دیمک دروازوں کو کھا رہی ہے۔ لکڑی آٹا بن بن کر فرش پر گر رہی ہے۔ چوکاٹھ کسی معجزے ہی سے کھڑے ہیں۔
الماریوں کو دیمک لگ چکی ہے۔ کپڑوں کے اوپر ہر روز لکڑی کا سفوف پڑا ہوا ہوتا ہے۔ بیڈ کھائے جا رہے ہیں۔ کھڑکیوں کے کواڑ گرنے کو ہیں۔
دیمک گھروالوں کے ساتھ اسی چاردیواری میں رہ رہی ہے۔ دن بدن اس کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ گھروالوں نے یہیں رہنا ہے۔ جہاں جہاں لکڑی کا آٹا نظر پڑتا ہے‘ صاف کر دیتے ہیں۔ کھانا کھا لیتے ہیں۔ سوتے ہیں۔ اُٹھ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں۔ دیمک ہر شے کو چاٹے جا رہی ہے۔
خالد حفیظ پڑوس میں رہتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ انہیں ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ سابق سرکاری ملازم یا ریٹائرڈ فوجی کو ترجیح دینے کا ذکر تھا۔ ایک صاحب نے انہیں فون کیا۔ کسی کے لیے بات کر رہے تھے۔ پڑھے لکھے لگ رہے تھے۔ اشتہار دینے والے صاحب نے پوچھا ’’کسی سرکاری دفتر میں یا فوج میں ڈرائیور رہا ہے؟‘‘ جواب ملا کہ اب بھی سرکاری دفتر ہی میں کام کر رہا ہے۔ عجیب چکرا دینے والا جواب تھا۔ ’’بھائی‘ جب سرکاری دفتر میں ملازمت کر رہا ہے تو ہماری گاڑی کیسے چلائے گا۔ ہمیں صرف شام کو نہیں‘ دن کے وقت بھی ڈرائیور کی ضرورت ہے‘‘۔ اب کے جو جواب ملا‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ عجیب تھا۔ ’’یہ آپ کا مسئلہ نہیں‘ آپ کے کام میں حرج نہیں ہوگا‘‘۔
اشتہار دینے والا سیدھا سادھا بزرگ جب یہ واقعہ حیرت سے سنا رہا تھا تو سننے والا ذرا بھی حیران نہیں ہو رہا تھا۔ یاد آیا کہ ایک دوست کے ہاں ایسا ہی ایک سرکاری ملازم عرصہ سے ڈرائیور کا کام کر رہا ہے۔ دارالحکومت کے ایک بڑے محکمے سے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اُس تنخواہ میں سے ایک طے شدہ رقم اُس شخص کے حوالے کرتا ہے جو سرکاری دفتر میں اس کی حاضری لگانے‘ نگرانی کرنے اور پھر تنخواہ دینے کا انچارج ہے۔ مہینے میں دو تین بار دفتر کا پھیرا لگا لیتا ہے اور اطمینان سے ’’پرائیویٹ‘‘ نوکری کر رہا ہے۔ بتا رہا تھا کہ بہت سے لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔
آپ کا خیال ہے یہ تیربہدف نسخہ صرف ایک آدھ محکمے میں آزمایا جا رہا ہے؟ اور صرف دارالحکومت میں آزمایا جا رہا ہے؟ تو کیا یہ عام سی بات ہے؟ کیا یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے؟ بظاہر یہی لگتا ہے۔ کروڑوں‘ اربوں‘ کھربوں کے ڈاکے سرکاری خزانے پر پڑتے ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ وزرا ہفتوں دفتر نہیں آتے۔ کرپشن ایک جنگل بن چکی ہے جس میں درندوں‘ سانپوں اور خون چوسنے والے حشرات الارض کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ایسے میں اُس ڈرائیور کا اتنا بڑا قصور کیا ہے جو پندرہ بیس تیس ہزار کی تنخواہ کا ٹیکہ حکومت کو لگا رہا ہے!
دلیل وزن رکھتی ہے۔ لیکن مسئلہ رقم کی مقدار کا نہیں! مسئلہ معاشرے کے فیبرک کا ہے۔ تاروپود کا ہے۔ یہ کام ایک نہیں ہزاروں دفتروں میں ہو رہا ہے۔ سینکڑوں محکموں میں ہو رہا ہے۔ صوبوں‘ ضلعوں‘ کارپوریشنوں میں ہو رہا ہے۔ یہ ایک بیرومیٹر ہے جس سے معاشرے کی عمومی فضا کو ماپا جا سکتا ہے۔ یہ ظلم صرف ان پڑھ یا نیم خواندہ ڈرائیور نہیں ڈھا رہا۔ ہزاروں افسروں‘ وزیروں‘ منیجنگ ڈائریکٹروں‘ سیکرٹریوں‘ خودمختار اداروں کے بورڈوں کے ممبروں کے گھروں میں لاکھوں افراد اپنے ’’فرائض‘‘ سرانجام دے رہے ہیں۔ تنخواہیں سرکار سے لے رہے ہیں اور اُس کام کی لے رہے ہیں جو وہ نہیں کر رہے۔ یہ دیمک صرف دہلیز کو نہیں کھا رہی‘ دروازے کے اوپر والے کنارے کو بھی لگی ہوئی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک‘ جب بلاول زرداری کی ’’سیاسی ناپختگی‘‘ ان کے والد گرامی پر نہیں کھلی تھی‘ شہزادے کے گردوپیش جتنے نقیب‘ حاجب‘ محافظ‘ مصاحب اور عمائدین تھے‘ سب سندھ حکومت کی مالی مہربانی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور بڑے صوبے میں برادرِ خورد کی حکمرانی تھی تو برادرِ بزرگ کی خدمت میں حاضر رہنے والے ایڈوائزروں سے لے کر معمولی اہلکاروں تک سب صوبائی حکومت کے تنخواہ خوار تھے۔ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ شاہی خاندان کا ایک فرد حکومت کا حصہ نہیں‘ مگر عملاً صورتِ حال مختلف ہے۔
قومیں ہوائی اڈوں‘ میٹرو بسوں‘ موٹرویز اور مغربی فاسٹ فوڈ کی دکانوں سے ترقی نہیں کرتیں۔ وزیراعظم کا دفتر مغل طرزِ تعمیر کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ اگر اسے لال قلعہ بنا دیا جائے‘ اگر اس پر قطب مینار کھڑا کر دیا جائے‘ اگر غرناطہ سے الحمرا کے محراب اور جالیاں منگوا کر لگا دی جائیں‘ اگر استنبول سے عثمانی خلفا کے محل کا صدر دروازہ ’’بابِ عالی‘‘ منگوا کر یہاں نصب کردیا جائے‘ پھر بھی ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ قومیں اُس وقت ترقی کرتی ہیں جب کروڑوں کھربوں کا نہیں‘ ایک ایک پائی کا احتساب ہو‘ ایک ایک فرد دیانت دار ہو‘ ایک ایک لمحے کا حساب رکھا جائے۔ گھر کو گرانے کے لیے دھماکہ کرنا یا بُلڈوزر سے دیواریں گرانا ضروری نہیں‘ دیمک کا راج کافی ہے۔ اہلکاروں کا دفتروں سے غیر حاضر ہو کر پرائیویٹ کام کرنا محض ایک علامت ہے۔ یہ اس بیماری کی علامت ہے جسے بددیانتی اور حرام خوری کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو ریلوے کی پٹریاں چوری ہو کر بِک جاتی ہیں‘ ریلوے کی زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں‘ بوگیوں کی بوگیاں ریلوے کے ملازمین کے لیے وقف ہو جاتی ہیں۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ ریلوے ختم ہو جاتی ہے فقط ملازمین رہ جاتے ہیں اور ان کی تنخواہیں!
اس بیماری کا علاج نہ ہو تو قومی ایئرلائنوں میں ربع صدی تک ملازمین بغیر کسی اعلان یا اشتہار کے رکھے جاتے ہیں۔ اس میں کام کرنے والوں کے گھروں میں کمبل‘ گدیاں‘ صابن‘ یہاں تک کہ ڈنر اور لنچ بھی ایئرلائنوں کے جہازوں سے آتے ہیں۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ مسافر تھائی ایئرلائن کو سونپ دیے جاتے ہیں۔ یہ ’’انتقالِ مسافراں‘‘ صرف مشرقِ بعید میں نہیں‘ سارے سیکڑوں میں رونما ہوتا ہے۔
اس بیماری کا علاج نہ ہو تو سکولوں‘ کالجوں کی عمارتوں میں مویشی بندھ جاتے ہیں۔ ’’اساتذہ‘‘ اور سٹاف کی تنخواہیں کچھ ان کو گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں اور کچھ کہیں اور۔ یونیورسٹیوں پر سیاسی جماعتوں کے پوچھل (دُمیں) قبضہ کر لیتے ہیں۔ ایک ایک سیکرٹری اور ایک ایک وزیر کے پاس درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ سٹیل مل کا سربراہ چارج لینے کے بعد سب سے پہلے پوچھتا ہے… ’’میرے پاس کون سی گاڑی ہوگی؟ میرے گھر میں کتنی گاڑیاں ہوں گی؟ مجھے کیا کیا مراعات حاصل ہوں گی؟‘‘
دیمک بڑھتی جاتی ہے۔ دروازے گرنے لگتے ہیں۔ چوکاٹھیں سجدہ ریز ہو جاتی ہیں۔ تجارت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ روپیہ کوڑیوں کے مول بکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے نمائندوں کو سیکرٹریٹ میں باقاعدہ کمرے الاٹ ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف والے دبئی طلب کرتے ہیں۔ پیدا ہونے والا ہر بچہ آنکھ کھولتے ہی سینکڑوں ڈالر قرضے تلے دبا ہوا ہوتا ہے۔ جنہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر دیے ہوئے ہوتے ہیں‘ وہ خدمات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وزیر نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ بڑے ملکوں کے صدر اور وزراء اعظم دہلی سے ہو کر چلے جاتے ہیں۔ بیروزگار نوجوان بندوقیں اٹھا کر دہشت گرد بن جاتے ہیں‘ دارالحکومت تک کے سیکٹر ڈاکوئوں کے گینگ آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ لوگ بجلی‘ گیس اور کبھی آٹے‘ گھی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر ذلیل ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان ہجرت کر جاتے ہیں۔ ملک کی قسمت کے فیصلے سمندر پار ہوتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔