عالم غیب، روح ، جنات، غیر مرئی مخلوقات، سات آسمان جنت، جہنم ، برزخ
یہ پڑھنے کے بعد آپ کبھی جنات، ارواح یا دوسری غیر مرئی مخلوقات کے بارے میں حیران و کنفیوزڈ نہیں ہونگے۔
سب سے پہلے ڈائمنشنز کو سمجھئے۔
کاغز پر بنا ایک فرضی نقطہ زیرو ڈائمنشن ہے جس کی نہ لمبائی ہے نہ چوڑائی ہے نہ لمبائی اور نہ اونچائی یا گہرائی۔
کاغز پر کھینچی لکیر 2 ڈائمنشن ہے۔ اس کے یہاں صرف لمبائی اور چوڑائی کا تصور ہے اونچائی کا نہیں۔ کاغذ یا کسی بھی سطح پر بنی ہر تصویر 2 ڈائمنشن ہے۔ وہ اگر دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو تو صرف لمبائی چوڑائی ہی دیکھ سکتی ہے۔ یہی اس کی کل کائنات ہے۔ اونچائی یا گہرائی کا اس کے یہاں کوئ تصور نہیں۔ جبکہ تھری ڈائمنش میں جہاں اونچائی بھی شامل ہے ۔ وہ تھری ڈائمنشن والا اس لکیر کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ وہ تھری ڈائمنشن ہے اور بقایا دو ڈائمنشنز میں مداخلت پر قادر ہے۔ جبکہ لکیر اس کو دیکھنے پر قادر نہیں کیونکہ تھرڈ ڈائمنشن تک اس کی رسائی ہی نہیں ہے۔ اب اگر تھری ڈائمنشن والا لکیر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گا تو لکیر کو محسوس تو ہوگا لیکن نظر نہیں آئے گا اور وہ اس کو ایک غیر مرئی مخلوق یا غیب قرار دے گی۔
اب تھری ڈائمنشن والا اس لکیر کے اوپر کچھ رکھ دے کچھ تعمیر کرلے اس کے اوپر زندگی گزارے لکیر اپنی ٹو ڈائمنشن میں قائم اس سے بے خبر رہے گی کیونکہ اس کے یہاں اونچائی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اسی طرح ہم انسان تھری ڈائمنشن ہیں جو چار ڈائمنشنز میں زندگی گزارتے ہیں ۔ وقت چوتھی ڈائمنشن ہے۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ لمبائی چوڑائی اور گہرائی یا اونچائی ۔ یہ تین ڈائمنشنز مل کر اسپیس بناتی ہیں اور وقت چوتھی ڈائمنشن ہے۔ اب تک کی سائنسی دریافت کے مطابق 11 ڈائمنشنز دریافت ہو چکی ہیں۔ تو جب ہم غیر مرئی مخلوق جنات آسیب وغیرہ کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم پانچویں اور دیگر ڈائمنشنز کی بات کرتے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم ان نہیں دیکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ہماری زندگی میں دخل اندازی کرتے ہیں تو ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ یہ کونسی غیر مرئی مخلوق ہے، یہ جو اکثر عامل حضرات وغیرہ بتاتے ہیں کہ فلاں درخت پر جنات کا پورا قبیلہ آباد ہے یا فلاں گھر میں جنات کا بسیرا ہے تو اس کا مطلب وہاں کی ففتھ ڈائمنشن میں جنات یا غیر مرئی مخلوق آباد ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ روح کسی چھٹی ڈائمنشن میں بسیرا کرتی ہو۔ اسی طرح جو سات آسمان اور جنت جہنم عالم برزخ عالم ارواح یہ سب مختلف ڈائمنشنز کے نام ہیں۔ جو سب اسی کائنات میں ایک دوسرے کے پیرالل یعنی متوازی موجود موجود ہیں۔ ہم انسانوں کو وقت اور زمان یعنی ٹائم اور اسپیس میں قید کردیا گیا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم کو مادی اجسام عطا کئے گئے ہیں۔ میرا ذہن یا سوچ تو روشنی کی رفتار سے بھی تیز حرکت کرسکتے ہیں لیکن کیونکہ میں مادی جسم میں قید ہوں تو مجھے اپنا وجود کہیں لے جانے کے لئے اسپیس سے گزرنا ہوگا۔ اس اسپیس سے گزرنے کے لئے مجھے وقت درکار ہے۔ میں کراچی میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کرکے ایفل ٹاور پہنچ سکتا ہوں، میرے ذہن میں اس کی مکمل تصویر اور سراؤنڈنگز موجود ہونگی لیکن جب تک میں ہوائی جہاز میں بیٹھ کر گھنٹوں کا سفر طے کرکے اپنے مادی وجود کو ایفل ٹاور تک نہیں لے جاؤں گا میں وہاں پر موجود نہیں سمجھا جاؤں گا۔ اگر میرا مادی وجود نہ ہو صرف ذہن اور سوچ ہوتو میں پلک جھپکتے میں زمین تو کیا کسی بھی سیارے تک بھی پہنچ سکتا ہوں۔ صرف خیال آنا کافی ہے جیسے حضرت سلیمان کے دربار میں آصف بن برخیا ملکہ سبا کا تخت لائے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔ یہ ڈائمنشنز کا حصار توڑ دیا گیا تھا۔ زمان اور مکان کی قید سے آزاد کر کے ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکتے میں حاضر کردیا گیا تھا۔
اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنے علم کی بنیاد پر ان ڈائمنشنز کو توڑ سکتا ہے۔ معراج نبیﷺ بھی یہی تھی کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ پر سے زمان و مکان کے پردے ختم کردئے تھے۔ کہ جب آپ سات آسمانوں کی سیر اور رب تعالی سے ملاقات کے بعد واپس اپنے بستر پر پہنچے تو آپ کا بستر تک گرم تھا۔
مراقبہ میں مہارت سے آپ اپنے آپ پر سے یہ ڈائمنشنز کی گرفت ختم کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ حالت مراقبہ میں بھی اللہ نے آپ کی حد جہاں اور کس ڈائمنشن تک رکھی ہے۔ جیسا کہ حضرت جبرائیل ؑ بھی ایک مقام سے آگے نہیں جاسکتے تھے۔ مراقبہ میں آپ کا جسم تو اس چار ڈائمنشنز والے جہان میں رہ جائے گا لیکن آپ خود دوسری ڈائمنشنز کی سیر کررہے ہونگے۔ جیسا کہ آپ خواب میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ کا جسم بستر پر لیٹا ہوتا ہے اور آپ نہ جانے کن ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کررہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ خواب میں اسپیس اور وقت نہیں ہوتا تو آپ یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ابھی آپ یہاں تھے تو اچانک منظر بدل گیا اور آپ کسی دوسری جگہ موجود ہیں۔ فرض کیجئے آپ خواب میں کوئی انتہائی لذیذ نعمت کھا رہے ہیں اور اس کے ذائقے سے سرشار ہیں لیکن آنکھ کھلنے پر آپ دیکھتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ہر شے مادی طور پر برتنے کے عادی ہیں۔ اسی طرح اگر آپ خواب میں خود کو جلتا ہوا دیکھیں جس کی شدید تکلیف آپ کو محسوس ہوتی ہے اور پھر اچانک آنکھ کھلنے پر آپ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ حقیقت نہیں تھی صرف خواب تھا۔ اب فرض کیجئے کہ آپ کی آنکھ ہی نہ کھلے تو آپ مستقل اس عذاب اور تکلیف کو محسوس کرتے رہیں گے۔ شاید یہی جہنم ہے۔
روحانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ دراصل انسان کو جو جنت سے نکالا گیا تو اس وقت وہ چند ڈائمنشنز کے علاوہ تمام ڈائمنشنز پر قادر تھا۔ پھر اس کی غلطی کی سزا کی پاداش میں اس کو زمان و مکان کی ڈائمنشنز میں قید کردیا گیا، جہاں وہ اپنی پر خواہش کی تکمیل کے لئے مادیت کا محتاج ہے، مجھے اسٹرابیری آئسکریم چاہئے۔ تو میں دودھ لاؤں گا، شکر لاؤنگا۔ اسٹرابیریز لاؤنگا۔ آئسکریم کو بنانے کے طریقے کے مطابق نہ جانے کتنے مراحل سے گزر کر آئسکریم تیار ہوگی۔ فریزر میں ٹھنڈی ہوگی۔ اب یہ ساری تگ و دو اور محنت میں صرف اور صرف اس لئے کررہا ہوں کی میری زبان کو آئسکریم کا ذائقہ، خوشبو اور ٹھنڈک محسوس ہو۔ پھر میں اس کو کھاونگا تو میری زبان کے ذائقے کے غدود میری ناک میری زبان مجھے اس کی ٹھنڈک شیرینی خوشبو اور ذائقے سے آشنا کریں گے جس کا میں لطف اٹھاؤنگا، اور آئسکریم سے مجھے یہی مقصد حاصل کرنا تھا۔ اب یہ تمام احساسات میرے دماغ میں موجود کچھ اعصاب یا ریسیپٹرز کی وجہ سے محسوس ہونگے۔ اگر میرے دماغ میں وہ ریسپٹرز موجود نہ ہوں تو آئسکریم کا ذائقہ خوشبو اور ٹھنڈک میرے لئے بے معنی ہوگی۔ جیسا کہ آپ جانوروں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کو میٹھے کھٹے یا کڑوے ذائقے کی حس نہیں ہوتی۔ اونٹ بڑے شوق سے کڑا تھوہر چبا جاتا ہے۔ طوطا تیز سے تیز ہری مرچ مزے سے کترتا ہے۔ بلی کتا کو میٹھا محسوس نہیں ہوتا۔ یعنی ہمارے دماغ کا صرف ایک انچ جتنا حصہ ہمارے ذائقے خوشبو کی حس بناتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتو ہمارے لئے قورمہ بریانی متنجن حلوے اچار سب مٹی کا ڈھیر جیسا کہ آجکل کرونا کے مریضوں کی ذائقے اور سونگھنے کی حس ختم ہوجاتی ہے۔
اب آپ خود پر سے زمان و مکان اور مادیت کی ڈائمنشن ختم کردیجئے۔ صرف ذہن اور حسیات کو سامنے رکھئے۔ اب آپ پلک جھپکتے میں ہر طرح کی آئسکریم کا ذائقہ محسوس کرسکتے ہیں یعنی آپ جو سوچیں گے وہی نعمت بغیر کسی تگ و دو کے موجود۔ شاید یہی بہشت ہوگی۔
تو سارا گیم ڈائمنشنز کا ہے۔ کیا خبر کہ سائنسدانوں کی حل شدہ 11 ڈائمنشنز کے علاوہ اور کتنی ڈائمنشنز ہیں۔ ان میں کون کون سی مخلوق ہے۔ جس کی رسائ ہماری ڈائمنشن تک ہے اور نہیں ہے۔ سب کچھ یہیں موجود ہے لیکن ہم چار ڈائمنشنز میں قید قیدیوں سے اوجھل۔ یعنی اگر ہم ڈائمنشنز کی قید سے آزاد ہوجائیں یا مادی جسم سے نکل جائیں تو پھر آپ جس طرح انتہائ بلندی پر جاکر سارے شہروں اور اس سے بلندی پر جا کر پورے برااعظم اور اس سے مزید بلندی پر تمام براعظموں کو دیکھ سکتے ہیں ویسے ہی اس مادی جسم کی قید سے آزاد ہوکر ہر ڈائمنشن۔ یں ہر وقت موجود ہونگے۔ یا جتنی اللہ چاہے۔ سدرۃالمنتہی بھی نہ جانے کونسی ڈائمنشن ہے کہ جہاں فرشتوں تک کو پرمارنے کی اجازت نہیں ہے۔
تو پھر مان لیجئے کہ غالب ایک جینئیس تھا۔
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اس شعر کو آپ ڈائمنشنز سمجھے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتے۔
یہیں ہے بہشت یہیں ہے حور و جبرائیل بھی
تیری نگاہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں