دن گذرتے رہیں گے ۔ ۔ یہ دکھ نہیں گزرے گا !
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دنوں کا دکھ
(سانحہء پشاور ۔ سولہ دسمبر)
عجب دن آ پڑے ہیں
بوڑھی صدیاں رات رو کر دیکھتی ہیں
صبح کے کاندھے پہ پھولوں کے جنازے ہیں
نہ اِن کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔۔۔۔۔ سکوتِ مرگ سے بھی سخت سکتہ
سِسکیوں کی راہ کو مسدود کرتا ہے
عجب سکتے کا پتّھر ہے
دنوں کو توڑتا گھایل دلوں پر آ پڑا
اب جو کسی کی چیخ سے دو نیم بھی ہوتا نہیں
کب سے یہاں سورج نہیں نکلا
کتابوں میں لکھے الفاظ مجھ سے پوچھتے ہیں
وقت کی تقویم میں کیسے یہ کالے دن لکھے تھے روشنی کے نام پر آ کر اندھیرے روشنی کا قتل کرتے ہیں
مقدّس جسم اُدَھڑتے ہیں
تو وَحشت کے پرانے پتّھروں کے واسطے' یعنی نئی پوشاک سِلتی ہے
عجب دن آ پڑے ہیں
وقت کی تقویم سے باہَر کے دن ہیں
اُور مِرے شانوں پہ رکّھے ہیں
نہ ان کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔