ہو گئے اور سلطان کو اس سازش کی خبر تک نہ ہوئی ۔وانی رائس ملزکی جانب سے سلطان کو چاول کی فصل سے پچاس لاکھ روپے مِلے ۔راستے میں کہرام ٹھگ کے اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ور ٹھگوں نے سلطان پر حملہ کر دیا اور ساری رقم لُوٹ کر سلطان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ گولاڑچی میں واقع اپنے گھر کے سامنے سلطان کو سپردِ خاک کر دیا گیا ۔ خلق خداکی بے لوث خدمت کرنے والے اس درویش کا مزار مرجع خلائق ہے ۔ دِتُو گھومی نے اپنی زندگی میںہمیشہ مظلوم کی حمایت کی اور ظالم کے خلاف سینہ سپر رہا ۔وہ یہ بات اکثر زور دے کر کہتاکہ بے بس انسانوں کو اذیت دینے والے سفہا اور اجلاف و ارذال یہ مت بھولیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ دِتُو گھومی جب سلطان کی آخری آرام گاہ پر پہنچا تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور کہا:
’’ حیف صد حیف ! بہرام ٹھگ کی اولاد کے جور و ستم سے ایک سر چشمۂ فیض یہاں سے رخصت ہو گیا۔ سلطان کی ناتوانی کو دیکھ کر کہرام کے دِل میں کینہ اور ستم کی شیطانی قوت پیدا ہوئی۔ کہرام ٹھگ کی درندگی سے یہ بستی ایک بہترین خادمِ خلق سے محروم ہو گئی اور اب ہمارا واسطہ ایک بد ترین اور سفاک ڈاکو کہرام اور اُس کی اولاد سے پڑنے والا ہے ۔ مظالم کا یہ سلسلہ طویل اور غیر مختتم ہے صرف کردار اور انداز بدلتے رہتے ہیں ۔کہرام ٹھگ جیسے درندوں کا بے بس و لاچار انسانیت پر اس سفاکی کے ساتھ کوہِ ستم توڑنا مجھے خون کے آ نسو رُلاتاہے ۔طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جانے والا یہ ظلم ناقابل معافی ہے، کہرام ٹھگ جلد ہی فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں ہو گا ۔سلطان کی وفات ایسا سانحہ ہے جس پر ہر دِ ل سوگوار اور ہر چشم اشک بار ہے ۔آپ ! غیظ و غضب ،حسد ،آہ و فغاں اور کف ِ افسوس ملنے سے نقصانات کی تلافی کیسے ممکن ہے ؟ ‘‘
دِتُو گھومی نے بتایا کہ سلطان کو ہمیشہ اس بات پر تاسف رہا کہ اس نے کہرام کی شناسائی سے نجات حاصل کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی ۔اپنی تسبیح ِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت سلطان ہمیشہ اس بات پر زور دیتاتھا کہ ہر آغاز کا انجام اور ہر ابتدا کی انتہا اصول فطرت ہے ۔اس طرح زندگی بھی موت کی صورت میں اپنے انجام کی جانب سرگرمِ سفر ہے۔مشعلِ زیست جب تک فروزاں رہتی ہے اس کی روشنی سے ظلمتیں کافور ہوتی ہیں اور جب یہ شمع صر صر ِ اَجل سے بُجھ جاتی ہے تو نئی مشعلیں فروزاں ہو جاتی ہیںاور اس جہاں کا کارِ دراز جاری رہتاہے ۔ اپنے تجربات ،مشاہدات اور عمومی تاثرات کی بنا پرسلطان نے جب کہرام کی اصلیت کے راز سمجھے تو اُس کی اپنی زندگی کا سفر بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔سلطان درویش اور کہرام ٹھگ کی شناسائی کی کہانی سے سبق سیکھنا دانائی کی علامت ہے ۔کہرام ٹھگ کو جائیداد کے تنازع میں اس کے بروٹس قماش بیٹے رمزی نے ٹھکانے لگا دیا۔چار عشرے قبل فتح دریا جھنگ کے شہر خموشاں کی جنوبی جانب مذبح خانے سے کچھ دُور ایک گہرے گڑھے میں کہرام ٹھگ کو سپردِ خاک کیا گیا تھا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے اس کی قبر کا نشان تک بہا لے گئے ۔وہ جگہ جہاں کہرام ٹھگ کا جسد خاکی ٹھکانے لگایا گیا تھا وہاں خرگوش کی جسامت کے سیکڑوں بِجو، خار پُشت ،سانپ،سانڈے اور بچھو رہتے ہیں ۔مقامی لوگ اس پُر اسرار جگہ کو آسیب زدہ قرار دیتے ہیں اور کوئی اس طرف نہیں جاتا۔اس گڑھے کے اندر ایک خارش زدہ کتا آنکھیں بند کیے لیٹا رہتاہے ۔کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ یہ سب کچھ کہرام ٹھگ کے دوسرے جنم کی ممکنہ صورت ہے ۔
یہ شہر نا پرساں جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں ہمہ وقت مست دکھائی دیتاہے وہاں زندگی کی اقدار عالیہ پر جان کنی کا عالم ہے ۔یہ عجیب شہر جس پر اکثر لوگوں کو کوفہ کے قریب ہونے کا گماں گزرتا ہے،اس کا ضعیف خادمِ خلق دِتُو گھومی اس جہان ِ فانی سے اُٹھ گیا۔ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور اور بے بس و لاچار انسانوں کی زبوں حالی ،پریشانی اور درماندگی میں داد رسی کرنے والا دیکھتے ہی دیکھتے ساتواں در کھول کر عدم کی بے کراںوادیوں کی جانب سدھار گیا اور اہلِ درد کی آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ دِتُو گھومی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا اور دل میں اک ہُوک سی اُٹھی۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا محنت کش دِتُو گھومی جھنگ کا ایک گم نام مگر بے حد نیک نام بزرگ تھا ۔اس بے ثبات کارِ جہاں میں رہتے ہوئے خدمت خلق کے کاموں میں ہمہ تن مصروف رہنے والے اس انسان کی یادیں لوحِ دِل پر ہمیشہ ثبت رہیں گی اور اس کی بے تکلفی کی مظہر سادگی ،اپنائیت ، بے لوث محبت ،ایثار ،خلوص اور دردمندی سے دامنِ دِل سدا معطر رہے گا ۔دِتُو گھومی ایک ایسا فقیر تھا جس کے مسلک میں جھکنااور بکنا گناہ تھا۔اس نے کسی صورت میں بھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی اورسدا عزت نفس اور خودداری کا بھرم برقرار رکھا ۔اس نے اپنے احباب پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ جاہ و حشمت کی ان نشانیوں اور کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور عبرت کی مظہر حنوط شدہ لاشوں سے وابستہ داستانوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔ دِتُو گھومی کی دائمی مفارقت نے پس ماندگان کی حیاتِ مستعار کو غم کے فسانے میں بدل کر اس دنیا کے آئینہ خانے میں ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔سب سوچتے ہیں اب دعائے نیم شب میں الم نصیبوں کو یاد کون کرے گا ۔سیکڑوں دورِ فلک دیکھنے کے بعدجب بونے اپنے تئیں باون گزے بن کر عوج بن عنق ہونے کے داعی بن بیٹھیں انسان گھٹ جائیں اور سائے پیہم بڑھنے لگیں تو اہلِ دانش کو یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ خورشید جہاں تاب کی ضیاپاشیوں کا سلسلہ تھمنے والا ہے اور سفاک ظلمتیں فکر و خیال کی وادی کو دھواں دھار کرنے والی ہیں۔
کہرام ٹھگ کے بڑے بیٹے رمضو اُٹھائی گیرے کی منجھلی بیٹی مصبہا بنو نے سیاہی وال اور اس کے مضافاتی علاقے میں مقیم لوگوںکی زندگی کی سب رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،آہیں بے اثر اور گلیاں خوں میںتر کر دیں ۔اس کے بارے میں دِتُو گھومی کہا کرتاتھا کہ یونان کے جزیرہ لیسبوس ( Lesbos)سے تعلق رکھنے والی نغمہ نگار شاعرہ سیفو( Sappho , B : c 630 BCE ,D:c,570 BCE )سے مصبہا بنو کو والہانہ محبت اور قلبی وابستگی تھی ۔قحبہ خانے میں کام کرنے والی اِس رقاصہ اور جنسی کارکن کی ہر دھڑکن اس قدر ہیجانی ہوتی تھی مداحوں کی خاموشی بھی طوفانی صورت اختیار کر لیتی تھی ۔ اُس کے نیم
عریاں لباس کو دیکھ کر بے کیف اور ویران محفل رنگ پر آ جاتی ۔یہ رذیل طوائف جب شر م و حیا کو بارہ پتھر کر کے اپنے جسم کو بے لبادہ کر نے کی ٹھان لیتی تو اپنے نسوانی حُسن اور شکل و صورت کی ظاہری کج کلاہی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی۔جنس ،عشق اور حُسن و رومان کی یونانی دیوی افرودیتی(Aphrodite) کو وہ اپنی روحانی پیشوا قرا ر دیتی تھی ۔ مصبہا بنو نے اپنے قحبہ خانے میں آئینہ ، گلاب کے پھول ،ڈالفن ، بگلے ،بطخ ،موتی ،صدف ،فاختہ ،چڑیا ،کمر بند اور مر غابی کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں ۔سیاہی وال کے باشندوں کا کہنا تھاکہ مصبہا بنو ایک بدنام زناخی تھی جو اکثر چڑے ، جنگلی کبوتر ، بٹیرے اور تلیر کھا کر اپنے ہٹیرے میں آنے والی دوپٹہ بدل نو جوان سہیلیوں سے لباس فطرت میں اظہار ِ محبت کرنے کی عادی تھی ۔ نجی ملاقاتوں میں ضمیر حُسن کی نیلامی اورحسین اور ناز آفریں عورتوں کو ایذا دہی کی تکمیل کے بعد داد طلب نگاہوں سے اپنے شکار کی طرف دیکھنا اس سادیت پسند چڑیل کا وتیرہ تھا۔یہ ڈائن اپنی روح اور قلب کے پنہاں گناہوں سے شپرانہ چشم پوشی کر کے اپنے جسمانی حُسن کے نکھار کر اولین ترجیح دیتی تھی ۔شہر میں ہر طرف اُس کے چپٹی باز ہونے کی خبر گرم تھی اور وہ جس طرف چلتی بھرے بازار کی ملامت اور ندامت اُس کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔جب اسے حسین و جمیل دوشیزاؤں کی اُٹھتی جوانی کا یقین ہو جاتا تو وہ اُن پر جنس و
جنون اورپیار و رومان کی صورت میں مشقِ ستم کے ایسے قبیح سلسلے کا آغا زکرتی کہ اس کے جال میں پھنسنے والی حسین دوشیزاؤں کا دِل بیٹھ جاتا۔ اپنی محبوب حسین دوشیزاؤں سے لپٹ کر وہ یہی کہتی کہ ہر و ہ دِن جس میں میرا واسطہ کسی نئی دوشیزہ سے پڑتاہے وہ دِن میرے لیے طلوعِ صبحِ بہاراں کی نوید لاتاہے ۔اپنا مثالیہ تلاش کرنے والے لا اُبالی قماش کے نو جوان لڑکے جب اس ذرے کو دیکھتے تو انھیںاِس پر آفتاب کا گمان گزرتا۔جب یہ چمن سو مرتبہ لُوٹا گیا تواُس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گردش ِحالات کو دیکھ کر اِس عیار طوائف نے اپنے کو ماندہ کر لیا ہے ۔اُس کا حال دیکھ کر حال کے متلاشی آہ بھر کر کہتے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے اس شوخ ِ رمیدہ کو ملالِ ماضی کی ایک عبرت ناک تصویر میں بدل دیا ہے ۔ وہ یہ سوچ کر کُڑھتے کہ حُسن و جمال کی رعنائیوں کی مدت تو بہت کم ہے مگر اس کو فراموش کرنے کے لیے اِ ک عمر کی احتیاج ہے ۔ اپنے مداحوں کی بڑھتی ہوئی بے رخی اورگردِ ش ایام کے تیزی سے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر مصبہابنونے مغ بچوں سے کتراناشروع کر دیا۔ آسمانی بجلی کے کوندنے ،نجوم ِ فلک کی چال اور قلزم ہستی کے پُر اسرارحال کی تفہیم بعید ازقیاس ہے ۔ کچھ عرصہ بعد لوگو ںنے دیکھاکہ نائکہ تفسہ اور طوائف مصبہا بنو کی بد اعمالیوں کے باعث اس کے چنڈو خانے ،قحبہ خانے اور عقوبت خانے کے در و دیوار پر ذلت اور تخریب کے کتبے آ ویزاں ہو گئے تھے ۔
محبتوں میںدِتُو گھومی کسی قسم کے لین دین کا قائل نہ تھا بل کہ وہ محبت کو محض دین ہی دین قرار دیتاتھا۔ ستم ایجاد سفہا کی محفل میں بھی وہ یہ بات زور دے کر کہتا تھاکہ عشق کے لیے عقل سے آگے نکلنا ضروری ہے ۔یہ جذبۂ عشق ہی ہے جو سوہنی کو یہ حوصلہ عطاکرتاہے کہ وہ کچے گھڑے کو تھام کر دریائے چناب کی طوفانی لہروں میں بے خطر کود پڑے ۔محبت کے دستور نرالے ہوتے ہیں ،حسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار گُھومنے والے سرِ صحراحباب ،لبِ دریا سراب ،چشم ِپُر نم کے خواب ،پیچیدہ سوالوں کے جواب ،پیمان شکنی کے عذاب ،محسن کُشی کے باب،اپنے حال ِخراب ،برادرانِ یوسف کے پیچ و تاب ،لباس فطرت پہن کر دادِ عیش دینے والوں کے جعلی نقاب اور مرغانِ باد نماکے بد رکاب ہونے کے بارے میںکوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے ۔ عشق و محبت میں بھی ریاضی کے مانند کلیات کا استعمال ہوتاہے جہاں ایک دِل سے دوسرا دِل ملتاہے تو پوری کائنات اس میں سمٹ آتی ہے جب اس میں سے کسی حادثے کے نتیجے میں ایک دِل منہا کر دیا جائے تو پھر باقی کچھ نہیں بچتا اور خرابات ِ آرزو میں خاک اُڑنے لگتی ہے ۔ دیارِمحبوب کا طواف کرنے والے طفلانِ کوچہ گر د کی ایذا رسانیوں سے بالکل ہراساں نہیں ہوتے ۔دِتُو گھومی کاخیال تھا کہ سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے اپنی احتیاج بیان کرنے میں ہزاروں جنجال ہیں۔وہ ہر وقت اسی بات کی جانب متوجہ کرتاکہ اپنے خالق کے حضور سر بہ سجدہ ہو کر دعا مانگناہی بندگی کی مستحسن صورت ہے ۔
سو پُشت سے محنت مزدوری دِتُو گھومی کا آبائی پیشہ تھااور اُسے اپنے مزدور ہونے پر ناز تھا۔ چھاپہ سازی اس کا آبائی پیشہ تھا مگر وہ ہر قسم کی مزدوری کر لیتاتھا۔کام چھوڑ کر اور دُکان بند کر کے بیٹھ جانے والوں کو وہ اپنی تباہی اور تخریب کا ذمہ دار قرا دیتا تھا۔ اپنی تباہیوں کا ملال رکھنے والوںکی معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی تنگ دستی کے بارے میں وہ بعض اوقات مایوسی کے عالم میں پکار اُٹھتا کہ جانے اِن لوگوں نے کس جُرم کی سزا پائی ہے کہ اِن فقیروں کے حالات تو جوں کے توں ہیں مگر بے ضمیروں کے وارے نیارے اور پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہیں ۔ وہ قسام ِ ازل کی تقسیم پر ہمیشہ راضی رہا جس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں صرف چشمِ پُر نم اور جذبہ ٔصادق سے طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔غربت میں قناعت اور استغنا سدا دتو گھومی کا شیوہ رہااس لیے وہ کہا کرتا تھا کہ دنیا بھر میں جرائم، تشدد اور عدم تحفظ کے سوتے فاقہ کشی اور غربت ہی سے پُھوٹتے ہیں۔وہ مزدوروں کو اپنا ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز قرار دیتا اور مزدوروں سے دِتُو گھومی نے جو عہدِ وفا استوار کیا اُسی کو زندگی بھر علاجِ گردِ لیل و نہار سمجھا۔ معاشرے کے پس ماندہ طبقے کی محرومیوں کو وہ محض اتفاقی اور حادثاتی قرار دیتا ورنہ دنیا میں کوئی آبلہ پا شخص ایسا نہیں جو دشتِ جنوں میں اپنے لیے ایسی کٹھن راہوں کا انتخاب کرے جہاں ہر طرف تیز نوک والے خار ِمغیلاں بکھرے ہوں۔ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے والا یہ مزدور انسانیت کا بہت بڑا خادم تھا جس نے اپنی زندگی دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔برسات کے موسم میں جب کسی ضعیف اور د ر ماندہ غریب کا جھونپڑا طوفانی بارشوں کی بوچھاڑ کے باعث ٹپکنے لگتا تو دِتُو گھومی فوراً وہاں پہنچتا اور کچی مٹی ڈال کر چھت کا شگاف بند کر د یتا۔
اپنی زندگی میں دتو گھومی نے محنت و مشقت کو شعار بنایا ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ماہر خانساماں بھی تھا ۔ایک مشاق باورچی کی حیثیت سے جن کھانوں میں دتو گھومی نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایااُن میں پراٹھا ،کسٹرڈ ، دال ٹکڑے ، پکوڑے ،سموسے ،کڑی ، کباب ، گول گپے ، نہاری، حلیم،زردہ ،پلاؤ،قورمہ ،حلوہ ،پُوڑی ،سجی،فرائی چکن ،سٹیم روسٹ چکن اور سری پائے شامل ہیں ۔اُس کے پکائے ہوئے مختلف طعام کھانے کے بعد لوگ کہتے کہ اس باورچی نے جو کھانے پکائے ہیں وہ ذائقے کے اعتبار سے بڑے شہروں کے فائیو سٹا ر ہوٹلوں کے پکے ہوئے کھانوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔دیسی قسم کی مٹھائیاں بنانے میں بھی دتو گھومی کو مہارت حاصل تھی۔وہ فالودہ ،گجریلا، کھیر،جلیبیاں ،پتیسا ،ریوڑیاں ،ٹانگری ،الائچی دانہ ،پتاسے اور مرنڈہ تیار کرتا اور شائقین یہ مٹھائیاں ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔شادی بیاہ کی تقریبات میں کھانے پکانے کے لیے اسے بلایا جاتا تو وہ فوراً پہنچ جاتا ۔صاحب استطاعت لوگ جو محنت بھی ادا کرتے وہ قبول کر لیتامگر غریبوں سے وہ کھانوں کی پکوائی کا کوئی معاوضہ نہیں لیتاتھا۔شادی ،بیاہ اور دوسری تقریبات میں باورچی بالعموم بالٹیوں میں کھانا بھر کر اپنے اہلِ خانہ کے لیے لے آتے ہیں مگر دتو گھومی ایک سیر چشم باورچی تھاوہ اس قسم کے حرص و ہوس سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیتا اور خالی ہاتھ اپنے گھر آجاتا۔میزبان کے اصرار پر ایک وقت کا کھانا وہاں سے کھالیتا اور دعا دے کر وہاں سے رخصت ہوتا۔
دریائے جہلم اور دریائے چناب کے کنارے رہنے والے محنت کش دِتُو گھومی نے طوفانوں میں پلنے اور اپنی دنیا بدلنے کا عزم کر رکھا تھا۔وہ تیراکی اور ماہی گیری میں گہری دلچسپی لیتاتھایہی وجہ ہے کہ جب دریا کے کنارے کُنڈی لگا کر بیٹھتا تو لوگ اُسے ماہی گیر سمجھتے مگر جب وہ کسی ڈوبتے ہوئے شخص کی جان بچانے کے لیے دریاکے بھنور میں کُودتا تو لوگ اس کی تیراکی دیکھ کر ششدر رہ جاتے تھے۔ ساجھووال ،تریموں ،بلوکی اور چنڈ کے مقام پر جب وہ مچھلیاں پکڑنے جاتا تو مقامی باشندے اُسے جہلم ،چناب اور راوی کی طغیانی کے خطرے سے خبردار کرتے مگر خطروں سے اُلجھنا جانتا تھا اس لیے ماہی گیری کے لیے وہ اپنی جان پر کھیل جاتا تھا۔سال 1973ء میں دریائے چناب میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اُس سے جھنگ شہر کے گرد تعمیر کیا گیا تیس فٹ بلند حفاظی بند ٹوٹ گیا۔ سیلابی پانی کادس فٹ بلند ریلا جھنگ شہر میں داخل ہو گیا اور قدیم شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں دِتُو گھومی نے تیر کر سیلاب کے گہرے پانی میں گھرے سیکڑوں لوگوں کی جان بچائی ۔
مشرقی تہذیب و ثقافت سے وابستہ عوامل سے روحانی وابستگی اور قلبی لگاؤ دِتُو گھومی جیسے محنت کشوں کاامتیازی وصف سمجھا جاتاہے ۔ جب کوئی معاشرہ زوال کی زد میں آ جاتاہے وہاں کے مکینوں کے خوابوں کی خیاباں سازیوں کا سلسلہ بھی رُک جاتاہے ۔دِتُو گھومی جیسے جفا کش لوگ اپنے ذوق سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے تہذیبی و ثقافتی انحطاط کو روکنے کی خاطر سخت جد و جہد کرتے ہیں ۔ نوے سالہ غلامی نے اس خطے کے باشندوں کو ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر دیا ۔پس نو آبادیاتی دور میں بھی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کی شکست و ریخت کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔اپنی تہذیب و ثقافت اور انسانی ہمدردی کو دتو گھومی نے ہمیشہ اہم ترین مقام کا حامل سمجھا ۔عرس ،تہوار ،میلے ،تقریبات اور کھیل تماشے دتو گھومی کو بہت پسند تھے ۔زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں وہ ان ثقافتی نشانیوں سے عملی زندگی کے لائحہ ٔ عمل کا تعین کرتا تھا۔اپنے گردو نواح کے ماحول اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں وہ ان ثقافتی تقریبات سے حُسن و رومان ،خلوص و مروّت ، ادب ،فنون لطیفہ اور معاشی مسائل کے بارے میںبہت کچھ سیکھتاتھا۔دتو گھومی ہر سال داتا گنج بخش ، بی بی پاک دامن ، شاہ حسین ،بابا فرید الدین گنج شکر ، عبدالحکیم ، عبداللہ شاہ غازی ، بہاؤ الدین زکریا ، سخی سرور ،شاہ رکن عالم ، پیر مہر علی شاہ ،شاہ گردیز ، سید موسیٰ پاک،شہبا زقلندر ،شاہ جیونہ ،شاہ زندہ ،بر ی امام ،لسوڑی شاہ ،دُڑکی شاہ،سلطان باہو اور کانواں والی سرکار کے عرس میں شرکت کرتا۔
میلوںمیں تھیٹر ،سرکس ،موت کا کنواں ،جادو کے کرتب اور کھیل تماشوںکو دتو گھومی زندگی کی حقیقی معنویت کا مظہر قرار دیتاتھا۔ ایک خود دار اور غیور محنت کش کی حیثیت سے وہ اپنی حقیقت سے آ شنا تھااس لیے وہ زندگی کی جد و جہد میں ہر مر حلے پر مہلک غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ وہ اس بات پر زور دیتا کہ ہمارے معاشرے اور سماج میں انسانی زندگی بھی تھیٹر کے ایک طویل کھیل کے مانند ہے۔اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان عملی زندگی کے قابل عمل داخلی راستوں کی شناخت کا شعور اور ادراک رکھتا ہو ۔تھیٹر میں پیش کی جانے والی جن لوک داستانوں کو دتو گھومی بہت پسند کرتاتھااُن میں شاہ جہان اور ممتاز محل ، شہزادہ سلیم اور انار کلی ، لیلیٰ مجنوں ،شیریں فرہاد ،سسی پنوں ، ہیر رانجھا ،سوہنی مہینوال ،مرزا صاحباں،مومل رانو ،زہرے اور طاہر ،رومیو اور جولیٹ ،قلو پطر ہ اور مار ک انٹونی ،پیرس اور ہیلینا ،نپولین اور جو ز فائن ،جین آ ئر اور روچسٹر ،شانتی اور نابو شامل ہیں ۔محبت کی ان کہانیوں کو مقامی میلوں میں جن تھیٹرز نے سٹیج پر پیش کیا ان میں عنایت حسین بھٹی ،استاد گامن ،عالم لوہار ،اللہ بخش گھڑیالی، بہاول ،عاشقو ،نادری ،بہادرا ،یارا سازندہ اور سائیں اختر حسین شامل ہیں ۔
ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے دتو گھومی اپنے جن رفتگاں کو یاد کرتاتھااُن میں اللہ دتہ چھاپے گر ،اقبال چھاپہ گر ، شہاب دین ،چودھری کرم حسین ،چودھری بشیر احمد ،چودھری دلمیر ،چودھری فضل حسین ،اقبال عاصی ،بابا سلطان ،شیر خان ،سجاد حسین اور منیر حسین شامل ہیں ۔اپنے رفتگاں کو یاد کر کے وہ اپنے دِل کو آباد کرنے کی سعی کرتاتھا۔وہ اکثر کہا کرتاتھا:
’’ مجھے ڈوبنے والے ستاروں کی تابانی ،چہرے اور پیشانی اور حسن و جمال کی متاع گم گشتہ کی کہانی بیان کرتے وقت میر اکلیجہ منھ کو آتاہے ۔ اپنے رفتگاں کے بارے میں میرے جو جذبات ہیں ان کا تعلق الفاظ سے نہیں بل کہ روح اور قلب سے ہے ۔ان لوگوں کی دائمی مفارقت سے میری زندگی غم کے فسانے میں بدل گئی ہے۔ ان کے ساتھ عقیدت کا جو سفر ایک مسکراہٹ کے ساتھ شروع ہوا تھاوہ دِل کا افسانہ لبوں تک لانے سے آگے بڑھا اور بالآخر پُر نم آنکھوں سے رواں ہونے والی ناقابلِ مزاحمت جوئے خون پر اختتام پذیر ہو گیا۔‘‘
نو آبادیاتی دور کے بارے میں دتو گھومی یہ بات دہراتا کہ غلامی کے دور کی تلخ یادیں آج بھی مجھے خون کے آ نسو رُلاتی ہیں ۔اُس دور میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں اس خطے کی تاریخ ابلق ِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل نہ ہو جائے ۔نو آبادیاتی دور میں امرتسر کے قصاب کی موجودگی میں یہاں کے باشندے جن حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے وہ موت سے بھی ہراسا ںنہیں تھے ۔ عام طور پر بُور لدے چھتنار اپنی جڑوں کی گہرائی کا راز کبھی ظاہر نہیں کرتے۔میں نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ سُنا ہے اس سے وابستہ ہر یاد آج بھی میری روح اور قلب کو آباد کرتی ہے ۔حاجی احمد بخش نے بتایا کہ رانا عبدا لحمید خان کی قیادت میں سال 1926ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے طلبا کا ایک وفد مطالعاتی دورے پر لکھنو پہنچا ۔چند روز بعد جھنگ کے مقامی موسیقاروں اور تھیٹر سے وابستہ فن کاربھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف شہروں کے لیے روانہ ہوئے ۔
دو آبہ سے تعلق رکھنے والے عاشق موسیقار ، یاراسازندہ اور بہاول سازندہ نے اپنے ساتھیوں سمیت لکھنو، ممبئی ، گوالیار ، ڈھاکہ ،فتح پورسیکری ،مدراس،کرناٹک، پشاور، کراچی اور دہلی سمیت بر صغیر کے متعدد شہروں ،دیہات اور قصبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔تخلیقی اذہان کو فنون لطیفہ اور تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی سے متمتع کرنے میں سازندوںکے اس گھرانے کو لوک رقص اور موسیقی کے بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔سال 1926ء میںنینی تال میں بہاول سازندہ ،یارا سازندہ اور ان کے ساتھیوں کے اس رقص پر سماں بندھ گیا۔یہی گیت یارا سازندہ ،بہادرا ،نورا ،نادری اور عاشق نے دتو گھومی کے بھانجے اقبال چھاپہ گرکی شادی پر گایا تھا۔اقبال چھاپہ گر نے پندرہ اگست 2021ء کو عالمِ شباب میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا ۔
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ایہناں بے قدراں نال لائیاں اکھیاں جل بھریاں
بدھیاں ڈھول دیاں اساں بنھ گڈھڑی سر چائیاں
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ترجمہ:
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سہے عشق کے سب جھمیلے
تنہا چھوڑ کے کہاں گئے تم اے ساجن البیلے
تیرے ہجرکی گٹھڑی سر پہ اُٹھا کے دیکھے دنیا کے میلے
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سب صدمے سر پر جھیلے
ایہہ لسوڑا
راہے مینوں چھوڑ گیاایں
ہانویں کُوڑے دا کُوڑا
ترجمہ:
لسوڑے کا بُوٹا
رستے ہی میں چھوڑدیا
تُو نکلاجُھوٹے کاجُھوٹا
دتو گھومی کا کہنا تھا کہ نو آبادیاتی دور میں بہاول سازندہ اور اس کے ساتھی موسیقاروں ،گلوکاروں اور رقاصوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مثبت عوامی شعور و آ گہی کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ نو آبادیاتی دورکی مسلط کردہ جبر کی فضا میں بھی بہاول سازندہ اور یارا سازندہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جانگسل تنہائیوں ،مہیب سناٹوں،اعصاب شکن پریشانیوں،لرزہ خیز مسائل، جان لیوا صدمات اور سکوتِ مرگ کے مظہرکھنڈرات میں بھی موسیقی کی گونج ایک طلسمی کلید کا درجہ رکھتی ہے جو درِ مقسوم پر لگے قفل کھولنے اور حقائق کی گرہ کشائی کاقرینہ سکھاتی ہے ۔اسی کے وسیلے سے بے خواب کواڑوںکے بند دروازوں پر نسیم ِسحر دستک دیتی ہے اور کٹھور دِلوں کے قفل بھی کُھل جاتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ موسیقی کی جذباتی،روحانی اور وجدانی کیفیات اس مسحور کُن انداز میں اس کے ساز ،آواز ،سُر ،تال ،راگ اورگت سے چھن کر نکلتی ہیں کہ سننے والے کے دم میں دم آتا ہے ۔موسیقی کی یہی ابد آ شنا کیفیات اس کا لائقِ صد رشک و تحسین امتیاز ہیں جسے سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران بہاول سازندہ اور اس کے تربیت یافتہ مشاق رقاص ،گلوکار اورسازندے جلسوں ،جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتے جس سے لوگوں کے دلوں کو حریتِ فکر اور وطن کی آزادی کے بارے میں ایک تازہ ولولہ نصیب ہوتا تھا ۔ ہزار حیف کہ نو آبادیاتی دور میں لگنے والے کچھ زخم ایسے ہیں جن سے جاں بری کے امکانات آج بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ سال 1857ء میںمات کھانے والے اور خود سے مایوس ہو جانے والے محکوموں کے جذبۂ آزادی کی تڑپ دیکھ کر غاصب سامراجی طاقتوں پر سکتہ طار ی ہوگیا۔شام کا وقت تھا اور دور ِ غلامی کی شام بھی اب قریب تھی۔
اُسی زمانے میںتابشِ خواب آزادی سے سرشا ر پُر جوش نو جوانوں کا ایک قافلہ آزادی کے حق میں نعرے لگاتا ہو ا تئیس مارچ 1940ء کو قدیم جھنگ شہر سے لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ اس قافلے میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگ شامل تھے ۔ان میں امیر اختر بھٹی، محمد بخش، احمد یار ملک ، خادم مگھیانوی، کبیر انور ،محمد شیر افضل ،رفعت سلطان،اللہ دتہ ،حکیم محمد نواز،، اللہ داد، بر خوردار ،غلام علی چین ، کرم دین، مظہر علی ، خادم مگھیانوی ،رجب الدین مسافر،محمد موسیٰ ،شوکت حیات،سلطان محمود،شیر خان ، غلام فرید، مظفر علی ، محمدیوسف ، امیر خان ،صالح محمد،اسماعیل،منیر خان اور متعد د باہمت ،پر عزم اور آزادی کے متوالے نو جوان شامل تھے۔بس لاہور کے قریب شاہدرہ کے مقام پر مقبرہ جہاں گیر کے سامنے کھجور کے درختوں کے جُھنڈ کے پاس رُکی اور وہاں سے نوجوان ایک جلوس کی صورت میں منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک ) کی جانب ہنستے گاتے پیدل روانہ ہوئے ۔دتو گھومی نے بتایا کہ بہاول سازندہ اور یارا سازندہ ڈھول بجا رہے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر جلوس کے شرکا اورسب را ہ گیر جھوم کر ناچ رہے تھے ۔ جلوس کے سب شرکا یہ فلک شگاف نعرہ لگا رہے تھے :
اب تو ایک ہی نعرہ ہے
آزادی حق ہمارا ہے
اس موقع پرجذبۂ آزادی سے سر شار لوگ عبدالغنی ظروف ساز کی بر جستہ پنجابی شاعری پر والہانہ انداز میںدھمال ڈالتے ہوئے جب یہ بول الاپتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طار ی ہو گیاہے اور غاصب بر طانوی استعمار کے دِن گِنے جا چُکے ہیں ۔ اس تاریخی جلسے میںشامل ہونے والے ہر شخص کا یہی کہنا تھا کہ اب ظالم و سفاک غاصب برطانوی استعمار کا جانا ٹھہر گیا ہے ،اب یہ سامراجی نظام
صبح گیا کہ شام گیا ۔خاص طور پر اس جلوس میں شامل حریت ضمیر سے جینے والے آزادی کے پُر جوش متوالے جب بر طانوی استعمار کو مخاطب کر کے للکارتے اور لُڈی ،دھریس ،جھومر اور بھنگڑا ڈالتے ہوئے قدموں کی تھاپ پر زمین کی طرف اشارہ کر کے غیظ وغضب کے عالم میںیہ کہتے کہ استعماری نظام کے آلۂ کار استحصالی عناصر اپنا بستر گول کر کے اپنی راہ لیں اور مقامی باشندوں کے گلے سے غلامی کا طوق نکال کر انھیں مکمل آزادی اور خود مختاری کافرما ن دیں تو سب کو اس بات کا یقین ہو جاتا کہ عوامی اُمنگوں کے اِس بڑھتے ہوئے سیلِ رواں میں بہت جلد بد حساب بر طانوی استعمار کا تمام کر وفر،قوت و ہیبت اور جاہ و جلال خس وخاشاک کے مانند بہہ جائے گا اور آمریت کو اپنے مظالم کا حساب دینا پڑے گا۔ سب لوگوں کو اس بات کا یقین تھاکہ طوفان ِ گرد میں آندھیوں پر سوار برطانوی استعمار کا اقتدار دُھول کے مانند اُڑ جائے گا۔ عہد ِ غلامی کی رودِ ناشناس نے کتنے دُر ِ نایاب غرقاب کر دئیے اُس زمانے میںآزادی کے متوالوں کی یہ دِلی تمناآج بھی دلوں کو مہر و وفا کا مر کز بنا دیتی ہے ۔اپنے بیابانِ حال سے ناخوش و بیزار ،وقت کی دُھوپ میں سایہ طلب اور لبِ پُر سوال لیے کُو بہ کُوپھرنے والے آزادی کے متوالے بڑے اعتماد سے یہ اعلان کر رہے تھے۔
دور غلامی کٹ جاوے گا
ہر مظلوم ہُن ڈٹ جاوے گا
ظالما !جبر دا مزا تُوں چکھ
شالا تیرا رہوے نہ ککھ
فرمانِ آزادی ایتھے رکھ
دتو گھومی کا ایک معتمد پڑوسی یارا سازندہ تھا جو اکثر اس سے ملنے کے لیے اس کے گھر جا پہنچتا ۔شوقِ خیال ِ تازہ کے بارے میں اپنی یادوں کو سمیٹتے ہوئے دتو گھومی نے بتایا کہ پس نو آبادیاتی دور میں بہاول سازندہ اور یارا سازندہ نے اپنے آبائی شہر جھنگ میںمستقل ڈیرے ڈال دئیے اور موسیقی کے قدیم و جدید آلات ہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔ کہنہ مشق اور آزمودہ کار سازندوں کے علاوہ یارا سازندہ کی موسیقی پارٹی کے ساتھ مِل کر کام کرنے والے کچھ حسین و جمیل خواجہ سرا بھی تھے جو اپنے دِل رُبا رقص سے سماں باندھ دیتے تھے ۔ معاشرتی زندگی میںیاراسازندہ کو سدا بہار خوشیوں کا بے لوث سفیر مانا جاتا تھا ۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جس انداز میں خوشی اور مسرت کے مواقع کا کھوج لگا لیتا تھا اس کا تعلق ما بعد الطبیعات یا پیرا سائیکالوجی سے تھا۔ادھر رات گئے شہر کے کسی گھر میں بیٹے کی پیدائش ہوئی اگلی صبح نماز فجر کے بعد یارا سازندہ اور اس کی رقص و موسیقی کی مشاق پارٹی بِن بلائے وہاں جا پہنچتی اور گلی میں سُر ،گیت اور دھمال سے خوشیوں کاسماں بندھ جاتا ۔خواجہ سرا مصبہا بنو ،صبوحی ،ظلو،پُونم اورروبی کی آواز میں ممتاز مغنیہ کوثر پروین کا گایا ہوا یہ مشہور گیت جب یارا سازندا اور اس کے ساتھیوںکی موسیقی میں سناتے تو بُوڑھے ، جوان، عورتیں ،مرد ،بچے اور بچیاں سب جی بھر کر داد دیتے اور وہاں موجود سب احباب ویلوں کی صورت میں رقاص پارٹی پر کر نسی نوٹ نچھاور کرتے ۔اس کے بعد یہ خواجہ سرا بلا تامل خوشیوں والے گھر میں داخل ہو جاتے اور زچہ کے نزدیک پنگھوڑے میں لیٹے ہوئے نو مولود بچے کو ہاتھوں میں اُٹھاکر لوری دیتے اور باہر گلی میں لاتے ۔اپنے نومولود کم سن بچے کو واپس لینے کے لیے بچے کے والدین کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے اور حرص و ہوس سے بے نیاز یارا سازندہ کو اپنی بساط کے مطابق انعام و اکرام دے کر رخصت کرتے ۔خوشی کے اس موقع پر گایا جانے والا یہ گیت آج بھی کانوں میںرس گھو لتا ہے جسے سن کر سامعین ایام ِگزشتہ کی یا دوںمیں کھوجاتے ہیں :
راج دُلارے ،او !میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی
تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
تاروں کا روپ تو پہلے ہی ماند ہے
چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے
اس علاقے کے لوک فن کاروں کی مقبولیت کے بارے میں دتو گھومی نے بتایا کہ علاقے میںشادی ،بیاہ ،منگنی ،سال گرہ اور خوشی کی تمام تقریبات میں یارا سازندہ کی شرکت سے محفل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے۔ معاشرے کے وہ افراد جو کم وسائل رکھنے کے باعث مشہور گلو کاروں ،موسیقاروں،رقاصوں اورفن کاروں کو اپنی خوشی کی تقریبات میں بُلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، یارا سازندہ ان کے ہاں پہنچ جاتا اور بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرتا ۔یارا سازندہ موسیقی سے والہانہ محبت کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ فنون لطیفہ بالخصوص مو سیقی ایسا سر چشمہ ٔ آ ب ِ بقا ہے جو موجودہ زمانے میں دنیا کو خوف و دہشت ،ہوسِ زر اور سماجی برائیوں سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔وہ اس بات پر اصرار کرتاتھا کہ یہ بات تو طے ہے کہ افراد کے ذہنوں کو بدلنے والی اہم قوت سُر اور لَے ہے تو پھر یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حیات و کائنات کے تغیر و تبدل میں زندگی کے بے آواز ساز کے کلیدی کردار سے شپرانہ چشم پوشی ممکن ہی نہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے مایوسی ،اضمحلال ،پریشاں حالی اور درماندگی کی شبِ تاریک میں موسیقی ستارۂ سحر ثابت ہوتی ہے ۔وہ یہ بات بر ملا کہتا تھا کہ موسیقی کے بغیر اس کی اپنی زندگی ادھوری ہے ۔موسیقی کو وہ ایسا تیرِ نیم کش قرار دیتاتھاجس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہو سکتا مگر اس کا حیران کُن پہلو یہ ہے کہ موسیقی کے تیر سے گھائل ہونے والے کے دِل سے کوئی ٹیس یا کسک بھی نہیں اُٹھتی اور نہ ہی کوئی خلش ہوتی ہے ۔یارا سازندہ واقعی قسمت کا دھنی تھا اس لیے ایسے مواقع پر خوشیوں میں شامل لوگ اُس کے کمالِ فن سے متاثر ہو کر دریا دلی کا مظاہرہ کرتے اوراس معمر سازندے کے مو سیقار، گلو کار اور رقاص ساتھیوں پر کر نسی نوٹ نچھاور کر کے ان کا خوب حوصلہ بڑھاتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ یارا سازندہ کسی بے یار و مدد گار خاندان کی خوشی کی تقریب میں شامل ہو کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تو مداحوں کی طرف سے اسے جو رقم بہ طور انعام ملتی وہ اسی خاندان کے سر براہ کو دے دیتا۔ کھانے کے وقت غریب میزبا نوں کے شدید اصرار پر وہ اور اس کے ساتھی صر ف چند لقمے کھاتے اور دعا دے کر خاموشی سے اپنے گھر چلے آ تے۔ عجز و انکسار اور اخلاص و ایثار کی ایسی مثالیں اب شاز و نادر ہی ملتی ہیں۔
اگرچہ دتو گھومی دولت کمانا خوب جانتا تھا مگر دولت خرچ کرنے کا بھی اس کا منفر د انداز تھا۔علاقے میں موجود نادار مریضوں،مفلس و قلاش لوگوں ،دردمندوں ،بے سہارا ضعیفوں، معذوروں ، بیواؤں ،یتیموں اور مسکینوں کی دست گیری زندگی بھر اس کا معمول رہا۔گردش ِ حالات کے نتیجے میں رونما ہونے والے پے در پے سانحات نے دتو گھومی کو احسا سِ ویرانی کی بھینٹ چڑھا دیا۔نمود و نمائش سے بے نیاز رہتے ہوئے نیکی کے ایسے کام وہ اس راز داری سے کرتا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ غیر مخلص لوگو ںسے دُور رہتے ہوئے نیکی کر اوردریا میں ڈال زندگی بھر اس کا شیوہ رہا۔ دتو گھومی کے احباب نے اُسے جان لیوا تنہائیوں کی بھینٹ چڑھا دیااور اُسے دردِ وفا کی صورت میں راتوں کو جاگنے کی سزا دے کر چل دئیے ۔ دتو گھومی رجائیت پسند مزدور تھا اس لیے ہر صبح یہی کہتاکہ میرے گھر کے صحن میں جب سورج کی پہلی کرن پڑتی ہے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ دِل بُرا کرنے کی کوئی و جہ نہیں ابھی زندگی پڑی ہے ۔ میر ے لیے یہی نوید کافی ہے کہ میری زندگی میں میرے پوتے اِس گھر میں کھیلتے ہیں ۔ گردش ماہ و سال کی زد میں آنے کے بعدمیرا ذاتی گھر تو محفوظ نہ ر ہا خدا کا شکر ہے کہ میرے بیٹے اور بیٹی کا گھر آباد ہے ۔ دتو گھومی اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاتھا کہ یار ا سازندہ نے ذاتی محنت اور لگن سے فن موسیقی میں کمال حاصل کیا ۔ یارا سازندہ کے معاصر موسیقاروں کی متفقہ رائے تھی کہ بِین بجانے میں یارا سازندہ کا کوئی ہم سر نہ تھا۔جب وہ بِین بجاتا تو گرو نواح کے سب زہریلے ناگ اور ناگنیں اپنے سوراخوں سے باہر نکل کر سر مستی اور وجد کے عالم میں جھومنے لگتے۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کئی نمک حرام مار ِ آستین بھی یارا سازندہ کی بِین کی مار نہ سہہہ سکتے اور بد مستی اور خرمستی کے باوجود در بہ در اور خاک بہ سر کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے مفادات کے استخواں نوچتے ،بھنبھوڑتے ،دُم ہلاتے اور دانت پِیستے پھرتے تھے۔بِین بجانے میں یارا سازندہ اپنے حلق کی پوری طاقت اور فنی مہارت استعمال کرتا تھا ۔ شہر میںایک عرصہ تک یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ اگر یارا سازندہ بھینس کے آ گے بھی بِین بجائے تو بھینس اپنے سینگ جھکا کر ،سر بڑھا کر اور گردن ہلا کر داد دیتی ہے لیکن جب بِین کی آواز کر خت ہونے لگتی ہے تو بھینس دُم جھٹک کر بے وقت کی راگنی اور بے داد کے خلاف فریاد کرتی ہے ۔ یارا سازندہ کے عزیز و اقارب کے بھیس میں کئی عقرب،سانپ تلے کے بچھو،مشکوک نسب کے سفہا،اجلا ف و ارذال اور کینہ پرور حاسد بھی گھس گئے تھے۔ دتو گھومی اندر اور باہر سے یکسا ںتھا اپنے معاصر دوستوں کو یاد کرتا تو اُس کی آ نکھیں بھر آتی تھیں۔وہ یارا سازندہ کے فن کا مدا ح تھا جو دِل کے زیاں کو موسیقی کی زباں دینے کی صلاحیت سے متتمع تھا۔دتو گھومی اپنے دِل کا حال لبوں پر لانے میں ہمیشہ تامل سے کام لیتااور کہتا کہ منافقت کے موجودہ زمانے میں صاف گوئی بہت ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیل ماہ و سال میں اُس کی زندگی کاسار اثاثہ بہہ گیا مگر اُس نے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے ۔
میں کر بلا حیدر ی جھنگ کے ایک گوشے فتح دریا میں کھڑاتھا۔ نماز جنازہ کے بعد دتو گھومی کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ دائمی مفارقت دینے والے محنت کش کی لحد پر پھول ڈالے گئے ۔اسی شہر خموشاں کے ایک گوشے میں میری والدہ ،میری بیٹی ،میرا بھائی منیر حسین اور میرا نو جوان بیٹاسجاد حسین آسودۂ خاک ہیں ۔میں نے اپنے دِلِ حزیں پر ہاتھ رکھ کر فتح دریا کی خاک سے بے ساختہ سوال کیا :
’’ جب گنج ہائے گراںمایہ ،آنکھوں کا نُور ،دِل کا اُجالا ،گھروں کو تابانی عطا کرنے والی کرنیں ،مہکتی سانسیں ،دبنگ لہجے ،فرحت بخش صدائیں ،شادمانی کے نقیب چاند چہرے ،ضعیف والدین کی لاٹھی ،بوڑھی ماں کے جگر کا ٹکڑا ،کسی بہن کا بھائی ، گلاب ،چنبیلی ،سر و سمن ،کسی دلھن کا سہاگ ،بُور لدے چھتنار ،نخلِ سایہ دار ،ہری بھری فصلیں ،مستقبل کی امیدیں ، حوصلوں کی بلند پروازی اپنی تمام تر عطر بیزی کے ساتھ اور پورا باغ جب پیوند ِ خاک ہو جاتاہے تو وہ الم نصیب جگر فگار مالی جس نے اپنے جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے پالے ہوتے ہیں اُس کے دِل پر جو قیامت گزر جاتی ہے کیا اُس کا احوال بھی تمھیں معلوم ہے ؟‘‘
اس دشتِ مصیبت میں مہیب سناٹوں نے میری آواز کے پرزے اُڑا دئیے ۔
اپنے رفتگان کے بارے میں مختلف کتبوں پر نوشتہ تاریخ کی گواہی پڑھتے پڑھتے میں آگے بڑھا ۔دتو گھومی کی میّت کے ساتھ آنے والے سب لوگ تدفین کے بعد اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔اپنی سوچوں میں گم میں چھے جولائی 2017ء کو دائمی مفارقت دینے والے اپنے نو جوان بیٹے سجاد حسین کی آخری آرام گاہ کے قریب پہنچ گیا۔میں نے دعا کی اور ندا فاضلی کے یہ کرب انگیز اور فکر انگیز شعر پڑھے :
تمھار ی قبر پر
میںفاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جُھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتّا ہوا سے ہِل کے ٹُو ٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ۔۔۔۔وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میںاپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جُھوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………..
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhang City )