ویانا کا تھیٹر۔ آرکسٹرا کی دھنوں سے محظوظ ہوتا بڑا مجمع۔ ان دھنوں کو ترتیب دینے والا موسیقار مجمع کی طرف پیٹھ کئے کنڈکٹر کے آگے کھڑا پرجوش طریقے سے اپنی طرف سے آرکسٹرا کو ڈائریکٹ کرتا ہوا۔ ستر منٹ کی اس پرفارمنس کا اختتام ہوا۔ موسیقار کو پتہ نہیں لگا۔ کسی نے اس کا کندھا پکڑ کر اس کا رخ مجمع کی طرف کر دیا۔ تمام سننے والے کھڑے ہو کر تالیاں اور سیٹیاں بجا رہے ہیں، ٹوپیاں فضا میں اچھال کر داد دی جا رہی ہے۔
یہ ۷ مئی ۱۸۲۴ کا دن ہے۔ یہ جرمن موسیقار بیتھوون ہے جس کا شمار آج تک کے عظیم ترین موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ یہ پرفارمنس سمفونی نائن ہے جو آج تک کی سب سے زیادہ بجائی جانے والی اور سنے جانے والی سمفونی ہے۔ بیتھوون کی زندگی کا سب سے مشہور شاہکار تھا۔
لیکن اس وقت کا اور اس کہانی کا یہ ہیرو سماعت سے محروم ہے۔ نہ ہی یہ مجمع کی داد سن سکا اور نہ ہی آرکسٹرا پر بجنے والی یہ دھن۔
بیتھوون کی زندگی کی اپنی رنگارنگ کہانی ہے لیکن یہاں پر یہ سوال کہ اس نے یہ دھن اس وقت کیسے ترتیب دے لی جب وہ قوت سماعت کھو چکا تھا۔ ہم اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب آوازیں سنتے ہیں تو ان کا ذخیرہ دماغ میں بنتا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے کی گئی باتوں میں بھی ان الفاظ کو استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا دماغ یہ فرق کرنا جانتا ہے کہ کونسی آواز ہماری اپنی ہے اور کونسی باہر سے۔ جن لوگوں کا یہ کنٹرول سوئچ خراب ہو جائے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے کوئی اور ان کے دماغ میں آ کر ان سے باتیں کر رہا ہو۔ عظیم ریاضی دان جان نیش کا بھی یہ مسئلہ تھا۔
ہم اپنے آپ سے اس قدر اچھے طریقے سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو بیتھوون کی اس سمفونی سے عیاں ہے۔ ڈی مائینر میں ترتیب دئے گئے میوزک کو اپنے کانوں سے سننے کی ضرورت بھی نہیں پڑی اور اس کے لئے صرف دماغ کے کان کافی تھے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ کہ اگر حسیات استعمال کرنے والے دماغ کے سرکٹ زندگی کے ابتدائی سالوں میں نہ بنیں تو کبھی نہیں بن سکتے۔ پیدائشی طور پر نابینا کو خواب بھی بغیر تصویر کے نظر آتے ہیں۔ پیدائشی طور پر سماعت نہ رکھنے والے کو آواز کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی پیدائشی طور پر نابینا ہے اور دس سال کی عمر میں آنکھ ٹھیک بھی کر دی جائے تو مکمل طور ہر تندرست آنکھ کے ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں دیکھ سکے گا کیونکہ دماغ کا وہ حصہ ہی نہیں بنا۔