کیا آپ نے کبھی کنٹینر دیکھا ہے؟ خصوصاً اگر آپ اسلام آباد یا کراچی میں رہتے ہوں گے تو کنٹینر کو ضرور جانتے ہوں گے۔ اسلام آباد کی شاہراہیں کنٹینرز سے ہی بند کی جاتی ہیں۔ محض دو چار کنٹیر سے مکمل راستہ بلاک ہو جاتا ہے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں اور دفاعی اداروں کا قومی نشان کنٹینر ہی ہونا چاہیے۔
کراچی کے ناظرین کراچی پورٹ پر اور پھر پورٹ میں آمدورفت رکھتے ٹرکوں کو دیکھتے ہوں گے جو ایک ایک کنٹینر اپنی پُشت پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ جو طویل ٹرک ہوتے ہیں وہ دو کنٹینرز لیے اِتراتے پھرتے ہیں کیونکہ اُن کو Long Vehicle کہا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں بڑی شاہراہوں پر کنٹینرز والے ٹرک بھی دیکھے ہوں گے۔ مال گاڑیوں (ریل) پر بھی نظر آتے رہتے ہیں۔ ریلوے سٹینشنز پر آپ کنٹینرز کی بھرمار دیکھتے ہوں گے.. مارسک لائن، سی لینڈ، چائنہ شپنگ کے کنٹینرز۔ خانیوال والے ہاتھ کھڑا کریں۔ وہاں کی ڈرائی پورٹ کافی مشہور ہے۔
خواتین و حضرات!.. آپ کی ہر چیز کبھی نہ کبھی کسی کنٹینر میں سوار ہو کر ہی آپ تک پہنچی ہوتی ہے، چاہے وہ کنٹینر بحری راستے سے آیا ہو، سڑکو سڑکی یا ریل کے ذریعے۔ پوری دنیا کی زیادہ تر شپنگ انڈسٹری کا انحصار کنٹینرز پر ہے۔ چائنہ سے مال آئے یا جہاں مرضی سے، 99% چانس ہے کہ وہ کنٹینرز میں آیا ہے۔
زیادہ تر کنٹینرز 20 فُٹ طویل، 8.5 فٹ بلند، اور 7 فُٹ چوڑے ہوتے ہیں۔ کچھ کنٹینرز 40 فُٹ طویل بھی ہوتے ہیں۔ 20 فٹ والے کو TEU کہتے ہیں اور 40 فُٹ والے کو FEU کہتے ہیں۔ اگر اِن کنٹینرز میں ایرکنڈیشننگ لگی ہو تو اُنہیں Reefers کہا جاتا ہے۔ کچھ کنٹینرز کو تبدیل کر کے آفس بھی بنایا ہوتا ہے جو تعمیراتی مقامات پر نظر آتے ہیں۔
کہہ سکتے ہیں کہ کنٹینرز کا حجم آپ کے ایک کمرے جتنا ہوتا ہے۔ دو چار کنٹینرز کو اُتے تھلے رکھ کر آپ گھر بھی ڈیزائن کر سکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں لوگ یہی کرتے ہیں۔
اب جبکہ آپ کو کنٹینر کے سائز اور اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہو گا، ذرا بتائیے کہ ایک بحری جہاز پر کتنے کنٹینرز لوڈ کیے جا سکتے ہیں؟ بحری جہاز دیکھا ہے؟
دِل تھام لیجیے.. جہاں ٹرک پر ایک یا دو کنٹینرز آتے ہیں اور ریل پر تیس چالیس کی قطار ہوتی ہے، آجکل کے بڑے بحری جہاز پر 20 ہزار سے زیادہ کنٹینرز کو لوڈ کیا جاتا ہے۔ جی ہاں.. 20 ہزار کنٹینرز.. بلکہ 700 سو مزید ڈال لیں۔ بعض جہازوں پر 24 ہزار کنٹینر کی بھی اطلاعات ہیں جیسا کہ کوریا کی HHM کمپنی کے جہاز، یا سوٹزرلینڈ کی MSC کمپنی، یا فرانس کی CMACGM کمپنی، یا چِین کی OOCL کمپنی، یا ڈنمارک کی Maersk کمپنی کے دیوزاد جہاز۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے جہاز ہیں۔ جبکہ تائیوان کی Evergreen کمپنی کے جہاز 20 ہزار 700 کنٹینرز کے حامل بلکہ حاملہ ہوتے ہیں۔ اِن جہازوں کی لمبائی 400 میٹر (1300 فٹ سے زیادہ) ہوتی ہے۔ نیویارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ جتنے طویل ہوتے ہیں۔ آپ کے دو چار محلے اِس میں سما جائیں گے۔ اِن جہازوں کا وزن سوا دو لاکھ ٹُن یا اِس سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ پانی کے اندر 48 فٹ تک بیٹھتے ہیں۔ کچھ جہاز اِس سے بھی نیچے تک جاتے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ 161 برس قدیم دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہ نہر سوئز جو کہ مصر میں ایشیا اور افریقہ کے درمیان موجود ہے، گزشتہ منگل وہاں Evergreen کمپنی کا EverGiven کنٹینر جہاز نہر کے کنارے چڑھ گیا اور پوری شپنگ ٹریفک کو بلاک کر دیا۔ جہاز نے ملائشیا کی بندرگاہ تانجنگ جوہر سے سفر شروع کیا تھا اور نیدرلینڈز کی بندرگاہ روٹرڈیم جا رہا تھا۔
نہر کی چوڑائی 200 میٹر (656 فٹ) ہے، یعنی جہاز کی لمبائی سے آدھی۔ درمیان میں نہر 78 فٹ گہری ہے مگر کناروں پر گہرائی کم ہوتی جاتی ہے۔ اس لیے جہاز کو درمیان میں رکھنا ہوتا ہے ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا، واہ۔ EverGiven جہاز جیسے ہی ڈِنگا ہوا، پوری نہر کی چوڑائی بلاک ہو گئی اور ابھی تک بلاک ہے۔ اب Unblock نہیں ہو پا رہی۔ اِس وقت سیکڑوں جہاز دونوں جانب اینکر کیے ہوئے انتظار کر رہے ہیں کہ کب بھائی صاحب (یا جہازوں کی اصطلاح میں، "بہن جی") نکلیں۔ جنوبی اینکر کی جگہ کا نام بہت مزیدار ہے "کڑوی جھیل"۔ اس دوران Maersk اور کچھ دوسری کمپنیاں اپنے جہازوں کو ساؤتھ افریقا روٹ کی جانب موڑ چکی ہیں۔
ایک اور روٹ بھی ہے جو مشرقِ بعید سے یورپ کے لیے سوئز روٹ سے بھی چھوٹا ہے۔ وہ ہے دائرہ قطب شمالی روٹ۔ یہ روٹ ایشیا سے شمال میں بحرِ قطب شمالی میں موجود ہے۔ مگر فی الحال برف کی وجہ سے قابلِ استعمال نہیں۔ جیسے جیسے گلوبل وارمنگ ہوتی جائے گی، یہ روٹ کھلتا جائے گا، تب سوئز کی ٹریفک کم ہو جائے گی۔ حالیہ واقعہ نے سوئز کی نزاکت واضح کر دی ہے۔ اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب شمالی روٹ مناسب ہو جائے گا۔ چند دہائیوں کی بات ہے بشرطیکہ نوعِ انسان ماحولیات بارے اسی طرح بے وقوف رہے۔ روٹ میپ کے لیے البم میں تصویر دیکھیے۔
اب جہاز کو ہوا کیا؟ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ فی الحال دنیا کا ہر چینل اِس خبر کو نشر کر رہا ہے کیونکہ بہت تشویش ناک صورتحال ہے۔ دنیا کی 12% ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک کی درآمدات و برآمدات معطل ہوئی بیٹھی ہیں۔ یوں ایک جانب کرونا وائرس کی لہروں سے زندگی معطل ہوئی ہے تو دوسری جانب ایک جہاز نے لہریں روک کر زندگی معطل کر دی ہے۔ حساب برابر۔ تفصیل کے مطابق دنیا کو 4 لاکھ ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے نقصان ہو رہا ہے۔ اِس صورتحال پر جہاز کی جاپانی مالکان کمپنی "شوئی کیسن کیشا" کی جانب سے معذرت نامہ بھی آ چکا ہے۔ ذرا تصور میں جاپانیوں کو جھک کر معذرت کرتا دیکھیے۔ یاد رہے کہ تائیوانی کمپنی EverGreen اِس جہاز کو صرف اوپریٹ کر رہی ہے، مالک نہیں ہے۔ ابھی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ اصل میں کتنا عالمی نقصان ہوا۔ جب جہاز نکلے گا، تب خسارہ کا دوبارہ حساب ہو گا جو کہ اربوں ڈالر میں ہو گا۔ فی الحال اینکر کیے ہوئے جہازوں میں جو سامان ترسیل سے رکا ہوا ہے، اُس کا تخمینہ 10 ارب ڈالر ہے۔ ویسے تقابل کے طور پر نوٹ کریں کہ سعودی عرب ہر کچھ عرصہ بعد 100 ارب ڈالر کا اسلحہ امریکا سے خرید لیتا ہے۔ بس ویسے ہی۔ اِس وقت پرابلم اشیائے ضرورت کا ہے جو پھنس چکی ہیں۔
انسانی ہاتھوں سے کھودی گئی نہر سوئز 193 کلومیٹر طویل ہے جو بحرِ احمر اور بحرِ روم کو آپس میں ملاتی ہے یوں مشرق بعید اور یورپ کا فاصلہ قدیم روٹ ساؤتھ افریقا کی جانب سے گھوم کر جانے کے مقابلے میں نہایت کم ہو جاتا ہے۔ بلکہ دو ہفتے بچ جاتے ہیں۔ مگر ہر جہاز کو وزن کے حساب سے کچھ لاکھ ڈالر ٹول ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے، پھر بھی لمبے رُوٹ کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔ نہر کا کچھ حصہ دو رویہ ہے مگر EverGiven جہاز نے اُس حصے میں پھنسنا مناسب سمجھا جو یک رویہ تھا۔ آجکل سے پہلے بھی نہر سوئز کو کئی بار بند کرنا پڑا تھا۔ دو بار تو جنگوں کی وجہ سے، ایک 1950s فرانس اور برطانیہ میں نہر کی اجارہ داری کے تنازعہ پر، اور دوسری بار 1960s میں عرب/اسرائیل جنگ کے دوران۔ اس کے علاوہ جب کبھی سنجیدہ تعمیرومرمت کی ضرورت پیش آئی، وقتی طور پر نہر بند ہوئی، مخصوص ایام سمجھ لیں۔ جیسے جیسے بحری جہاز بڑے ہوتے گئے، نہر کو بھی وسیع اور گہرا کرنا پڑا تھا۔ آخری مرمت 2014ء سے 2016ء کے مابین ہوئی تھی مگر ٹریفک چلتی رہی تھی۔ حالیہ نہر بندی کا اثر بہت زیادہ اِس لیے ہے کیونکہ دنیا کی بے قابو آبادی کے لیے زیادہ سے زیادہ شپنگ ٹریفک چل رہی ہے۔ آجکل ہر 24 گھنٹے میں 56 جہاز یہاں سے گزرتے ہیں (یا گزشتہ پیر تک گزر رہے تھے)۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر جہاز کو ہوا کیا تھا؟ سب سے پہلی وجہ جو سامنے آئی وہ تھی ریت کا طوفان۔ اُس طوفان کی وجہ سے نیویگیشن متاثر ہو گئی اور طوفان کی شدت سے جہاز دائیں جانب ڈھلک کر کنارے پر چڑھ گیا اور پشت مغربی جانب کر لی۔ جہاز بڑا ہو تو ہوا اور طوفان کا دباؤ بھی زیادہ وصول کرتا ہے۔ یوں نہر بلاک ہو گئی۔ مگر طوفانوں کی وجہ سے سوئز میں ہر جہاز کنارے کیوں نہیں چڑھ جاتا؟ آخر ہر روز بیسیوں جہاز گزرتے ہیں اور طوفان بھی آتے رہتے ہیں!!
اِس لیے یہاں ایک اور اہم وجہ بھی ممکن ہے۔ جہاز پر مکمل بھارتی عملہ موجود تھا، ٹاپ سے باٹم تک۔ اور بھارتیوں کے مزاحیہ واقعات دنیا بھر میں مشہور ہوتے رہتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ بھارتی سٹاف کے سر پر اگر دوسرے ممالک کے افسران (کیپٹن اور چیف انجینیئر) موجود ہوں تو وہ توجہ سے کام کرتے ہیں۔ اگر سبھی بھارتی ہوں تو لاپروائی ممکن ہوتی ہے۔ یہی جہاز کچھ ماہ پہلے جرمنی کی بندرگاہ ہیمبرگ میں ایک چھوٹے جہاز کو ٹھوک کر حادثہ کر چکا تھا۔ جاپانی کمپنی نے پہلے سبق نہ سیکھا تھا، اب سیکھ چکے ہوں گے کہ جہازوں پر ہمیشہ مکسڈ نیشنل سٹاف فائدہ مند ہوتا ہے۔ ایک ہی قوم کا سٹاف ہوم سویٹ ہوم سمجھ کر آپس میں لڈو کھیلتا رہتا ہے۔ البتہ دنیا فی الحال پاکستانی سٹاف سے ڈرتی ہے، ہمارا رعب ہی بہت ہے۔ اگر وہاں پاکستانی عملہ ہوتا تو بھارت نے اِس وقت پاکستان کی والدہ ہمشیرہ مدغم کر دینی تھی۔ نوٹ فرمائیں کہ مَیں نے یہ اپنا نظریہ پیش کیا ہے، پروفیشنلی اِس کا ذکر نہیں کیا جاتا ورنہ ریس-ازم کے فتوے لگ جاتے ہیں۔
جب سے جہاز پھنسا ہے، کئی ٹگ بوٹس اُسے بے دِلی سے ہلانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر 2 لاکھ 24 ہزار ٹن وزنی جہاز ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ پانی پر بہتا جہاز ہل جُل لیتا ہے مگر زمین سے لگا بھاری جہاز آسانی سے نہیں ہلتا۔ ستم ظریفی یہ کہ ٹگ بوٹس چونکہ خود پانی میں تھیں اس لیے جتنا جہاز کو کھینچتی تھیں، خود جہاز کی جانب کھینچی جاتی تھیں۔ ٹامک ٹوئیاں ہی چل رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جہاز کو مزید دو تین ہفتے لگ سکتے ہیں کیونکہ مصری انتظامیہ کچھ نہیں کر سکی اس لیے اب نیدرلینڈز کی کمپنی "بوسکالیس" نے جہاز کا انتظام کرنا ہے۔ نیدرلینڈز بڑے بڑے مسائل پیدا کرنے اور اُتنے ہی بڑے مسائل حل کرنے میں کافی مشہور ہے۔ دبئی کی حیرت انگیز تعمیر کے پیچھے بھی زیادہ تر نیدرلینڈز کی مشاورت برسرِ عمل ہوتی ہے، ورلڈ آئیلینڈز اور پام جمیرا وغیرہ سمیت۔ ویسے بھی جہاز نیدرلینڈز کے پروجیکٹ پر ہی تھا اور وہیں جا رہا تھا۔
اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر کچھ مزاحیہ تصاویر بھی سامنے آئی ہیں۔ ایک کرین اپنے سے ہزاروں گنا (یا گناہ) بڑے اور بھاری جہاز کو سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس تصویر پر بہت Memes وجود میں آئے ہیں۔ ایک مِیم مسافرِشَب نے بھی شیئر کیا تھا، دوبارہ اٹیچ کروں گا۔
دعا کیجیے راستہ جلدی کلیئر ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید بچے نہیں ہو سکیں گے۔
Important Links:-
Ever Given Container Ship
Suez Canal
DW Video Report on EverGiven
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...