“وہ ایک فارغ شام تھی جب میں اپنے بیتے کی ویڈیو گیمز کھیل رہا تھا۔ بس ایک عام سی شوٹنگ والی ویڈیو گیم جس میں مخالف فوجی جن پر گولیاں چلانی تھیں اور بم پھینکنے تھے۔ کمروں اور ہال میں بس یہ گولیاں چلاتے رہنے اور ان لڑائیوں میں دشمن کو سکرین سے غائب کرنے والی اس شام کو اچانک مجھے ایک احساس نے آن لیا۔ زندگی میں پہلی بار اس زندگی کے بے ثباتی کے احساس نے۔ میں فانی ہوں۔ ہر کوئی یہ جانتا تو ہے لیکن کم ہی کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ ان چند گھنٹوں میں ہونے والی مسلسل اموات کو سکرین پر دیکھتے ہوئے جیسے دماغ کے کچھ سرکٹ آن ہو گئے تھے۔
موت اس سے پہلے میرے گھر کا چکر لگا چکی تھی۔ بارہ سال پہلے میری آتھ ہفتے کی بیٹی سوئی لیکن نیند سے بیدار نہ ہوئی۔ اس نے میری دنیا تو ہلا دی تھی لیکن پھر بھی یہ احساس کہ یہ میرے ساتھ بھی ہو گا، میرے ذہن میں اس طریقے سے واضح نہیں ہوا تھا۔ اس نئے احساس نے میری خوشی میں تو شاید اضافہ نہیں کیا، لیکن دانائی میں ضرور کر دیا۔
میں اپنی بیٹی کی قبر پر کبھی کبھار جایا کرتا تھا۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ بعد بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس کتبے کو ایک بار پھر دیکھا۔ اس کے نیچے ایک چھوٹی سی گھنٹی مٹی میں دبی ہوئی تھی۔ میں نے اس کو اٹھا کر دیکھا۔ مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ یہ گھنٹی یہاں تک کیسے پہنچی۔ اس نے مجھے احساس دلایا کہ نہ جانے میں کیا کچھ بھول چکا ہوں۔ اس احساس نے مجھ میں جیسے جذبات کا ایک بند کھول دیا۔ میری بیٹی یہاں کیوں ہے؟ یہ ٹھیک نہیں۔ بچے والدین سے پہلے تو اس دنیا سے نہیں جایا کرتے۔ میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور برستی بارش میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اپنی بیوی کو فون کیا۔ اس سے لمبی بات کر کے دل کو کچھ سکون ملا۔ ٹھیک جگہ پر، ٹھیک وقت میں، ٹھیک علامت بڑی پرانی اور دبی ہوئی یادوں اور جذبات کو جگا دیتی ہے۔ اس گھنٹی نے میرے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔
جب میں یونیورسٹی میں تھا، اس وقت پرائمل تھراپی کا مذاق اڑایا کرتا تھا، جب میرے دو ساتھوں نے یہ کروائی تھی، لیکن اب تیس سال بعد مجھے اتنا اعتماد نہیں ہے۔ آج مجھے علم ہے کہ میں اپنے آپ کو زیادہ نہیں جانتا۔ اگر آپ نے کبھی جذبات کی شدت والے حالات کا سامنا کیا ہے، خواہ وہ خوف کے ہوں، مایوسی کے، افسوس کے یا جوش کے تو جانتے ہوں گے کہ جذبات کا یہ طوفان آپ کا ذہنی استحکام خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ آپ کی ان خواہشوں، خوابوں اور جذبوں کو سامنے لے آتا ہے جن کو آپ خود نہیں پہچان سکتے۔ اور اگر آپ اس سے نہیں گزرے تو شاید اس کیفیت اندازہ بھی نہ کر سکیں۔“
یہ تحریر ایک نیورو سائنٹس کے محقق کی ہے جن کا کام اس سب کی سائنس کو جاننا ہے۔
یہ نیا نہیں۔ نطشے سے لے کر فرائیڈ تک لوگ ذہن کے ان تاریک گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن اس کو ذاتی واقعات سے ذرا ہٹ کر دیکھتے ہیں۔ (اگرچہ نفسیات فرائیڈ کے وقت سے بہت آگے بڑھ چکی لیکن ان کی اہم کنٹریبیوشن اسی بارے میں تھی)۔
میرا دماغ میرے جسم کو مانیٹر کر رہا ہے۔ محبت، خوشی اور خوف پیدا ہوتے ہیں۔ سوچیں آتی ہیں، ان پر غور کیا جاتا ہے۔ ان کو رد کر دیا جاتا ہے۔ پلان بنائے جاتے ہیں، یادیں بنتی ہیں۔ “میں” اس سب سے آگاہ نہیں۔ لیکن یہ سب خود اسی دماغ میں مسلسل جاری ہے۔
میرے دماغ کے یہ زومبی اس وقت بھی کام کر رہے ہوتے ہیں جب میں کچھ ٹائپ کر رہا ہوں، گاڑی چلا رہا ہوں، پہاڑ چڑھ رہا ہوں یا پھر باسکٹ بال کھیل رہا ہوں۔ یہ زومبی میرے مسلز اور اعصاب کی تال میل رکھتی ہیں جو میری سیکھی گئی مہارتیں ہیں اور میں انہیں کی مدد سے طرح زندگی گزارتا ہوں۔
آنکھ جھپکنا، کھانسنا، اونچی آواز سے چونکنا یا گرم برتن سے اچانک ہاتھ کھینچنا جیسے کلاسیکل ریفلیکس تیزرفتار ہیں۔ یہ میری ریڑھ کی ہڈی اور برین سٹیم کا کام ہے۔ جبکہ میرے زومبی سرکٹ دماغ کے اگلے حصے میں ہیں اور زیادہ پیچیدہ ہیں۔ جب میں پہاڑ پر چڑھنا سیکھ رہا تھا تو بڑی احتیاط اور سوچ سمجھ کر۔ پاوٗں کہاں اور کیسے رکھنا ہے۔ ہاتھ سے اور انگلیوں سے کس طرح معلوم کرنا ہے کہ گرپ کیسے کرنی ہے،۔ یہ پوری روٹین سنسری موٹر روٹین انتہائی پیچہدہ ہے۔ سینکڑوں گھنٹوں کی ٹریننگ کے بعد، اس روٹین کو بار بار دہرانے کے بعد یہ زومبی ایجنٹس کے پاس چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم جیسے یہ خود ہی کر لیتا ہے۔ سوچنا ہی نہیں پڑتا۔ دماغ کے اس آگاہی والے اور سست حصے سے یہ مہارت اس کے تیز سرکٹس کی طرف چلی جاتی ہے۔ (یہ نیورل ریسورس کا پری فرنٹل کارٹیکس سے بیسل گینگلیا اور سیریبلم تک منتقل ہونے کا سفر ہے۔) ایک دلچسپ تضاد یہ کہ جب اس کی طرف پھر توجہ کی جائے تو یہ تال میل بگڑنے لگتی ہے۔ پیانو بجانے والا یہ نہیں سوچتا کہ اگلی انگلی کہاں پر رکھنی ہے۔ اگر یہ سوچے گا تو دھن بگڑ جائے گی۔ (کسی ٹینس کھیلتے مخالف کی گیم خراب کرنے کا حربہ یہ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ شاٹ کھیلنے کے بعد ہاتھ کا کس قدر خوبصورت فالو تھرو کرتا ہے)۔
میرے دماغ کے یہ زومبی پانی کا گلاس پینے سے لے کر بانسری بجانے تک تمام مہارتیں مجھ سے چھپا کر رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ ایک ٹھیک کام کرنے والا دماغ ان اپنے ان مختلف راستوں میں آنے والی انفارمیشن کو اچھی طرح مضبوطی سے جوڑ دیتا ہے کہ ہم ان کے فرق کو محسوس بھی نہیں کر سکتے۔
What does the man actually know about himself? If he, indeed, ever able to perceive himself completely, as if laid out in a lighted display case? Does nature not conceal most things from him – even concerning his own body – in order to confine him and lock him within a proud, deceptive consciousness, aloof from the coils of the bowels, the rapid flow of the blood stream, and the intricate quivering of the fibres! She threw away the key.
-Nietzsche, On Truth and Lying in an Extramoral Sense