سینئر اور ممتاز تجزیہ کار جناب مظہر عباس کی یہ تجویز بلا شبہ قابل غور ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت تھی۔ مظہر عباس صاحب نے تو یہ مشورہ اس تناظر میں دیا کہ جو فوج کے ایک اعلی افسر کا نام لے کر عمران نیازی نے اپنی جان کو لاحق خطرہ بتایا۔ اب سے تیرہ ماہ قبل سے عمران نیازی اس نوعیت کے متعدد بیانات دے چکے ہیں اور اور سی نوعیت کے بے بنیاد الزامات لگا چکے ہیں ، عمران نیازی کے بقول تو انہوں نے ایک وڈیو میں چار شخصیات کے ناموں کا بھی بیان کیا ہے کہ جو وڈیو ایک محفوظ مقام تک پہنچا دی گئی ہے سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کا نام لے کر بھی عمران ایسا بھونڈا الزام لگا چکے ہیں۔ تو رسم دنیا بھی اور موقع بھی کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے کہ جو عمران کے بیانات اور الزامات کی بنیاد پر ہو کہ عمران کی جان کو ہر دو ماہ بعد کسی نئی شخصیت سے جان کو خطرہ کیوں ہوتا ہے۔
ایک جوڈیشل کمیشن وزیرآباد میں عمران پر ہونے والے مبینہ حملے کے حوالے سے بھی ہو کہ جس میں شوکت خانم ہسپتال نہیں بلکہ کسی معتبر سرکاری ہسپتال سے میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر ہو۔ شوکت خانم ہسپتال کے آڈٹ کے لیے بھی ایک جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہسپتال کتنے مریضوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے ، اس ہسپتال میں آنے والی اب تک کی کل امداد کتنی ہے اور اس میں سے کتنی ہسپتال کے استعمال میں آئی یا لائی گئی اور کتنی سیاسی اور تخریبی مقاصد کے لیے۔ عمران نیازی کے اثاثوں اور آمدن کے تفتیش کے لےلیے بھی کمیشن کی اشد ضرورت ہے۔ اور بنی گالا کی ملکیت کن غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی اور کس طرح چند لاکھ کا جرمانہ کرکے بیک جنبش قلم تمام غیر قانونی معاملات قانونی ہوگئے ؟ ناجائز اولاد اور ناجائز اولاد کا خفیہ رکھنا کیا سب کے لیے قانونا جائز ہے یا صرف کشکول عمران نیازی کےلیے ؟
اپنے وقت کے کرکٹ کے سپر اسٹار جاوید میانداد کے بقول ہم تو پچیس تیس سال سے عمران کو مانگتے ہوئے ہی دیکھ رہے ہیں۔ جو شخص ذاتی طور پر مانگتا مشہور ہو اور اسے اس کے نام کے بجائے کشکول خان کہا جاتا ہو ایسا شخص ملک اور اور قوم کی خودداری کی بات کیسے کرسکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ منافق ، خائن ، دروغ گو ، بد دیانت ، ظالم اور متقی کی جو جو بھی اور جس جس زاویے سے بھی تعریف کی جاسکتی ہے الحمدللہ عمران نیازی کی شخصیت اس پر پورا اترے گی۔
جیل بھرو تحریک کا قائد خود گرفتاری دینے سے گریزاں رہتا ہے اور اس پر اس کے مرشد کی دعاؤں کا ایسا فیض ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی مقدمے میں ضمانت کا تصور بھی کرتا ہے تو دنیا بھر میں ایک سو چھبیس ویں نمبر پر اعلی ترین انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ کے اہلکار ان کی آمد اور رجوع کرنے کے منتظر نظر آئے۔
عمران نیازی کی شکل سامنے آتے ہی ضیاءالحق کی دوہری شخصیت اور سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال جیسا طرز عمل آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
وہ متیقین میں اپنا شمار کرتے ہیں
منافقین میں اعلی مقام ہے ، ان کا
ظفر معین بلے جعفری
مسلح شرپسند عناصر نے ریڈیو پاکستان پشاور کی قدیم اور حسین عمارت کو بے دردی اور سفاکی سے نذر آتش کردیا۔ ریاست مدینہ کی دعویدار جماعت پی ٹی آئی کے مسلح شر پسند عناصر نے ریڈیو پاکستان کی قدیم عمارت پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آور دہشت گردوں کے پاس بندوقیں ، پستول اور آتش گیر مواد موجود ہے۔ تفصیلات کے مطابق ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو پی ٹی آئی کے دہشت گردوں اور شر پسند عناصر نے نذر آتش کردیا ہے۔ آگ کے شعلے اور کالا دھواں آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت میں موجود ملازمین اپنی جان بچا کر عمارت سے باہر نکل آئے۔ تاہم ریڈیو پاکستان پشاور کے بہت سے شعبہ جات جل کر راکھ ہوگئے اور قیمتی اور نادر ریکارڈ جل کر راکھ ہوگیا۔ اسکول ، ایمبولینس ، سرکاری ہسپتال ریڈیو پاکستان کی قدیم عمارت ، الیکشن کمیشن کا دفتر سمیت سینکڑوں عمارتیں اور گاڑیاں نذر آتش کی گئی ہیں اور امید یہی کی جارہی ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری کا ہتھکنڈے شاید کام نہ آسکیں۔
عمران خان نیازی کی ساٹھ ارب کی کرپشن کے الزام میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پشاور میں پی ٹی آئی کے شر پسند عناصر نے اپنی انتہا پسندی کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔ پشاور میں ایدھی کی ایک ایمبولینس کو روک کر اس میں سے مریض ، تیمار داروں اور ڈرائیور کو نکال شرپسندوں نے ایمبولینس کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پشاور میں تاحال تیس ہلاکتوں اور پچاس شدید زخمیوں کی اطلاع دی جا رہی ہے۔ جبکہ لاہور میں مسجد ، کور کمانڈر ہاؤس ، اسکول ، ایمبولینس ، سمیت سینکڑوں عمارتیں اور گاڑیاں نذر آتش۔ محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں سو سے کے قریب ہلاکتوں کی نشاندہی کی جاسکی ہے۔ ایسے گروہ خیر کے نام پر شر بانٹتے ہیں۔
مبینہ طور ہر جس جس سے بھی ناتواں جان کو خطرات لاحق بتائے گئے ہیں ، ان تمام تر الزامات کی ، بنی گالہ کی قانونی حیثیت اور ملکیت ، فارن فنڈنگ ، بی آر ٹی ، توشہ خانہ اور یہ ساٹھ ارب کی کرپشن کا مقدمہ ایک طرف اور عمران ، پنکی ، فرح گوگی اینڈ کو کے دیگر تمام تر مقدمات کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقات اور تفتیش از حد ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماہ رواں کی نو ، دس اور گیارہ تاریخ کے بالوں ، ہنگاموں ، توڑ پھوڑ اور سرکاری و نجی نوعیت کی تمام تر املاک کو نذر آتش کرنے کے معاملے پر موجود شواہد اور ثبوت یکجا کرکے تمام تر آڈیو اور وڈیو لیکس کو تفتیش کا حصہ بنانا بھی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور ملک دشمنی پر اکسانے پر مجبور کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنانا ہوگا۔
پندرہ ، سولہ برس ہی گزرے ہوں گے کہ جب ۱۲ مئی کو شہر کراچی میں سو سے زائد افراد کو المناک انداز میں بربریت ، ظلم اور درندگی کا نشانہ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور سینکڑوں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں اور متعدد عمارتوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا تھا۔ جب کہ برسوں بعد ۱۲ مئی ۲۰۲۳ کو عدالت عالیہ اسلام آباد نے متعدد مقدمات میں نامزد ملزم ، ایک سیاسی جماعت کے قائد ، عدل و انصاف کے حوالے سے خلیفۂ ثانی کے معتقد اور ریاست مدینہ کے دعویدار عمران نیازی کو عدالتوں میں زیر سماعت متعدد قابل گرفت اور دہشت گردی ، شر انگیزی اور تخریب کاری سمیت متعدد مقدمات میں بھی خیر سگالی کے طور پر ضمانتیں قبل از گرفتاری منظور کرلیں اور یہی نہیں بلکہ عدالتی احکامات کے ذریعے عمران نیازی کو گرفتار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اہل کوفہ کی ہے انفرادیت ! واللہ
خیر کے نام پر شر بانٹنا ، سبحان اللہ
ظفر معین بلے جعفری
آئین میں ایک معمولی سی ترمیم کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست مدینہ کی دعویدار جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران نیازی کو کسی بدعنوانی ، چوری ، بد انتظامی ، بد دیانتی ، دروغ گوئی ، عہد شکنی ، ملک دشمنی ، الزام تراشی ، سرکاری املاک اور تنصیبات کو نذر آتش کرنے یا نقصان پہنچانے ، بہتان تراشی اور ملک دشمنی کے مقدمے میں نامزد نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی کی نااہلی کے باعث ایسا ہوجاتا ہے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اعلی ترین سطح پر معذرت کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ترمیم کی بھی گنجائش موجود ہے کہ عمران نیازی کو تمام تر قوانین سے بالا تر قرار اور تسلیم کیا جائے اور اگر کبھی انہیں کسی عدالت کا بھی وزٹ کرنا پڑ جائے تو کسی مہنگی اور اسٹینڈرڈ کی سواری میں انہیں وی آئی پی گیٹ سے اندر لایا جائے اور تو اور ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف انہی کو نہیں بلکہ ان کے پیروکاران میں سے بھی ہر کسی کو یہی مراعات حاصل ہوں۔ پبلک ڈیمانڈ تو یہ بھی ہے کہ انہیں بنا اجازت کسی بھی مقام پر جلسۂ عام سے خطاب کرنے کا بھی اختیار ہونا چاہیے۔ سب سے آسان طریقہ تو یہ بھی ہے کہ ترمیم میں یہ وضاحت بھی شامل ہو کہ ان کی کسی بھی مقدمے میں گرفتاری کو ممنوعہ قرار دیا جائے۔
حالیہ چند دنوں میں کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور حکومت سندھ کی نئی پیپلز بس سروس کی بھی برانڈ نیو بسیں نذر آتش کرنے کا اعزاز بھی ریاست مدینہ کی دعویدار جماعت کے متقین و معتقدین کو حاصل ہوا۔
کل عدالت سجائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
منصورہ احمد
عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانی عدلیہ خود مختاری ، خودداری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے حوالے سے نمبر ون پر آگئی۔ اور اب تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوجانی چاہیے کہ فی الحال تو جوڈیشل اسٹیبلشمینٹ نے خود کو برتر و اعلی بلکہ طاقتور ترین تسلیم کروا لیا ہے
عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانی عدلیہ خود مختاری ، خودداری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے حوالے سے نمبر ون پر آگئی۔ اور اب تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوجانی چاہیے کہ فی الحال تو جوڈیشل اسٹیبلشمینٹ نے خود کو برتر و اعلی بلکہ طاقتور ترین تسلیم کروا لیا ہے۔ ہمارے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اب تو ببانگ دہل عدالتی قتل کہا جاتاہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد متعدد کتابیں بھی لکھی گئیں اور نظم و نثر کے ذریعے ان کے عدالتی قتل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ ایک کتاب خوشبو کی شہادت بھی مرتب ہوئی تھی کہ جس میں ممتاز اور معروف شعرائے کرام کا کلام یکجا کیا گیا تھا۔ اب یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں کہ کس کا لیکن ایک بہت ہی اعلی و عمدہ نوحہ (غالبا ، شہرت بخاری) کا تھا لیکن اس نوحے کے بہت سے اشعار آج بھی یاد ہیں لیکن اس نوحے کے آخر میں ایک شعر یہ بھی تھا
انصاف یہاں قید میں ہے ، ظلم رہا ہے
بابا تیرے نعروں پہ بھی کوڑوں کی سزا ہے
ممتاز ، سینئر اور دلعزیز شاعر ، ادیب ، تجزیہ کار ، مقرر ، ڈرامہ نویس ، پندرہ سے زائد کتب کے مصنف ، استاذالاساتذہ اور کالم نگار جناب عطاءالحق قاسمی کے مشہور زمانہ شعر کو میں نے بطور خاص اپنی اس تحریر میں شامل کیا ہے۔
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
حالیہ تخریبی ، شرپسندانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کے بعد پنکی پیرنی کے کالے جادو اور ٹونے ٹوٹکوں کے اثرات مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے البتہ کافی حد تک کم ضرور ہوئے ہیں۔ شرپسند عناصر کی تخریبی سرگرمیاں یوں تو ملک بھر میں دیکھی گئی ہیں لیکن کراچی ، لاہور ، پشاور ، فیصل آباد ، راولپنڈی کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں اور کے پی کے ، کے متعدد علاقوں میں شدت پسندانہ انداز بھی نظر آیا۔ ریاست مدینہ کی داعی جماعت اور اس کے قائدین نے ان ملک دشمن سرگرمیوں میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈالا۔ انسانیت سوز بربریت کے بعد ان ہونی بھی تو ہو کر ہی رہنی تھی۔ اسٹیبلشمینٹ ، اسٹیبلشمینٹ کا شور کرنے والوں پر یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ جوڈیشل اسٹیبلشمینٹ بھی کم طاقتور نہیں ہے۔ ابھی اس واقعے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ممتاز اور ہر دلعزیز ماہر قانون اور سیاسی ایکٹیوسٹ جناب علی احمد کرد نے آئرن لیڈی محترمہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کے آغاز ہی میں سوال اٹھا دیا تھا کہ کون سی جوڈیشری ؟ اس جملے سے اپنے خطاب کا آغاز کرنے کے بعد وہاں موجود تمام منصفین تو نہیں البتہ جسٹس گلزار سمیت متعدد منصفین کے چہروں کو بے نقاب کردیا۔ جسٹس گلزار سمیت چند ، مسند انصاف پر براجمان کے چہروں کی اسی ہوئی رنگت اور چہرے کے تاثرات آج بھی یوٹیوب کا وزٹ کرکے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے محاسبہ کرنے کی حکمت عملی کے بعد موجودہ اور آئندہ سیاسی صورت حال واضح ہو رہی ہے۔ مستقبل کی سیاسی منظر نامہ صاف دکھائی دے رہا ہے اور مستقبل کے حکمرانوں میں قومی اور صوبائی سطح پر تو کجا ضلعی سطح پر بھی عمران نیازی المعروف کشکول خان کہیں نظر نہیں آرہے۔ بطور یا بحیثیت سلیبرٹی قدرت اور حالات نے جس کو حادثاتی طور پر حکمرانی عطا کی تھی ایسا سانحہ دوبارہ تو ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جاسکتی
جمال احسانی
ماہر حوریات اور ایم۔ ٹی۔ جے برانڈ سے پہچانے جانے والے اور مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے ماہانہ بحیثیت اداکار وصول کرنے والے مولانا طارق جمیل کہ جنہوں نے بھری محفل میں فتوی صادر فرمایا تھا کہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام بددیانت ، جھوٹے ، منافق ، چور اور بے ضمیر ہیں بس ایک شخص سچا اور صادق اور دیانت دار ہے اور وہ ہے عمران۔ مفتی طارق جمیل جزبات میں آکر اور بھی بہت کچھ کہہ ڈالا تھا اور اگلے ہی جناب مالک صاحب اور حامد میر صاحب نے انہیں لائیو پروگرام میں لائن پر لیا اور انہیں معافی مانگنے پر مجبور کردیا۔ اس کے کافی عرصہ بعد معروف صحافی اسد طور نے مولانا طارق جمیل اینڈ کو کی لوٹ کھسوٹ اور مالی بےضابطگیوں اور زمینوں پر ناجائز قبضے کے حوالے سے بہت سے وی لاگز بھی کر ڈالے اور اس کے بعد سے تو مولانا جیسے روپوش ہی ہوگئے ہوں۔ مولانا جیسے اور بھی بہت سے محبان وطن ہیںُ اور دین کے خدمت گار ہیں کہ جو کبھی ظلم ، بربریت ، ناانصافی ، ملک دشمنی کے واقعات اور اخلاقی اور انسانی جرائم کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے۔ مولانا نے کبھی نہیں کہا کہ عمران نے ملک کے عوام سے ووٹ لینے سے قبل جتنے بھی وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی وعدہ تو کجا کسی ایک وعدے کا دس فیصد بھی پورا نہیں کیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدلیہ نے متحرک اور چارج بلکہ اوور چارج ہونے کا جس انداز میں اظہار کیا ہے اس کی مثال شاید دنیا بھر کی عدلیہ کی تاریخ میں ملنا تو دشوار ہے۔ ہر عمل کا ردعمل بھی تو لازمی ہوتا ہے لہذا قانون نے اپنا راستہ اپنا لیا ہے اور یہ فیصلہ کن اقدام ثابت ہوگا۔ ممتاز اسکالر ، صحافی ، سو سے زائد کتابوں کے مصنف و مولف ، تجزیہ کار اور قادرالکلام شاعر سید فخرالدین بلے کے اس شعر پر یہ مختصر سی تحریر اختتام پزیر ہوتی ہے۔
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتۂ دیوار کون دیکھے گا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...