کیا آپ نے دیریلیس ارطغرل دیکھا ہے؟
یہ وہ سوال تھا ، جو کچھ عرصے پہلے پوچھا گیا یا کہیں پڑھا تو سب سے پہلے قدرتی طور پر ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ دیریلیس ارطغرل ہے کیا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ترکی کے معروف فلمساز Mehmet Bozdag کا بنایا ہوا سیریل ہے دیریلیس ارطغرل۔ ارطغرل ایک طلسم کدہ ہے جو ماضی کو حال سے جوڑتا ہے اور مستقبل کی تعمیر کرتا ہے. یہ وہ آئینہ ہے جس میں ماضی اور حال اکٹھے دکھائی دیتے ہیں. یہ امت کا وہ خواب ہے جو آج سے ٹھیک آٹھ سو برس پہلے دیکھا گیا، جب منگولوں کی آفت ، خلافت کی کمزوری اور مسلمانوں کی تقسیم نے دل و دماغ ویران کر رکھے تھے۔ یہ آج بھی امت کا خواب ہے جو مغربی تہذیب کے غلبے، خلافت کے خاتمے اور مسلم دنیا کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کے دل و دماغ کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مسلم دنیا میں جو پزیرائی ملی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے.
میں نے اس سے پہلے آج تک کوئی سیزن نہیں دیکھا۔ چوں کہ عادت نہیں ہے لمبے لمبے سیزن دیکھنے کی، اس لیے ڈرتے ڈرتے ارطغرل کی پہلی قسط دیکھی تھی لیکن ایسا چسکا پڑا کہ پھر آہستہ آہستہ پورے پانچ سیزن دیکھ ڈالے ۔
اگر ذرا آسان لفظوں میں کہوں تو دیریلیس ارطغرل ایک ترکی ڈرامہ ہے جو ترک قائی قبیلے کے سردار ارتغرل کی زندگی پر بنایا گیا ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں جب مسلم دنیا انتشار کا شکار تھی، خلافت عباسیہ کمزور پڑ چکی تھی، منگول پے در پے حملوں سے مسلم دنیا کو تخت و تاراج کررہے تھے، اسی دور میں قائی قبیلہ جو بہت سے دوسرے ترک قبیلوں کی طرح ایک خانہ بدوش قبیلہ تھا، پہلے حلب اور پھر سوگت میں جاکر آباد ہوا۔ قائی قبیلے کے جس سردار کو پہلے شہرت ملی ، وہ سلیمان شاہ تھے۔ انہی کے ایک بیٹے ارتغرل نے صلیبیوں کی سازشوں اور منگولوں کے حملوں کے خلاف،نہ صرف ترک قبیلوں کو ایک لڑی میں پرو دیا بلکہ ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر عظیم عثمانی سلطنت کے نام پر سات سو سال تک دنیا کے نقشے پر قائم رہی۔ جس نے عرب و عجم کو پھر سے خلافت کی وحدت تلے اکٹھا کردیا اور جس نے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے تین براعظموں پر اسلام کا پرچم لہرایا۔
یہ عظیم عثمانی خلافت جب تک پیروں پر کھڑی رہی ، مسلمان دنیا کی سیادت پر فائز رہے ۔ اسے مسلمانوں کا دوسرا دورِ عروج بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس سمیت تمام یورپی طاقتیں نہ صرف اس سے خوفزدہ تھیں بلکہ سامنے آکر اس سے مقابلہ کرنے کی بجائے پسِ پردہ اسے گرانے کے لیے سازشوں میں مصروف بھی رہتی تھیں۔ لیکن تمام تر سازشوں ، عرب ترک جھگڑوں اور کمال اتاترک جیسے غداروں کی مدد سے اہلِ یورپ کو اس عظیم سلطنت کو گرانے میں پورے ڈیڑھ سو سال لگے۔ یہ ایک الگ اور طویل کہانی ہے۔
تو ارطغرل اسی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے عظیم قائی سردار ارتغرل کی زندگی کی کہانی ہے ۔ اس کے پانچ سیزن ہیں۔ پہلے سیزن سے لے کر پانچویں سیزن تک کہانی ، پلاٹ، کردار، مکالمے اور پروڈکشن سب جاندار ہیں۔ آپ ایک دفعہ یہ ڈرامہ شروع کریں گے تو پھر اسے پورا کئے بغیر دم نہیں لیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ اس ڈرامے کو تب شروع کیا جائے جب اگلے چار پانچ ماہ تک کوئی بڑی مصروفیت پیش نظر نہ ہو۔
اس ڈرامے میں دکھائے جانے والے کردار اپنی اپنی جگہ بہت جاندار ہیں۔ ان کرداروں میں آپ کو آج کی مسلم دنیا کے بہت سے کردار واضح طور پر دکھائی دیں گے۔ ان کرداروں کو کرنے والے ادکاروں نے اداکاری کے جوہر بھی اتنے شاندار دکھائے ہیں کہ آدمی عش عش کر کے اُٹھتا ہے۔ خصوصا ارتغرل اور حلیمہ سلطان کا کردار تو بہت جاندار اور مثالی ہے ۔ اس کے علاوہ ابن عربی، حائمہ اماں ، کردوغلو، سعد الدین کوپیک، تورگت(نورگل)، بامسے(بابر) اور ابن عربی کے کردار بھی بہت شاندار ہیں۔
ارطغرل تو خیر اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے جو عزم ، حوصلے اور استقلال کی علامت ہے اور بحرِ عروج کے لیے اپنی نہ ختم ہونے والی جدوجہد کے لیے ایک مثال ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تورگت، بامسے اور روشان جیسے بہادر خود بخود ہمارے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں. خصوصا بچوں کو بامسے اور روشان بہت پسند آتے ہیں۔ جب بھی ڈرامے میں ارتغرل کو کس کشمکش یا الجھن کا شکار نظر آتاہے ، وہیں ابنِ عربی کا کردار سامنے آتا ہے اور اسے قرآن و حدیث اور روحانیے سے اس کی الجھن کا حل نکالتا ہے ۔ اگرچہ ان کے کردار میں کچھ ایسی روحانی طاقتیں بھی دکھائی گئی ہیں، جو ہمارے ہاں تصوف کے تصورات کی دین ہیں، لیکن بہرحال مجموعی طور پر مجھے یہ کردار پسند آیا ہے۔
جہاں اس کے اچھے کرداروں میں ہمیں اپنے بہادروں اور عظیم لوگوں کا عکس نظر آتا ہے ، وہیں اس کے منفی کرداروں میں آج کے حکمرانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں کا عکس بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔
خصوصاً کردوغلو اور سعد الدین کوپیک جیسےحکمران اور جرنیل جو اقتدار کی خاطر کفار سے دوستی اور اپنی قوم سے غداری کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔
اس ڈرامے میں دکھایا گیا کلچر قدیم اسلامی ترک کلچر ہے ، جو بہت خوب صورت ہے ۔ ان کے بہت سے رسم و رواج دیکھ کر دل یہی کرتا ہے کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسے ہی رسم و رواج ہوں۔ خصوصا ترک خواتین کا معاشرتی کردار بہت جاندار اور قدرتی دکھایا گیا ہے ۔ جو آج کے دور میں عورتوں کی آزادی اور فیمنزم کا شافی علاج ہے۔ اس میں دکھائی جانے والی تہذیب خالصةً اسلامی نہیں ہے ، اس میں ترک کلچر کے گہرے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے کردار میں ایک خاص رنگ کا ترک رنگ غالب نظر آئے گا۔ بہرحال اس میں دکھایا جانے والا کلچر ایسا ضرور ہے کہ اس کے بارے میں کسی ملک کے صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جسے آپ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر مطمئن ہوکر دیکھ سکتے ہیں۔
اس ڈرامے کو اسلامک گیم آف تھرون بھی کہا گیا ہے ۔ میرے خیال میں اسلامک کا لاحقہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ’’گیم آف تھرون‘‘ مغربی کلچر اور نظریے کا نمائندہ ہے تو ’’ڈیریلس ارتغرل‘‘ آج کے دور میں اسلامک کلچر اور نظریے کا نمائندہ ہے۔ جہاں گیم آف تھرون میں مغربی تہذیب کے اوصاف بدکاری، فحاشی، عریانیت، محرم رشتوں کی تباہی اور اقتدار کے لیے بدترین جدوجہد دکھائی گئی ہے ، وہیں ارتغرل میں اسلامی تہذیب کے اوصاف بڑوں کی عزت، اخلاص، انصاف ، عدل ، اخلاقیات، اتحاد، محبت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا ، دکھایا گیا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں گیم آف تھرون اور ارتغرل دو مختلف اور مخالف تہذیبوں کے نمائندے کہے جاسکتے ہیں۔
اس ریکارڈ توڑ سیریز میں سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کی کہانی کو فلمایا گیا ہے۔ کیا ہے سلطنت عثمانیہ ؟ ذرا تفصیل سے ملاحظہ کیجئے:
سلطنتِ عثمانیہ کا نام کسی نسل یا قوم سے نہیں بلکہ اس کے پہلے حکمران سلطان عثمان غازی کے نام سے منسوب ہے. عثمان کے نام پر ہی اس کا نام یہ ہے.
عثمان غازی کے والد کا نام ارطغرل غازی تھا. اس وقت ترک قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے۔ یہ تمام قبیلے خانہ بدوش تھے. جہاں سر سبز علاقہ اور پانی نظر آیا، وہیں خیمے گاڑ کر ڈیرہ ڈال لیا. ان قبیلوں میں ایک قبیلے کا نام قائی قبیلہ تھا. قائی قبیلہ باقی قبیلوں سے کچھ بڑا اور طاقتور تھا. سلیمان شاہ اس قبیلے کا سردار تھا. یہ نہایت جنگجو قبیلہ تھا. سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد اسلام کی اشاعت تھی. کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان ہر جگہ سے کمزوری کاشکار تھے. منگول اپنا سر اٹھا رہے تھے. سلجوقی سلطنت اپنے زوال کے قریب تھی. ان حالات میں ضروری تھا ک مسلمانوں کی تعداد کو بڑھایا جائے. سلیمان شاہ کا انتقال ہو گیا. اس کے تین بیٹے تھے. منجھلہ بیٹا ارطغرل اپنے والد کا جانشین مقرر ہوا. اور قبیلے کا سرادر بنا.
ارطغرل غازی بہادر، نڈر، جنگجو شخص تھا. جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا. لیکن وقت وہ آگیا کہ منگول ہر طرف تباہی پھیلا رہے تھے. مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا. چنگیز خان کی فوجوں نے خوارزم شاہ سلطنت کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا. مسلمان منگولوں کے آگے لگ کر بھاگ رہے تھے. اس صورت حال میں ارطغرل منگولوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا. وہ اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف رواں ہوا. اس کے ساتھ تقریبا چار سو کے لگ بھگ خاندان تھے. رستے میں اس نے دیکھا کہ دو فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں. اس نے سوچا کہ کسی ایک کا ساتھ دینا چاھیئے. اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ لشکر کس کس کے ہیں. کچھ سوچ کر اس نے جو فوج ہار رہی تھی اس کا ساتھ دیا اور اپنے ان تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ مخالف فوج پر اچانک اور بہت تیز حملہ کروایا. وه فوج ڈر گئی اور سمجھی کہ ان کو کہیں سے مدد مل گئی ہے. اور وہ فوج جیتتے جیتتے ہار مان گئی. بعد میں معلوم ہوا کہ جس فوج کا ساتھ دیا، یہ سلجوقی سلطان علاؤ الدین کی فوج تھی. مخالف فوج کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. بعض کے نزدیک وہ بازنطینی عیسائی فوج تھی اور اکثر کے مطابق وہ تاتاری تھے. بہرحال سلطان ان کی بہادری سے بہت خوش ہوا اور ارطغرل کے قبیلے کو اپنی سلطنت میں اناضول کے قریب سقاریہ کے علاقے میں ایک جاگیر عطا کی اور یہ قبیلہ وہیں آباد ہو گیا. سلطان نے ان کو اجازت دی کہ سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں کو فتح کریں اور ان کو سلطنت میں شامل کریں. یہ علاقہ بازنطینی عیسائی سلطنت کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا. ارطغرل نے کچھ ہی عرصے میں اپنی شجاعت و بہادری کا سکہ بٹھا دیا. ان فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی بہت سے ترک قبائل بھی ارطغرل کے ساتھ مل گئے اور اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا. ارطغرل، سلطان علاؤ الدین کے نائب کے طور پر لڑتا رہا اور اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا. ارطغرل نے بازنطینی سلطنت کے ایک بڑے متحدہ لشکر کو شکست دی. مدتوں اس جاگیر کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل جنگیں لڑتے رہے. 1281ء میں نوے برس کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہو گیا. اس کے جانشین اس کا بیٹا عثمان غازی تھا. عثمان اپنے والد کی طرح پکا مسلمان، بہادر اور حوصلہ مند تھا. اس نے بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا. ادھر سلطان علاء الدین سلجوقی ایک جنگ میں شہید ہوئے. اس کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا. 1299ء میں سلجوک سلطنت بالکل ختم ہوگئی. عثمان غازی نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا. یوں سلجوقی سلطنت سے علیحدہ عثمانی سلطنت قائم ہوئی. سلجوقوں کے لئے یہ بات تشویش کا باعث ہوتی لیکن وہ اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے مکمل زوال پذیر ہو چکے تھے. امیر عثمان غازی نے بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا اور ینی شہر جو کہ برصہ کا ایک ضلع تھا، کو اپنا دارالحکومت بنایا. سلطان عثمان نے مال خاتون سے شادی کی. سلطان عثمان کو سلطنت ملنا اور ایک مضبوط اسلامی سلطنت کا قائم ہونا، اللہ کی مرضی تھی. اس سلطنت کے قائم ہونے کے بعد مسلمان متحد ہونا شروع ہوئے.
برصہ کی فتح کے بعد سلطان عثمان بیمار ہوئے اور 1323ء کو وفات پائی. مرنے سے پہلے اپنے بیٹے اورخان کو ایک طویل نصیحت کی. اورخان سلطان بنا اور اپنے باپ کی پالیسی کو جاری رکھا. جب سلطان عثمان کا انتقال ہوا تو سلطنت کا رقبہ 16,000 مربع کلومیٹر تھا. ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی. سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے نبی کریم ﷺ کی حدیث بھی پوری کر دی اور اپنے بہترین ہونے کا ثبوت دیا.
سلطنتِ عثمانیہ کے نویں (9th) سلطان ، سلطان سلیم اول نے مصر میں موجود عباسی خلافت ختم کر کے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا. یوں خلافت بھی ان کی ہوئی اور سلطان سلیم اول سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے خلیفہ بنے. یہ سلطنت 623 سال قائم رہی اور 1922ء میں ختم ہوئی.
اسی عظیم الشان سلطنت کے ابتدائی دور کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے #دیریلیس ارطغرل نامی اس سیریل میں۔
دیریلیس ارطغرل کی پوری سیریز کی اہمیت صرف اس وجہ سے نہیں کہ یہ ترکوں کے اجداد کی تاریخ ہے، بلکہ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس سیریز نے موجودہ دور میں بھی ترکوں کو لازوال طریقے سے اپنے ماضی کیساتھ جوڑنے کا فریضہ یوں انجام دیا کہ اردوگان کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو دبانے میں ارطغرل کی فکر نے پوری نوجوان نسل کو متأثر کیا ..اس سیریز کی خصوصی موسیقی ان کی مجالس میں بڑے شوق سے سنی جاتی تھی .اردوغان نے اس ٹیم کا دورہ بھی کیا، ان کے کام کو بھی دیکھا اور ان کیساتھ تصاویر بھی کھینچوائی.
ہم کہ عام حالات میں سکرین کو خرافات کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور ان سے دور رہنے کی ہی ترغیب دیتے ہیں، مگر وہ کہ جن کو سکرین کے ساتھ تعلق ہے اور جو اس میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کو چاہیئے کہ ضرور اسے دیکھے.
ابھی تک اس کے پانچ سیزن گذرے ہیں.ہر سیزن میں ستر سے اوپر اقساط ہیں، اردو ڈبنگ یا اردو سب ٹائٹلز کے اعتبار سے..
اس کا پہلا سیزن ایک ہرن کے شکار سے شروع ہوتا ہے، جو بھاگتے بھاگتے ارطغرل کو ایک غزال آنکھوں والی لڑکی کے پاس لے جاتا ہے اور یہ ملاقات چرواہوں کے ایک قبیلے کے سردار کے بیٹے اور خود قبیلے کی زندگی بدل دیتی ہے.
کیونکہ یہ بچی سلجوق خاندان کی شہزادی ہوتی ہے، جس کے پیچھے صلیبی لگے ہوتے ہیں.پھر جلد ہی یہ ایوبیوں کی پسند بن جاتی ہے.یوں ارطغرل کو ایک ساتھ ہی قبیلے، صلیبیوں اور ایوبیوں کی مخالفت مول لینی پڑجاتی ہے اور تب ہی اس کا امتحان اور تربیت شروع ہوجاتی ہے.اور تب ہی کچھ تکوینی قوتیں اس کے ہمراہ ہوکر اسے خیر کے ایک نمائندے کے طور پر دیکھنے، سنبھالنے، تربیت کرنے اور ہمت دلانے لگ جاتی ہیں.ارطغرل پہلے قبیلے کے سازشیوں پر قابو پاتا ہے، ایوبیوں کو رام کرتا ہے اور حسن بن صباح کی طرز پر خونی کارروائیاں کرنے والے صیلبیوں کے سروں پر ان کے قلعے کو ڈھا دیتا ہے.
یہ پورا سیزن انہی واقعات پر مشتمل ہے.
چوہتر اقساط پر مشتمل یہ سیزن میرے خیال میں پچاس میں آسانی سے نمٹ سکتا تھا، مگر اسے کچھ زیادہ ہی پھیلا دیا گیا ہے.
بہرحال اس سیریز کی جان دوسرا سیزن ہے.
پہلے سیزن کی پینسٹھ 65 قسطیں دیکھنے کے بعد
پوری دنیا میں منگولوں کے ظلم و بربریت سے مسلمان اور عیسائ دنیائیں دونوں پریشان لیکن آپسی چپقلش بھی عروج پر۔
صلیبیوں کی حالت
صلیبی حکومتوں کے بادشاہ مجموعی طور پر بزدل اور مسلمانوں سے ڈرے ہوئے تھے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور پادریوں کے اصرار کے باوجود شہنشاہ فریڈرک مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اتنی قوت نہیں کہ ان سے مقابلہ کر سکیں۔ اگر پادری بڑا لشکر تیار کر لیں تو میں جنگ کے لیے تیار ہوں۔
پادریوں کی حالت:
انتہائی سازشی اذہان رکھنے والے پادری جو پاپائے اعظم کو بھی اپنی مٹھی میں رکھتے تھے۔
صلیبی جہاد کے نام پر غریب عیسائیوں کا خون چوستے اور جب جی چاہتا کسی کو بھی مروا دیتے، بھلے ذاتی مخالفت ہی اس کا سبب ہو۔
اپنوں پر کئے گئے ظلم و ستم پادریوں کے لیے بہت نقصان دہ رہا اور وہ مظلوم عیسائی مسلمانوں کے تر نوالہ ثابت ہوتے تھے۔ یا تو وہ مسلمان ہو جاتے یا پھر وہیں رہتے ہوئے مسلمانوں کے لیے جاسوسی کا فریضہ سرانجام دیتے۔
ان کے صلیبی جانباز بیت المقدس کی بازیابی کے لیے انتہائی مخلصانہ کوششیں کرتے یہاں تک کہ زہر کے کیپسول ساتھ رکھتے، جہاں کہیں بھی زندہ پکڑے جانے کا اندیشہ ہو تو کیپسول نگل لیتے۔
پادری مسلمانوں کے مخالف تو تھے لیکن ذاتی طور پر انتہائی بدکردار، بزدل، اور حب جاہ کے مریض تھے۔ وہ عیسائیوں کی دولت، عورت اور جذبات کو اپنی طاقت اور شان و شوکت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
سب سے بڑا منصب پاپائے اعظم کا تھا جس کو پانے کے لیے وہ آپس میں دست و گریباں رہتے تھے اور اس کے لیے ایک دوسرے پر بہتان لگانے سے لے کر جان لینے تک ہر حربہ جائز سمجھتے تھے۔
سارے عیسائی چاہتے تھے کہ ایک بڑی صلیبی جنگ ہو اور ہم بیت المقدس مسلمانوں سے چھین لیں لیکن قربانیاں صرف عام عیسائی ہی دے رہے تھے۔
مسلمانوں کی حالت:
مسلمان بادشاہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف تھے اور اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے بادشاہ لوگ جو حربے آزماتے ہیں وہ بھی آزماتے، بے بصیرت بھی تھے، فراست بھی ان میں نہیں تھی لیکن بدکردار اور بزدل نہیں تھے۔ علماء سے محبت رکھتے تھے اور ان کے مشوروں کو سنتے، مانتے اور عمل بھی کرتے تھے۔
علماء کی حالت:
اس دور میں علماء کرام، صوفیاء حضرات اور اولیاء عظام کا کردار ایک ایسا درخشندہ باب ہے جس کا ہر مسلمان کو علم ہونا چاہیے۔ یہ پاکیزہ لوگ منگولوں، صلیبیوں اور مسلمانوں کے درمیان گھومتے پھرتے۔ بہادر لوگوں کو تلاش کرتے، ان پر محنت کرتے۔ کافروں کو مسلمان کرتے۔ ان کے قلوب پر توجہ فرماتے۔ ان کا تزکیہ نفس کرتے۔ ان کے آپس میں تعلقات قائم کرواتے۔ مسلمان حکومتوں کو آپسی اختلافات سے بچانے کی کوشش کرتے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ ساری کوششیں کسی فقہ، مسلک یا فرقے کی ترویج کے بجائے اسلام کے لیے کرتے تھے۔
اس سیزن میں صرف ابن العربیؒ کا کردار دکھایا گیا ہے لیکن کیا ہی خوب کردار ہے، کیسی زبردست محنت ہے اور کیا ہی خوبصورت نصائح ہیں، دیکھ سن کر مزا آجائے۔
جو لوگ فلموں سے پرہیز کرتے ہیں وہ بے شک نہ دیکھیں، لیکن جو دیکھتے ہیں وہ بجائے انگیزی اور انڈین فلموں کے یہ سیریل دیکھیں۔ اسلامی تاریخ اور تعلیمات سے مزین بہترین کرداروں پر مشتمل یہ سیریل جہاں مسلمانوں کے ہر طبقے کو نہ صرف اپنے درخشاں ماضی کی سیر کرائے گی بلکہ راہ عمل بھی دکھائے گی۔
ارطغرل فقط ایک ڈرامہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سحر ہے جو مسحور کر دیتا ہے ، یہ ایک طلسم ہے جو جکڑ لیتا ہے ، یہ مغرب کے ہر قلعے کو پاش پاش کر دینے والا جانباز سپاہی ہے، مغرب اس سے کتنا پریشان ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک ٹائمز کے ایک ریویو میں اسے ترکی کا سافٹ ایٹم بم قرار دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ اردگان اس کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو ورغلا رہا ہے اور انہیں عظیم اسلامی سلطنت کے دلکش خواب دکھا رہا ہے، اس کے ذریعے ایک ایسا جذبہ پیدا کیا جارہا ہے ، جو عنقریب قیامت خیز طوفان کی صورت میں نمودار ہوگا
در اصل بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کے ذریعے مسلمانوں کی بزدلی اور احساس کمتری کو ختم کیا جا رہا ہے ، انہیں اپنی تہذیب پر فخر کرنا سکھایا جا رہا ہے ، صوفیاء کرام سے تعلق قائم کرنے کیلئے انہیں شیخ محی الدین ابن عربی ؒ کی مجالس دکھائی جا رہی ہیں، اس وقت یہ ڈرامہ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے۔
میری نظر میں یہ ڈرامہ اسلامی انقلاب کا ایک عظیم داعی ہے، مسلم نوجوانوں کو ضرور یہ ڈرامہ دیکھنا چاہیے ، اگرچہ اس کو مکمل اسلامی ڈرامہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بعض سین ایسے ہیں ، جو قابل اعتراض ہیں ، لیکن اس کی بھی ایک وجہ ہے ، دراصل یہ تاریخ ہے، اس میں جو کچھ ہوا ، وہی کچھ دکھایا گیا ہے، لیکن ایسے سین آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں کہ آخر اس ڈرامے میں کیا دکھایا گیا ہے۔
یہ ڈرامہ ترکی کے ایک خانہ بدوش قبیلے قائی پر بنایا گیا ہے ، جس کے پاس فقط دو ہزار جنگجو تھے لیکن یہ جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے، یہاں تک کہ صلیبی اور منگول بھی ان سے فکر مند رہتے تھے ، ارطغل قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا بیٹا تھا ، یہ بے خوف اور نڈر مسلمان تھا ، یہ اسلامی اتحاد کا عظیم داعی تھا ، یہ کافروں کی ہر ایک سازش کو ناکام بنانے والا عظیم ہیرو تھا ، اس ڈرامے میں عیسائیوں کی سازشوں کو بڑی تفصیل سے دکھایا گیا ہے ، عالم اسلام کی نااتفاقی بھی بڑی ایمان داری سے دکھائی گئی ہے، مسلمانوں میں چھپے غداروں کو بھی بہت احسن انداز سے دکھایا گیا ہے۔
اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد آپ بھی ضرور سوچیں گے کہ آخر کیوں ؟
یورپ ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر اتنا زور دے رہا ہے ، یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں سے کون کس کس طرح فائدے اٹھا رہا ہے
اگر آپ تلاش کریں گے ، تو آج بھی آپ کو اس ڈرامے کے کردار جگہ جگہ نظر آئیں گے
اس ڈرامے کے متعلق کیے گئے پروپگنڈے پھیلائے گئے تو اس کے متعلق رجب طیب اردگان نے فقط ایک جملہ کہا تھا
*جب تک شیر خود اپنی تاریخ نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے*
دوسرے سیزن کی شروعات ہوتی ہے جب ارطغرل کا خانہ بدوش قبیلہ اناطولیہ ہجرت کرتے وقت منگولوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور خود ارطغرل اور اس کی بیوی قبیلے سے باہر گھوڑوں کو پانی پلاتے ہوئے منگولوں کے سامنے آجاتے ہیں. ارطغرل بیوی کو بھاگنے کا کہتا ہے اور خود مقابلہ کرنے لگ جاتا ہے، مگر منگول جو اپنے سردار سے اس کے زندہ پکڑے جانے کا حکم لے کر آئے ہوتے ہیں، اس کو زندہ ہی پکڑ لے جاتے ہیں اور یوں ارطغرل کو تکالیف اور عذابوں کے جان گسل سلسلے سے گذرنا پڑتا ہے.
اس سیزن میں بھی پہلی دس اقساط بھرپور ہیں، اس کے بعد قبائلی چپقلشوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتاہے، جوپچیس اقساط تک چلا جاتا ہے. پینتس سے آگے پھر ارطغرل قبیلے سے جڑ جاتا ہے اور منگولوں کے ساتھ طویل ترین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے. منگولوں کا سربراہ نویان ہے، جو چنگیز خان کا قریبی اور معتمد ساتھی رہا ہے.
ارطغرل کو بالاخر اشارہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنا قبیلہ بازنطینی ریاست کی سرحد پر لے جائے، مگر اس کے بھائی اس کا انکار کرتے ہیں.تاہم ارطغرل اپنی ہٹ کا پکا ہوتا ہے، سو وہ اپنے اعتماد کی ایک جماعت کیساتھ روانہ ہوجاتاہے. رستے میں جھڑپوں کے ایک سلسلے کے بعد بالاخر وہ محفوظ ہوجاتاہے.
اس سیریل سے ایک مکالمہ ملاحظہ کیجئے:
آرس : ارطغرل! تم نے مجھے مرنے سے کیوں بچایا، تم نے میرے ساتھ ایسا اچھا سلوک کیوں کیا؟
ارطغرل نہایت پر اعتماد انداز میں آرس کو جواب دیتا ہے:
کیونکہ! تم نے ہمارے ساتھ ہر قسم کی عداوت رکھی، اس لیے میں نے تم سے جنگ کی، تم ظالم تھے اس لئے تم سے تمہارے اعمال کے مطابق سلوک ہوا لیکن اب تم مشکل صورتحال میں تھے ، جو مشکل میں ہو ہم اسے نقصان نہیں پہنچاتے۔
مشکل میں کوئی بھی ہو، چاہے وہ کوئی بھی ہو، ہم اس کی مدد کو آئیں گے…
اب تم اپنے رستے جا سکتے ہو-
آرس بے چینی کے عالم میں آگے بڑھتا ہوا پکارتا ہے
ارطغرل! رکو، رکو۔ مت جاو، مت جاو!
مجھے سمجھ نہیں آرہی، ارطغرل! میں نے تمہارے بیٹے کو اغواء کیا، میں نے تمہارے لئے ہر قسم کے جال بچھائے اور تم، تم نے مجھے آزاد کردیا، تم نے مجھے معاف کر دیا! تم نے میری جان بخشی ! اس کا تعلق صرف وعدہ پورا کرنے سے نہیں ہوسکتا یقینا! کچھ اور چیز ہے … اس کے پیچھے کچھ عالیشان ہے ۔ تمہیں یہ سب کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا، ارطغرل؟
ارطغرل دو قدم آگے بڑھ کر آرس کے قریب آ کر جواب دیتا ہے!
میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں، آرس " اگر میں اپنے نفس کی سنتا … تو میں بہت پہلے تمہارے ٹکڑے کر چکا ہوتا، لیکن میرا ایمان، میرے نفس سے زیادہ برتر ہے
میرے دین نے مجھے یہ کرنے کا حکم دیا ہے یہ میں نے اپنی نفس کی خواہش سے نہیں بلکہ اپنے دین کے فرمان پر کیا"
آرس : اس صورت میں چونکہ یہ تمہارے دین کا دستور ہے .. پھر تمہارا دین ہی سچا دین ہے اور اگر تم اپنے غصے اور جذبات پر نہیں چلتے بلکہ .. تم اسی طرح پیش آتے ہو جیسے تمہارا دین طلب کرتا ہے پھر تمہاری مخالفت کی کوئی وجہ نہیں، ارطغرل۔ تم وہ آدمی ہو جس کی پیروی کی جائے ۔ براہ مہربانی مجھے بتائیں! آپ کے دین میں آنے کیلئے مجھے کیا کرنا ہوگا؟
ارطغرل حیرانی کے عالم میں آرس کو مخاطب کرتا ہے…
کیا واقعی، آرس؟
ایسے فیصلے لمحوں میں نہیں کئے جاتے-
آرس : تمہارے اندر جو عظیم کردار میں نے دیکھا میں نے اپنے قریب ترین دوستوں میں بھی نہیں دیکھا، میرے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے شاید، خدا نے مجھے آخری موقع دینے کے لئے مجھے تمہاری دوستی اور تمہارا دین بھیجا ہو، میں یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا ، براہ مہربانی، مجھے بتاو، مجھے تمہارے دین میں شامل ہونے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
ارطغرل : اپنے گھٹنوں پر آجاو، آرس… اور ارطغرل اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھے اسے مخاطب ہوکر کہتا ہے تو پھر جو میں کہوں، وہ دہراؤ
اشہد ان لا اله الا اللہ و اشہد انّ محمدا عبدہ و رسوله ۔
تیسرا سیزن تب شروع ہوتا ہے، جب ارطغرل اور اس کا قبیلہ اپنے مقام پر پہنچ کر دو تین سال گذار چکا ہوتا ہے.
وہ سخت تنگی اور عسرت کا شکار ہوتا ہے.مگر ارطغرل اور س کے جانباز آہستہ آہستہ ہانلی بازار پر قبضہ کرلیتے ہیں، یوں ان کی معاشی حالت تو مضبوط ہوجاتی ہے، مگر ایک بار پھر اس کے عیسائی حریفوں اور حلیف قبیلے کی غداری کے مسائل چھڑ جاتے ہیں ..یہ سیزن بڑی جھڑپوں کا ایک شاہکار ہے.پہلے دو سیزنوں میں چند مواقع چھوڑ کر باقی جگہوں پر ارطغرل کے اپنے تین جانباز ہی ساتھ ہوتے ہیں، لیکن اب جب ارطغرل قبیلے کا سردار بن چکا ہے، تو بہت سے نئے قابل جنگجو بھی سامنے آجاتے ہیں..تاہم ارطغرل کی اپنے جانبازوں کیساتھ مل کر جو لڑائی کا ایک خاص انداز ہوتا تھا کہ "ایدر اللہ (الحی اللہ) " اور "حق اللہ " کے نعروں میں جب وہ میدان میں کودتے ہیں، تو بیمار جسم میں بھی بجلی پیدا ہوجاتی ہے، وہ منظر واقعی بےمثال ہوتا ہے.
ارطغرل کے تین خصوصی جانباز ہوتے ہیں.ان میں سے ایک کلہاڑی استعمال کرتا ہے، دوسرا دونوں ہاتھوں میں تلوار اور تیسرا ڈھال اور تلوار، جبکہ ارطغرل بائیں ہاتھ سے تلوار اور دائیں ہاتھ میں ساتھ ہی خنجر استعمال کرتا ہے.
چوتھے سیزن میں ارطغرل کاراجا حصار پر بھی قبضہ کرلیتاہے اور صلیبیوں کی بھی گردن مروڑ دیتا ہے اور سوغت کی طرف مراجعت بھی کرجاتا ہے، یہیں اس سیزن کا اختتام ہوتا ہے.
ارطغرل کا کردار ایک بہت مضبوط ایمان، اعلی اخلاق اور بہادری کا حامل ایک ایسا نوجوان ہے، جس کا دل جہاد کی محبت سے لبریز ہے، شہادت جس کی منزل ہے اور قبیلے کی روایات کا تحفظ جس کا فریضہ ہے، ایسا کردار کہ جو بھی دل میں ٹھان لیتا ہے، اسے پورا کرکے ہی دم لیتا ہے.
اس کی بیوی حلیمہ کا کردار بھی ایک بہت مثبت اور مثالی کردار ہے، محبت، حلم اور بردباری کا شاہکار، جو ہماری ماؤں بہنوں کو ایک بہترین رستہ دکھا سکتا ہے.
اس کی ماں حائمہ کا کردار شاید سب سے زیادہ مؤثر ہے.اس خاتون نے جس طرح اپنے کردار میں ڈوب کر اس کو ادا کیا ہے، وہ بےمثال ہے.
اگر بات اداکاری کی ہو، تو صرف مثبت ہی نہیں، منفی کرداروں نے بھی بہت اچھی پرفارمنس دے کر اس سیریز کو زندہ جاوید بنا دیا ہے.
اس سیریز میں سب سے اہم رخ ترکوں کا وہ جذبہ ہے، کہ وہ کس طرح عثمانیوں کی سلطنت کو عالم کے لئے رحمت بنا کر پیش کررہے. ظلم، زیادتی اور جبر کے ماحول میں قدرت کی طرف سے بار بار اشارات کا اظہار کہ بس اب اس سلطنت کا ظہور ہونے ہی والا ہے ، جو اس جبر اور زیادتی کے طوفان کو لگام ڈال دے گی.
اس کے لئے انہوں نے ابن عربی اندلسی کے نام سے ایک قطب کا کردار تخلیق کیا ہے، جو تکوینی امور اور اشارات کی وجہ سے ارطغرل کے ہر مشکل میں روحانی طور پر مددگار رہتا ہے اور تنگی کے وقت میں اس کے کام آتا ہے۔
ترک اسلام اور جہاد کو قومی عصبیت کے ساتھ ملا کر "بحالیء عروج " کا جو خواب دیکھ رہے، دراصل ارطغرل اس کا ایک مجسم ثبوت ہے.
یہ ان کے ماضی سے زیادہ ان کے مسقبل کا پروگرام لگتاہے.
اللہ ان کے نیک ارادوں میں ان کو کامیابی نصیب فرماوے، آمین
اللہ کریم ان کے کرداروں کو اس بہترین کام کی وجہ سے دنیا میں کامل ہدایت اور آخرت میں اپنا خصوصی قرب نصیب فرماوے، آمین.
میں تو ان کے لئے بہت ساری دعائیں کرتا ہوں. آج اگر سکرین سے امت کو بچانا ممکن نہیں، تو کم از کم امت کو اچھی چیز تو دی جاسکتی ہے نا.!
المختصر جس نے نسیم حجازی کے ناول اور التمش کی "داستان ایمان فروشوں " کی نہ پڑھی ہو، تو یہ سیریز ہر دو عنوانات کی طرف سے کافی شافی بن سکتی ہے.
اگر چہرے کے پردہ کو اختلاف علماء کی وجہ سے اجازت دی جائے اور چند عیسائی لڑکیوں کی طرف نہ دیکھا جائے، جن کے سر کے بال نظر آتےہیں، تو پوری سیریز میں شرعی بنیادوں پر ایک ہی چیز قابل اشکال ٹھہرتی ہے اور وہ ہے کرداروں کا واپسی کے بعد اپنی نام نہاد بیویوں سے معانقہ کرنا ..
بہرحال یہ ترکوں کی طرف سے ایک ایسے دور میں جب جہاد کا نام لینا ہی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے، بہت بڑا اقدام ہے.
اللہ کریم ان کی مدد فرماوے، آمین۔
ٹائم مشین کے بارے میں آپ لوگوں نے سنا ہوگا جس کا تصور آئن سٹائن نے پیش کا تھا، اس پر کافی ریسرچ ہوئی اور ہنوز جاری ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ماضی میں جا سکے اور مستقبل بھی دیکھ سکے۔ جو ایک طرح سے نا ممکن ہے۔ پوسٹ کا مطلب یہ ہے کہ اس ٹائم مشین کو بنانے میں ترکی کافی حد تک(ڈیریلیس ارطغرل ڈرامے کی صورت میں) کامیاب ہوئی ہے۔ اس سیریز نے ہمیں ایک حقیقی ٹائم مشین کی طرح 1200 صدی عیسوی کی سیر کرائی۔
ہم نے دیکھا کہ 800 سال پہلے مسلمان زندگی کیسے گزارتے تھے،
ہم نے دیکھا قبائل کس طرح روایات کی قدر کرتے تھے
ہم نے دیکھا اس وقت خیموں کی کتنی عجیب فضا تھی،
ہم نے مجاہد دیکھے،
ہم نے شہداء دیکھے،
ہم نے ارطغرل دیکھا، ترگت، بامسی اور روشان دیکھے
جو ہم نے سنا بھی نہیں تھا اس آشنا ہوئے،
ہم نے پیار اور وفا دیکھا،
ہم نے حائمہ انا اور سلیمان شاہ کا رول دیکھے، کس طرح انصاف اور بچوں کی پرورش کی،
ہم نے اس زمانے کی شادیاں اور دعوتیں دیکھیں
ہم نے چنگیز خان کے ظلم دیکھے (جو اب تک صرف سنتے آرہے تھے)
ہم نے ہلاکو خان اور برکہ خان دیکھے
ہم نے ابن العربی اور سفید داڑھی والے دیکھے
ہم نے مسلمانوں کے جنگی مہارتیں، جال بچھانا اور جال توڑنا دیکھے،
ہم نے خطوط کے ذریعے پیغامات بھیجنا دیکھا
ہم نے وہ زمانہ دیکھ لیا جس زمانے میں موبائل فون اور دیگر نئی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔
ہم نے سرداروں کا زمانہ دیکھا
ہم نے سلطان دیکھے
یہ ہوتی ہے اصل ٹائم مشین جو چند ہی ساعتوں میں تابناک ماضی کی سیر کرائے اور پھر واپس لاکر اس پر سوچنے پر مجبور کرے ۔
ڈرامے کے اختتام پر ایسا محسوس کیا کہ مہمت بوزداغ نے بہت جلد ہمیں (20th) بیسویں صدی سے (12th) بارہویں صدی میں منتقل کیا اور اس تابناک ماضی کی سیر کرا کر واپس بیسویں صدی میں لاکر چھوڑ دیا۔
اللہ پاک ارطغرل غازی Ertuğrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ان پر ہزاروں رحمتیں ہوں …آمین
ارتغل غازی (نظم)
جو عثمانی خلافت کا ہے بانی ارتغل غازی
تو امت پر ہے رب کی مہربانی ارتغل غازی
تو شیروں کی طرح لڑتا رہا باطل کی فوجوں سے
سدا کی تو نے حق کی ترجمانی ارتغل غازی
چٹانوں سے کہیں مضبوط تیرا عزم دیکھا ہے
تو کر گزرا ہے جس کی تو نے ٹھانی ارتغل غازی
صلیبی سازشیں ہوں یا ہو منگولوں کی ہٹ دھرمی
مٹادی تو نے ان سب کی کہانی ارتغل غازی
ترا شیوہ مصائب جھیل کر ثابت قدم رہنا
تہہ خنجر عدو کی اک نہ مانی ارتغل غازی
ہمیشہ اتحادِ امتِ مسلم کا داعی تھا
جہاں کرتا ہے تیری مدح خوانی ارتغل غازی
تو اپنوں اور غیروں میں سدا انصاف کرتا تھا
مثالی تھی تمہاری حکمرانی ارتغل غازی
ترے روشان بابر نورگل سچے مجاہد ہیں
جنہوں نے کی مشن کی پاسبانی ارتغل غازی
جہادِ فی سبیل اللہ کا بچپن سے تھا دیوانہ
کھپادی اس میں پھر اپنی جوانی ارتغل غازی
وہ دشمن کی صفوں کو روندتا تھا اس طرح رفرفؔ
کہ جیسے ہو اک آفت آسمانی ارتغل غازی
(امتیاز احمد رفرف رحمہ اللہ)۔
اس ناقابل فراموش سیریل کے سارے ہی ایپی سوڈز دیکھنے کے لیے درج ذیل لنکس پر کلک کریں اور ٹیلیگرام سے ڈاؤنلوڈ کریں:
Ertuğrul ارطغرل
SEASON 1:point_down:
_____________________________
SEASON 2:point_down:
_____________________________
SEASON 3:point_down:
_____________________________
SEASON 4:point_down:
_____________________________
SEASON 5:point_down:
____________________________
Different Diriliş Ertuğrul tones:point_down:
(معمولی حذف و اضافہ اور ترمیم کے ساتھ محمد انیس کشمیری کے ٹیلیگرام چینل سے کاپی پیسٹ)